یہ ۱۹۹۸ کی بات ہے تب میں اُس دور دراز شہر میں نیا نیا ٹرانسفر ہو کر گیا تھا _
آفس میں میرے پاس چار چوکیدار تھے _ اُن میں سے دو کا ذکر کروں گا _
پہلے صاحب سوا چھ فٹ قد کے ساتھ گورے چٹے ، علاقے کی ڈومیننٹ فیملی کے زمیندار ، نیک اور شریف انسان تھے _ بس اُنہیں اپنی خاندانی برتری کا شِدت سے احساس تھا _ وقت بہ وقت ساتھیوں پر اپنے خاندان کی جھوٹی سچی دھاک بٹھانا اور دوسروں کو کم تر ثابت کرنا اُس کی عادت تھی _
میں اُسے بڑا صاحب کہوں گا _
دوسرے صاحب چھوٹے سے قد کے انتہائی خاکسار ، نیک اور شریف ، پارٹ ٹائم رکشہ ڈرائیور ، کالا رنگ ، بھدا سا جسم اور دل کے مریض _ علاقے کی انتہائی پسی ہوئی غریب ترین فیملی سے اُن کا تعلق تھا _
اُسے میں چھوٹا صاحب کہوں گا _
ایک دن چھوٹے صاحب ڈیوٹی پر آ رہے تو راستے میں ایکسیڈنٹ ہوا جس میں اُن کا بازو فریکچر ہو گیا اور ڈیوٹی کے قابل نا رہے _
سیکورٹی انچارج نے بڑے صاحب کو بولا کہ آپ اُسکے ہم رینک ہو تو اُس کی جگہ ڈیوٹی کرو گے _
جواب ملا کہ میں کسی کی بھی جگہ ڈیوٹی کر سکتا ہوں _ اِسکی ڈیوٹی نہیں کروں گا _ میں اتنا اعلٰی خاندانی آدمی _ اتنے کم ذات اور چھوٹے گھر کے آدمی کی جگہ ڈیوٹی کرنا میری توہین ہے _
حکم عدولی کا یہ کیس میری ٹیبل پر آیا _ میں نے اُسی وقت چھوٹے کی جگہ بڑے کی ڈیوٹی لگانے کا آفس آرڈر سائن کر کہ اِشو کر دیا اور یوں اُس نے کچھ دن ڈنڈے کے ڈر سے چھوٹے صاحب کے بدلے ڈیوٹی کی _
اسی دوران یہ افسوسناک بات میرے علم میں آئی کہ جو دس بارہ دن چھوٹے والا ہسپتال یا گھر رہا ، بڑا ایک بار بھی اُسکی عیادت کو نا گیا _
اس واقعہ کو کچھ دن گزرے تو ایک دن چھوٹا صاحب ہانپتا کانپتا اِنتہائی پریشان میرے پاس آیا کہ سر _ بڑے صاحب کا سامنے سڑک پر ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ سڑک کنارے لاوارث پڑا ہے _ میں اُسے اٹھا کر ہسپتال لے جانا چاہتا ہوں _ یہ سن کر میں نے فوراً گاڑی نکالی اور ہم دونوں نے اُسے اُٹھا کر ہسپتال پہنچایا _
بڑے والے کا گھر شہر سے دور جبکہ چھوٹے والے کا شہر میں تھا _
اگلے دس بارہ دن چھوٹے صاحب بڑے کے اٹنڈنٹ بن کر اُس کے ساتھ ہسپتال میں رہے _ اپنا خون دیا _ اُسکی گندگی صاف کی _ کپڑے دھوئے _ اپنی پاکٹ سے خرچ کیا _ تین ٹائم کا کھانا اپنے گھر سے منگواتا رہا اور ہسپتال میں تمام تر مہمان داری بھی بھگتائی جبکہ بوقتِ ضرورت اُسکی جگہ آفس میں ڈیوٹی بھی کی لیکن کسی طرح احسان نا جتایا _
اس واقعہ کو بائیس سال گزر چُکے _ وہ والا چھوٹا صاحب پانچ چھ سال پہلے فوت ہو چُکا لیکن آج بھی اُس کا کردار اور خالص پن میرے دل میں زندہ ہے اور زندہ رہے گا _ ❤❤❤