سقراط ایک روز کسی مذہبی تہوار میں شرکت کی غرض سے ایتھینز کی بندرگاہ "پی ریز" گیا جو شہر سے دس گیارہ میل فاصلے پر تھی. مذہبی فریضوں سے فارغ ہوکر وہ ایتھینز واپس جارہا تھا کہ راہ میں اسکی ملاقات ایک دوست پولے مارکس اور افلاطون کے دو بھائیوں سے ہوگئ پولے مارکس پی ریز کا باشندہ تھا اُس نے سقراط سے کہا کہ رات کو مشعل بردار گھوڑے نکلے گے تو آپ یہ جلوس دیکھیے اور رات ہمارے ساتھ گزارے، سقراط نے پولے مارکس کی درخواست منظور کی اور اسکے گھر چلا گیا.
پولے مارکس کے والد کے ساتھ سقراط کی بڑھاپے کے متعلق بات ہارہی تھی کہ بات نکلتی ہوئی عدل تک جاپہنچی سب نے عدل کہ متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا، کسی کے نزدیک دوستوں سے بھلائی اور دشمنوں سے برائی کرنے کو عدل کہتے ہے اور کوئی کہتا عدل قوی کے مفاد کا تحفظ ہے، اپنی رائے دینے کے بعد سب سقراط کی رائے کا انتظار کرنے لگے سقراط
کہتا ہے کہ
"فرد کے ذہن میں انصاف کے تصور کی جستجو کرنے کی بجائے کیا یہ بہتر نا ہوگا کہ پورے شہر میں انصاف کے کردار کی تلاش کی جائے کیونکہ فرد تو اس شہر کا ایک جُز ہے"
لوگوں نے سقراط کی بات سے اتفاق کیا تو سقراط نے کہا آؤ دیکھے شہری زندگی میں انصاف پر کیا گزری. اس نے اس سنہری دور کا نقشہ کھینچنا شروع کیا جب شہر نئے نئے آباد ہوئے تھے. آبادی کم تھی اور ہر شہری کا ایک نا ایک پیشہ (کام، روزگار) تھا کوئی لوہار تھا کوئی جولاہا تو کوئی معمار تھا وہ سب ملکر ایک دوسرے کی بنیادی ضروریات کی چیزیں پیدا کرتے تھے البتہ ایک پیشہ والا دوسرے پیشے والے کے کام میں دَخل نا دیتا تھا اور سب بہت خوش رہتے تھے، نا کوئی شاہ نا کوئی گداہ سب برابر تھے. سقراط کے نزدیک یہ ایک تندرست شہر ہے جہاں سب مساوی حقوق کے مالک ہے.
مگر سقراط کے نزدیک شہریوں نے اس سادہ زندگی پر قناعت نا کی اور انھیں لذیذ خوراک عمدہ پوشاک عالی شان گھر سونے چاندی کے زیورات اور آرائش و زیبائش کی چیزوں کی ہوس ستانے لگی چناچہ ہر نوع کے صناع اور دستکار دور دور سے آکر شہر میں آباد ہونے لگے، شہر کی آبادی اور دولت بڑھنے لگی تو شہر کے نظم و نسق کا مسئلہ اٹھا اور شہر باقاعدہ ریاست بن گئے.
افلاطون کے دعوہ کے مطابق اس وقت تک پانچ قسم کی ریاستوں کے تجربے ہوچکے تھے
١.اشرافیہ
٢.ٹی مو کریسی (TIMOCRACY)
٣.اولی گارچی(OLIGARCHY)
٤. جمہوریت(DEMOCRACY)
٥.آمریت(DICTATORSHIP)
افلاطون کے نزدیک اشرافیہ کا نظامِ حکومت اب سے زیادہ منصفانہ تھا، کیونکہ حکمران دانا تھے محافظ (فوجی) دلیر تھے اور شہریوں کے درمیان اعتدال اور ہم آہنگی تھی، یہ تینوں طبقے اپنے اپنے فرائض سرانجام دیتے تھے اور کوئی طبقہ بھی اک دوسرے میں مداخلت نا کرتا تھا.
2.TIMOCRACY
یہ نظام کریٹ اور سپارٹا میں قائم. تھا اور اس حکومت میں تمام اختیار صاحب املاک کے ہاتھ میں ہوتا تھا جس میں جتنی زیادہ املاک اتنا ہی زیادہ اس کا اختیار چلتا تھا.
3.OLIGARCHY
افلاطون کو کیونکہ اسکا طرز حکومت کا ذاتی تجربہ تھا تو وہ اسکو سخت ناپسند کرتا تھا، اسکے مطابق اس حکومت میں فقط دولت مند راج کرتے تھے اور غریبوں کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی تھی. دولت مندوں کی عزت ہوتی تھی اور پاکبازوں کی بےقدری جس سے نتیجہ یہ ہوتا کہ شہر کی وحدت بٹ جاتی اور شہر دو گروہوں میں تقسیم ہوجاتا ایک امیر کا شہر اور ایک غریب کا شہر جو بستے تو ایک ہی خطے میں مگر مسلسل ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتے رہتے( ریپبلک پیرا 551)، اس حکومت میں زَر و سیم کو تمام چیزوں پرفوقیت دی جاتی تھی کچھ لوگ مقروض ہوتے، کچھ شہری حقوق سے محروم اور کچھ مقروض بھی اور محروم بھی افلاطون کے نزدیک یہ ایک بیمار شہر ہے جو بیرونی اور اندرونی دونوں بغاوتوں کی تاب نہیں لاسکتا(ریپبلک پیرا5551)
4.Democracy
افلاطون کے قریب OLIGARCHY ہی بعد میں جمہوریت کی. شکل اختیار کرتی ہےجہاں آزادی سب سے مقدم ہے مگر آزادی ایک طرح کی غلامی بھی ہے. جب مفلس لوگ اپنی مخالف جماعت کے کچھ لوگوں کس قتل یا ملک بدر کردیتے ہے اور باقی شہر کو شہری حقوق اور عہدوں میں شریک کرکے اقتدار حاصل کرلیتے ہے. ایسی حکومت میں عہدے عموماً قرعے کے ذریعے تقسیم ہوتے ہے(ریپبلک پیرا 5571)
5.DICTATORSHIP
جب لوگ ان تمام بدنظمیوں سے تنگ آجاتے ہیں تو کوئی مرد آہن مک کا. نجات دہندہ بن کر اٹھتا ہے، وہ عوام سے طرح طرح کے جھوٹے وعدے کرتا ہے اور انکو سبز باغ دکھاتا ہے، افلاطون کے نزدیک یہ سب سے بدترین طرز حکومت ہے جہاں فرد واحد طاقت کا محور یا ڈکٹیٹر بن جائے. انصاف کی روح سب زیادہ اشرافی اور سب کم ڈکٹیٹر حکومت میں ملتی ہے.
افلاطون کے نزدیک ہر ریاست کے تین عناصر ترکیبی ہوتے ہیں
١)حاکم طبقہ جو ملک کی نظم و نسق کا ذمہ دار ہوتا ہے
٢)فوج جو ملک کو بیرونی حملوں سے بچاتی ہے
٣)کاشتکار اور دستکار وغیرہ جو ضروریاتِ زندگی پیدا کرتے ہیں.