پاک افغان بارڈر پر واقع البدر کیمپ سے فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد جب ہمیں کابل بھیجا گیا تو ایک رات خوست میں گزارنے کے بعد ہم ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور قدم قدم پر موجود فوجی چوکیوں سے گزرتے سیدھے چہارآسیاب پہنچے جو کہ کابل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پرسکون قصبہ تھا۔ گلبدین حکمت یار کا ہیڈکوارٹر بھی یہیں تھا۔ وہاں چند دن رہنے کے بعد ہمیں کابل بھیج دیا گیا جس پر قبضے کے لئے حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی جاری تھی۔
کابل شہر کا جو حصہ ہمارے قبضے میں تھا وہ تباہی و ویرانی کی داستان سنا رہا تھا۔ فضاؤں میں بارود کی بو رچی ہوئی تھی اور فرشتہ اجل اپنے چاروں اور بکھرے شکار دیکھ کر رقص کناں تھا۔ اس علاقےمیں کوئی بھی مکان سلامت نہیں تھا اور ہر طرف اسلحہ بردار جنگجوؤں کا راج تھا۔
اس کے برعکس جو حصہ احمد شاہ مسعود کی عملداری میں تھا وہاں معمولات زندگی جاری تھے۔ ادھر کے رہائشی روزگار کے سلسلے میں دیگر قصبوں میں جانے کے لئے ہمارے زیرقبضہ علاقوں سے گزرا کرتے تھے۔ اکثریت لوکل بسوں میں سفر کرتی تھی لیکن موٹر سائیکل اور سائیکل پر بھی آمدورفت جاری رہتی تھی۔
ایک دن ہمارے کمانڈر کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چہارآسیاب کا چکر لگا آئے۔ چونکہ وہاں ہمارے پاس سواری کوئی نہیں تھی اس لئے مجھے ساتھ لے کر وہ سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک افغانی اپنی موٹر سائیکل سے گزرا تو کمانڈر نے اسے گن پوائنٹ پہ روک لیا۔ اسے پشتو میں کچھ کہا اور پھر ہم دونوں اس کے پیچھے بیٹھ کر اپنے علاقے میں واپس آ گئے۔
کمانڈر نے اس شخص کے ہاتھ میں بیلچہ تھما کر حکم دیا کہ اس کی واپسی تک وہ پتھریلی زمین کھودتا رہے اور خود اس کی موٹرسائکل پر چہارآسیاب روانہ ہو گیا۔ جب شام کو اس کی واپسی ہوئی تو وہ شخص خوف اور تھکن سے بے حال ہو چکا تھا۔
اسے کچھ علم نہیں تھا کہ اس کا مستقبل کیا ہے۔ کیا اسے گولی مار دی جائے گی، قید خانے میں ڈال دیا جائے گا یا پھر مزید کئی ہفتے وہ زمین کھودنے پر معمور رہے گا۔ کمانڈر ابھی اسے جانے کی اجازت دینے پر تیار نہیں تھا۔ تاہم ہماری منت سماجت پر اسے اپنی سواری سمیت جانے کی اجازت مل گئی۔
وہاں موجود جنگجو طاقت کے اس لامحدود نشے میں مست تھے۔ یہ ایسا مدہوش کر دینے والا مزا تھا جسے صرف وہی آدمی سمجھ سکتا ہے جس نے جنگ زدہ علاقے میں وقت گزارا ہو۔
اس رزم گاہ میں ایسے بہت سے لوگ ملے جو طویل عرصے سے وہاں موجود تھے۔ ان سے گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ اگرچہ وہ خود یہی سمجھتے ہیں کہ جذبہ جہاد انہیں وہاں سے نہیں جانے دیتا لیکن حقیقت میں یہ طاقت کا مزا تھا جس کی وجہ سے وہ ایسی خطرناک جگہ میں موجود تھے جہاں زندگی مختصر اور موت ارزاں تھی۔
اس دوران یہ جنگجو جب بھی اپنے گھر گئے، بہت بدمزہ ہو کر واپس آئے کیونکہ پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہی ان کی تمام تر طاقت چھن جاتی تھی۔ وہ ایک دم سے ایسے علاقے میں پہنچ جاتے تھے جہاں ٹریفک پولیس کا ایک عام اہلکار ان کا چالان کر سکتا تھا اور ایک معمولی کلرک بھی انہیں نخوت بھرے لہجے میں جھڑک دیتا تھا۔ اسی لئے وہ چند ہی روز میں اکتا کر واپس محاذ جنگ پر پہنچ جاتے جہاں طاقت کا نشہ پورا کرنے کے تمام لوازمات مہیا تھے۔
کابل کی اجل زدہ سرزمین پر قدم دھرتے ہی تہذیب کی وہ کمزور پرت اتر جاتی تھی جو ایک مہذب دنیا میں انسانوں کو حدود میں مقید کئے رکھتی ہے۔
کابل کا جو علاقہ ہماری دسترس میں تھا، وہ پاکستان کے ایک چھوٹے سے دیہات کے برابر ہو گا۔ جب اتنی معمولی جگہ پر طاقت کا اختیار انسان کو موت کے خوف سے آزاد کردیتا ہے تو ان حکمرانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا جو کروڑوں لوگ اور لاکھوں مربع میل کے علاقے پر حکومت کرتے ہیں؟
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کی اس چاہ میں بارہا اپنے بھائیوں، بہنوں اور حتی کہ اولاد کو بھی قتل کیا گیا۔ جس طرح ہیروئین کا نشئی اپنی طلب پوری کرنے کے لئے ہر اخلاقی حد عبور کر سکتا ہے اسی طرح اقتدار کی چاہ سے مغلوب ایک بظاہر مہذب نظر آنے والے شخص کو بھی غاروں کے دور والے جنگلی انسان میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔
افغانستان میں جاری مسلسل خانہ جنگی کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہاں مرکزی حکومت کا اختیار کئی دہائیوں سے کمزور رہا ہے جس سے پیدا ہونے والے خلا کو مقامی جنگجووں نے پر کیا۔ یہ جنگجو اپنے اپنے علاقوں میں طاقتور ہوتے ہیں اور اس طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
اس تمام عرصے میں سٹوڈنٹس کا دور ایسا تھا جس میں ریاست کا اختیار زیادہ تر حصے پر پھیلا ہوا تھا۔ تمام مقامی جنگجو ریاست کے سامنے جھک گئے تھے جس کی وجہ سے افغانیوں کو امن کا ایک دور نصیب ہوا تھا۔ امن کے بعد اگلا مرحلہ ترقی کا ہوتا ہے مگر حکمران اس جانب نہیں گئے۔
اس وقت بھی افغانستان میں خانہ جنگی نہیں ہو رہی بلکہ بیس سال جاری رہنے والی خانہ جنگی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ سٹوڈنٹس کی کامیابی سے اس تباہ حال ملک کو امن کا وہ دور نصیب ہو گا جو ترقی و خوشحالی کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ملک کو رجعت پسندی کی جانب لے جاتے ہیں یا ترقی کی طرف۔ ابھی تک ان کے بیانات حوصلہ افزا ہیں اور لگتا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔