ء1885 کا سال تھا اور مارچ کا مہینہ! افغانستان سرد تھا ' بالکل اسی طرح جس طرح زارِ روس اور برطانوی ہند کے تعلقات سرد تھے۔ روس جوں جوں جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا' خیوا' بخارا' سمرقند اور ترمذ کو اپنی باہوں میں جکڑنے کیلئے برصغیر پر قابض انگریز اتنے ہی خوف زدہ ہوتے تھے اور ان کی وہ مکاری اور عیاری بروئے کار آنے لگتی تھی جس میں شاید ہی اُن کا کوئی ثانی ہو اور ستم ظریفی دیکھئے کہ دو درندوں کے درمیان … بکریوں کی اس تقسیم کو … ''گریٹ گیم'' کا نام دیا گیا ہے !
مسلمانوں کے رہنما آج تک یہ سمجھنے سے اور سمجھانے سے قاصر ہیں کہ آخر وہ بکریاں کیوں تھے؟ وہ تر نوالہ کیوں تھے؟ روسیوں نے جب انہیں ہڑپ کیا تو بخارا اور خیوا کے …کن ''مشاغل'' میں ''مصروف'' تھے؟ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال اور بہار کی دیوانی لی تو مغل کیا کر رہے تھے؟ اور کانپور چھاؤنی میں جب توپیں پالش کی جا رہی تھیں نواب واجد علی کن ''کارہائے اہم'' میں سرتاپا غرق تھے اور نظامِ دکن کیا کر رہا تھا۔ ماسکو سے خیوا تک … آپ کو شاید معلوم نہ ہو … کرہِ ارض کی ہولناک ترین سردی پڑتی ہے۔ زمہر پر تو اسکے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ جب روسی فوجی مشقت کی انتہا پر تھے خیوا اور بخارا کے خوانین زیر زمین زندانوں میں قیدیوں پر ظلم کر کے تماشے دیکھ رہے تھے اور جب نواب اور مہاراجے جنسی تلذذ کے لئے ناقابل تحریر ''تجربے'' کر رہے تھے اور گڈے گڑیا کی شادیوں پر انگریز وائسرائے کے نمائندے مدعو کئے جا رہے تھے۔ انگریز ڈپٹی کمشنر اور کرنل سنگلاخ پہاڑوں اور بے رحم صحرائوں میں گھوڑوں کی پشت پر ہفتوں بیٹھ کر … سلطنتِ برطانیہ کی وسعت کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔ آج تک ضلعی گزٹ اس طرح کے نہیں لکھے گئے جو انگریز لکھ کر گئے۔
تلخ نوائی کے لئے معافی … 1885ء کا مارچ تھا دریائے کشک کے مغرب میں افغان فوج کا پڑائو تھا اور مشرق میں روسی فوج کا … 29 مارچ کو روسی کمانڈر جنرل کو ماروف نے افغانوں کو وارننگ دی کہ اس جگہ سے ہٹ جائیں۔ افغانوں نے انکار کیا تو 30 مارچ صبح تین بجے روسیوں نے حملہ کر دیا اور افغانوں کو پل خشتی کے پار بھگا دیا۔ روسیوں کے چالیس اور افغانوں کے چھ سو جنگجو کام آئے۔ یہی وہ لڑائی تھی جس کے نتیجہ میں مرو کا تاریخی شہر روسیوں کے پاس چلا گیا۔ یہ صرف ایک مثال نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان بہادر ضرور ہیں لیکن انہوں نے شکستیں بھی کھائی ہیں۔ غالب و ظفریاب صرف اللہ کی ذات ہے اور تاریخ اس بات کی شہادت نہیں دیتی کہ افغانستان پر دوسروں کا قبضہ کبھی نہیں رہا۔ افغانستان نامی ملک تو چند سوسال پہلے کا واقعہ ہے۔ جہاں تک اس علاقے کا تعلق ہے تو کیا اس پر سلجوقی حکمران نہیں رہے؟ بابر اور اس کے خانوادے نے پونے دو سوسال کابل پر حکومت کی۔ اس علاقے میں طاقت اور علوم و فنون اور تہذیب اور کلچر تو بلخ رہا یا ہرات یا نیشاپور … جنوب میں جنگوں کے علاوہ آخر تھا بھی کیا؟
تو کیا میں افغانوں کی … خدانخواستہ تنقیص کر رہا ہوں؟ نہیں … حاشا کلا … نہیں… میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ محلے کے چوک پر جو خوشحال لوگ دائرہ بنا کر تماشا کر رہے ہوتے ہیں اور درمیان میں جو دو لڑکے تار تار لباس پہنے' باہم دست و گریباں ہوتے ہیں تو وہ صرف اس لئے ایک دوسرے کو چیرنے پھاڑنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ دائرے میں کھڑے خوشحال لوگ ان کی بہادری کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں اور کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ تو اتنا جری ہے کہ اسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ افغانوں کے دشمن ہیں وہ لوگ جو یہ کہہ کر انہیں جنگ کی طرف دھکیلتے ہیں کہ افغان کبھی شکست نہیں کھاتے اور یہ کہ افغانستان پر کبھی کسی نے قبضہ نہیں کیا۔ نہیں ہیں اُن کے ساتھ مخلص وہ لوگ جو ہر وقت افغانوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ منتقم مزاج ہیں' بدلہ لیتے ہیں' اور بہادر ہیں !
بہادری یہ نہیں کہ عورتیں' بچے اور بوڑھے دربدر ہو جائیں' اُن کے ٹھکانے خونریزی کی نذر ہو جائیں' ان کا حال تاریک ہو جائے اور ان کا مستقبل نہ ختم ہونے والے اندھیروں میں گم ہو جائے۔ اسلام آباد میں پشاور موڑ کے قریب ایک بازار ہے جس میں کچھ افغان نانبائی روٹیاں بیچتے ہیں۔ افغانوں کو بہادر اور منتقم مزاج کہہ کر ہمیشہ حالت جنگ میں رکھنے والے کبھی ان نان فروشوں کی دکانوں کے باہر جا کر دیکھیں افغان بوڑھی اور جوان عورتیں جس طرح روٹی کی خیرات کے انتظار میں وہاں پہروں بیٹھتی ہیں اسے کوئی صاحب دل دیکھ کر اپنے آنسو نہیں روک سکتا۔ کوئی صدقہ خیرات کرنے والا آتا ہے اور نان فروش کو ہزار دو ہزار روپے دے کر کہہ جاتا ہے کہ اس رقم سے سامنے بیٹھی ہوئی خلق خدا میں روٹیاں تقسیم کر دو۔ نہیں … ہرگز نہیں … یہ افغان… کے ساتھ دشمنی ہے۔ اگر افغان منتقم مزاج ہیں بھی تو یہ تو وہ کلچر ہے جسے اللہ کے رسولؐ نے ناپسند فرمایا تھا۔ تاریخ کے ورق اگر نہ الٹیں اور صرف وہ صفحہ پڑھیں جو سامنے کھلا ہوا ہے تو تیس سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ افغان دربدر بھٹک رہے ہیں۔ کبھی ایران کے مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور کبھی پاکستان کے اطراف و اکناف میں بھٹکتے ہیں اور طعنے سنتے ہیں۔ ان کی عورتیں بیوہ ہو گئیں' بچے یتیم ہو گئے' نوجوان اپاہج ہو گئے اور بوڑھے ہانپ کر رہ گئے۔ ان کے شہر ویران ہو گئے قریے اور بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ شاہراہیں جنگلوں میں بدل گئیں' جنگل متحارب گروہوں کے پڑائو بن گئے۔ روئیدگی زاد ہو گئی اور پھر جل گئی۔ ثمربار اشجار' ٹنڈمنڈ ہو گئے' کھیت مقتل بن گئے' گھر قبرستان میں تبدیل ہو گئے۔ عالی شان تاریخی عمارتیں گولیوں راکٹوں اور بموں سے تباہ و برباد ہو گئیں۔ افغانستان ویرانے میں بدل گیا۔ وہ ملک جس نے دنیا کو بلخ' ہرات' نیشاپور' غزنی' قندھار اور بدخشاں کے تہذیبی مراکز دیئے تھے قوموں کی برادری میں بھکاری بن کر رہ گیا۔ گوری چمڑی والے خیرات بقچیوں میں باندھ کر آتے ہیں اور احسان جتا جتا کر روٹی کے چند نوالے' پانی کے چند قطرے اور کپڑوں کی چند دھجیاں بخشش میں دیتے ہیں۔ اناللہ وا انا الیہ راجعون۔ اللہ ہی کے ہیں ہم اور اُسی کی طرف ہم نے پلٹ کر جانا ہے!!
نہیں! یہ غلط ہے! یہ ظلم ہے! افغانوں کو ایک اچھی نارمل زندگی گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایرانیوں اور عربوں کو ہے اور زندگی کی جائز سہولتوں سے تمتع اٹھانے کا اتنا ہی حق ہے جتنا امریکیوں اور جاپانیوں کو ہے! افغان بچوں کو سکولوں' کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہونا چاہئے۔ وہ البیرونی اور جمال الدین افغانی کے وارث ہیں۔ غلط ہیں وہ جو افغان بچوں کے خوبصورت ہاتھوں میں غلیلیں اور مضبوط کندھوں پر بندوقیں رکھ کر اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں۔ افغان خواتین کی بھی اتنی ہی عزت ہے جتنی ایرانی' عرب' ترک اور پاکستانی عورتوں کی ہے۔ آخر افغان عورتیں کیوں خیرات کا انتظار کریں؟ کیوں دربدر ٹھوکریں کھائیں؟ کیا افغان بوڑھوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا بڑھاپا آرام سے گزاریں۔ جدید ہسپتالوں میں ان کا علاج ہو' اور ان کے پوتے اور نواسے شام کو انہیں پارکوں میں سیر کرائیں' سینکڑوں سال سے افغانستان کسی صنعت' کسی حرفت' کسی قسم کی مصنوعات' کسی برآمدات کیلئے معروف نہیں۔ اگر بنگلہ دیش کی بنی ہوئی قمیض' سری لنکا کے بنے ہوئے مارک اینڈ سپنسر کی پتلونیں اور لاہور اور کراچی کی بنی ہوئی نائکے کی ٹی شرٹیں عالمی منڈیوں میں فروخت ہو سکتی ہیں تو افغانستان سے بھی کپڑا' جوتے' مشینری' کاریں' ٹیلی ویژن اور ریڈیو برآمد ہونے چاہئیں اور یہ صرف اس وقت ہوگا جب افغانوں کے ہاتھ سے بندوق لے کر کتاب تھمائی جائے گی جب ان کی خواتین یونیورسٹیوں میں پڑھ کر لیکچر دیں گی جب وہاں کارخانے بنیں گے' لیبارٹریاں ہوں گی۔ ریل گاڑیاں اور تیز رفتار کاریں بدخشاں سے قندھار تک اور جلال آباد سے ہرات تک نقل و حرکت کریں گی!
کب تک …؟ آخر کب تک افغان صرف اپنے پہاڑوں' دروں اور صحرائوں پر فخر کرتے رہیں گے؟ کب تک قالینوں کا ذکر ہوگا؟
(اب تو ایرانی اور ترکمانی قالین اور غالیچے آگے نکل چکے ہیں) کب تک انتقام اور جنگوں سے بھرا حال اور ماضی ان کا سرمایۂ افتخار ٹھہرے گا؟ خدا کیلئے سوچیئے ! کتنا ظلم ہے کہ کراچی اور اسلام آباد کے عشرت کدوں میں بیٹھ کر افغانوں کی بہادری پر تقریریں کی جائیں اور مضامین لکھے جائیں اور تقریریں کرنے والوں اور مضامین لکھنے والوں کی اولاد بزنس کر رہی ہو' کروڑوں میں کھیل رہی ہو' دنیا کی ہر آسائش چک لالہ میں بھی موجود ہو اور کراچی میں بھی … اور افغان سردیاں غاروں میں گزاریں اور گرمیاں جنگلوں میں کاٹیں! نہیں! جناب یہ ظلم ہے اور افغانوں پر یہ ظلم ختم ہونا چاہتے۔
چند افغان سردار … چند افغان وار' لارڈ' اپنی انا کیلئے لاکھوں کو آگ کا ایندھن بنائیں کبھی اسلام کے نام پر کبھی انتقام کے نام پر اور کبھی اپنے اقتدار کے نام پر … ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ انتقام وہ نہیں ہوتا جو بندوق سے لیا جائے انتقام وہ ہوتا ہے جو یونیورسٹیوں' لیبارٹریوں اور رصدگاہوں میں لیا جاتا ہے۔ نظام الدین طوسی کے وارثوں کو تو ایسے ادارے بنانے چاہیں تھے جو آکسفورڈ اور ہارورڈ کا مقابلہ کرتے ! کاش افغان جنگجو اُن بہروپیوں کے اصل عزائم جان سکتے جو جدید ترین محلات میں بیٹھ کر … اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو کامیاب بزنس کروا کر افغان کی بہادری کے قصیدے پڑھتے ہیں اور افغانوں کو جنگ کی آگ میں دھکیلتے ہیں!!
http://columns.izharulhaq.net/2009_04_01_archive.html
“