آفرینش اور پاکستانی ادب 2001
……………..
ہر جمعہ کو امین پور بازار، لائل پور میں پرانی کتابوں کا بازار لگتا ہے جس میں کبھی کبھی بہت نایاب اور اچھی کتابیں بھی مل جاتی ہیں. مجھے طالب علمی کے دور سے ہی اس بازار میں دیر تک کتابیں دیکھنا اور خریدنا انتہائی اچھا لگتا ہے. پچھلے جمعہ کو اکادمی ادبیات کی جانب سے شائع ہونے والا انتخاب "پاکستانی ادب 2001" کتابوں کے ڈھیر میں پڑا ہوا دکھائی دیا. یہ انتخاب محترم رشید امجد اور محترم احمد جاوید نے مرتب کیا ہے جو 2001 کی نثری تخلیقات پر مبنی ہے . ورق گردانی کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ اس انتخاب میں وہ اداریہ بھی شامل ہے جسے میں نے سولہ سال پہلے اپنے ادبی پرچے آفرینش کے لیے تحریر کیا تھا.
"آفرینش " کیا تھا، میرا ایک خواب تھا، جسے میں صرف تین شماروں تک تعبیر کر سکا اور باقی کا خواب میرے کم وسائل اور وقت کے جبر نے چاٹ لیا. جن دنوں میں نے اس نکالنے کا خواب دیکھا تھا اُن دنوں اس پرچے کے اجرا کا جنون میرے حواس پر چھایا ہوا تھا. میں یقین رکھتا تھا کہ اس پرچے کی اشاعت سے میں ملک کی ادبی صورتحال میں ایک ایسی تبدیلی لا سکتا ہوں جو تخلیقی جلال و جمال کے ساتھ ساتھ اُس سچائی کو بھی سامنے لائے گی جو ملک کے حساس طبقے کی خواہش اور اُمیدوں کو پورا کر سکے گی.
اِس پرچے کے کئی نام سوچے گئے جنہیں ہمارے مرشدِ عظیم اور حضرتِ جون ایلیا نے ایک ایک کر کے انتہائی بے دردی سے رد کر دیا بلکہ مجھے اِس ارادے سے باز رہنے کا حکم بھی صادر فرمایا لیکن میں کب ماننے والا تھا اور جون ایلیا کے اِس حکم سے بغاوت کا شدت سے اعلان کر دیا. جون صاحب نے مجھے اِس کے نتائج سے خوب ڈرایا لیکن مجھ پر پرچے کی اشاعت کا بُھوت سوار تھا جو کسی قسم کے خوف کو اپنے جنون کے سامنے ہیچ اور بے معانی خیال کرتا تھا. جون ایلیا سمجھ گئے کہ اب میں ٹلنے والا نہیں ہوں سو اُنہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے پرچہ نکالو لیکن جب تک کوئی ماجرا پرور نام سامنے نہیں آئے گا، پرچہ شائع نہیں کیا جائے گا، یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس نے پرچے کی اشاعت میں ایک حساس قسم کی رکاوٹ وقتی طور پر کھڑی کر دی.
آخرِ کار دو ایک مہینوں بعد جون بھائی کا فون آیا کہ مسلسل کئی دنوں سے خون تھوکنے کے بعد ایک نام" آفرینش "ذہن میں آیا ہے یہ نام رکھ لو اور پرچہ شائع کرنے کی تیاریاں شروع کرو.
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آفرینش نے اس ملک کے ادب میں کوئی انقلاب برپا کر دیا البتہ اِس کے تین شماروں کی اشاعت میں پورے برصغیر کے نامور ادیبوں کی تخلیقات کے ساتھ ساتھ اُن بے شمار نو آموز ادیبوں کی تحریریں بھی شامل ہوئیں جو آج کے معروف نام ہیں. جہاں تک میری معلومات ہیں آفرینش اُردو ادب کی تاریخ میں وہ واحد ادبی میگزین ہے جس میں اس کے مدیر نے سوائے اداریہ کے اپنی کوئی تحریر اس میں شامل نہیں کی.
آج سولہ سال بعد پرانی کتابوں کے ڈھیر سے ادبیات کے نثری انتخاب کو دیکھ کر اور اس پرچے کے اداریے کو پڑھ کر دل پر ایک چوٹ لگی کہ میں اپنے ارادوں میں ناکام رہا اور اس پرچے نے ادبی صورتحال میں کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا جس کا خواب میں دیکھا تھا.
آج بھی وہی سوال ہمارے سامنے اُسی طرح سے کھڑے ہیں جس طرح سولہ سال پہلے تھے.
میرے دوستو میری خواہش ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ اِس اداریے کو پڑہیں جس کے لیے مجھے اتنی طویل تمہید باندھنا پڑی ہے.
………………….
اداریہ آفرینش
شمارہ 22،
سن 2001
اِس بات پر اعتبار کیا جانا چاہیے کہ اگر ہمارے ادیب، شاعر اور دانشور چاہیں تو ہم اِس دلدل سے باہر نکل سکتے ہیں جس میں ہم پچھلے پچاس سالوں سے گردن تک دھنس چکے ہیں. لکھنے والوں کے بس میں ہے کہ وہ اپنے افکار اور طرزِ عمل سے اُس سچائی کے نظامِ تنفس کو بحال کریں جسے ہم ادیبوں نے مفاد پرستی، حرص و ہوس، مصلحت اور نچلے درجے کی سیاست کی سولی پر لٹکا رکھا ہے.
اگر ادیب اپنی گردن کو اپنی اپنی اغراض کے کھونٹے سے بندھی رسی سے آزاد کر لیں اور دردمندی کے ساتھ سچائی کا ادراک کر لیں تو ایک خاموش انقلاب پرپا کرنے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے کیونکہ ادیبوں کی سمت درست ہونے کے اثرات اپنے دامن میں اتنی وسعت رکھتے ہیں کہ زندگی کے باقی تمام شعبوں میں ازخود مثبت تبدیلیاں رونما ہونے کے بے شمار امکانات ہیں.
دنیا کی ادبی تاریخ میں ایسی مثالیں جابجا بکھری پڑی ہیں کہ اُن قوموں نے ہر اعتبار سے ترقی کی جن کی کھوپڑیوں میں اِن کے دانشوروں نے اپنے دماغ منتقل کیے اور معاشرے کے سینے میں ضمیر کا دیا روشن کر کے دنیاوی جاہ و منصب کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا.
صد حیف، ہماری موجودہ ادبی صورتحال میں ایسا کوئی آوازہ سنائی نہیں دے رہا جس میں ایسی اثر پذیری ہو کہ دل و دماغ روشن ہو جائیں…….. یہ اثر پیدا بھی کیسے ہو سکتا ہے. ہمارے عہد کی بیشتر تحریریں ان نازک پہلوؤں کو چھو کر ہی نہیں گزرتیں جن کا رشتہ ہماری زندگی سے جڑا ہو. کاغذوں کے انبار پر لکھے ہوئے کالے حرف اب تو یہ تاثر دینے لگے ہیں کہ جیسے ہمارے ادیب، ادب تخلیق کرنے کی بجائے محض نوکریاں کر رہے ہیں.
ھاں، کبھی کبھی اور کہیں کہیں پیاسے ہونٹوں کی خشک پپڑیوں پر آبِ تازہ کے چند قطرے ضرور ٹپکتے ہیں، راکھ ہوتے ہوئے منظرنامے کی سرد مہری میں کسی پارینہ چنگاری کا آدھا بجھا اور آدھا روشن چہرہ آنچ ضرور دیتا ہے….. لیکن زخموں سے بھرے ہوئے بدن کے کسی ایک زخم کو بھی گاہے گاہے بُنا جانے والا یہ دریدہ پارچہ پوری طرح سے ڈھانپ لینے سے قاصر رہا ہے. دردِ دل رکھنے والا ادیب موجودہ set up میں بری طرح سے بے دست و پا ہوتا جا رہا ہے. ملک کے بڑے ادبی مراکز میں یہ صورتحال ایک خوف ناک حد کو چھو رہی ہے. دریوزہ گری اور کاسہ لیسی ہمارے اجتماعی ضمیر کو اس تیزی سے چاٹ رہی ہے کہ ہمیں اپنے کھوکھلے ہونے کا احساس تک نہیں ہو رہا.
پچھلے چند عشروں میں اُبھرنے والے ادبی تنازعات پر نظر کریں تو معلوم ہو گا کہ ان اختلافات کی حیثیت سرے سے علمی اور ادبی سطح کی تھی ہی نہیں. ہمارا ادیب ایک ایسی لڑائی میں آلہء کار بنا ہوا ہے جس کا محرک اول و آخر ذاتی نوعیت کا ہے اور پھر ہمارا میڈیا اس چھینا جھپٹی کو مرچ مصالحہ لگا کر صحافتی ریڑھی پر رکھ کر یوں فروخت کر رہا ہے کہ ملکی معاملات میں دانشورانہ سطح پر ادیبوں کا کردار صرف عہدوں کے حصول، سستی شہرت اور دام و درہم اکٹھا کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے.
نظریات اور ادب کو فیشن کے طور پر اختیار کرنے والے ادیب نما افراد نے تخلیقی حمیت کو گروی رکھ کر مراعات حاصل کرنے کے لیے اودھم مچا رکھا ہے کہ حساس اور باغیرت ادیب کے لیے اس جائے محشر میں دو قدم چلنے کی بھی جگہ باقی نہیں رہی.
عالمی تناظر میں ہمارے ادیب کی فکری صورتحال کچھ اور بھی ناگفتہ بہ ہے جس کا اندازہ اس صدی کے آغاز میں ہونے والے دہشت گردی کے اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے جس کا دائرہ دنیا کے بلند و بالا اور عالمی معیشت کا فیصلہ کرنے والے ٹریڈ سنٹر سے لے کر ہمارے پڑوس میں اس کھنڈر نما ملک تک پھیلا ہوا ہے جس کے معیشت نامے پر اس ترقی یافتہ دور میں بھی صفر کا ہندسہ درج ہے. اگر ہمارا دانشور time barrier سے آگے دیکھیے والی آنکھ سے محروم نہ ہو چکا ہوتا تو ہماری حکومتیں اور عوام بھی اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار اور آزاد ہوتے اور عین ممکن تھا کہ ہمارے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں وہ بدصورتیاں جنم نہ لیتیں جن کی وجہ سے آج ہم اس سچائی سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں جو دراصل کسی بھی بڑے ادیب اور ہمہ گیر ادب کی اساس ہے.
سچائی، ایک ایسا آئینہ ہے جس میں جھوٹ کا عکس ٹھہر ہی نہیں سکتا. اس آئینے میں دیکھنے کی جرأت ہی یہ پتا دے سکے گی کہ ہم اپنے آپ سے چھپ کر کہاں کہاں رائگاں ہوئے، تب بتایا جا سکے گا کہ ٹریڈ سنٹر کی بلند عمارت کی کھڑکیوں سے دنیا کو آخری بار آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں سے دیکھنے والے بے قصور لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ کس نے بنایا. سراغ لگایا جا سکے گا کہ کس کے اشارے پر بے سروسامان انسانوں کو فضا سے خوراک کی تھیلیاں عطا کی گئیں اور یہ کہ کس کی جنبشِ ابرو سے بد ہیت جنگی طیاروں نے دشوار گزار پہاڑی راستوں سے خوراک کی تھیلیاں چنتے ہوئے بے بس لوگوں پر لوہے اور بارود کا زہر برسایا…. لیکن، اس سے پہلے کہ ہم اپنے ھاتھوں سے دی گئی گرہوں کو اپنے دانتوں سے کھولیں ہمیں ذاتیات کو پسِ پشت رکھ کر خود احتسابی کے شفاف عمل سے گزرنا پڑے گا اور اپنی تخلیقات کا ایماندارانہ جائزہ مرتب کرنا ہو گا تاکہ ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ سکیں اور اپنے آپ سے سوال کرنے کے قابل ہو جائیں کہ کیا ہمارا آج کا ناول بڑے ادب کے مطلوبہ معیارات کی تلاش کی صلاحیت رکھتا ہے، کیا ہمارا جدید افسانہ دنیا بھر کے اُن مظلوم لوگوں کے زخموں پر مرہم کی صورت اختیار کرسکتا ہے جن کی شکم ریڑھ کی ہڈی سے جا لگے ہیں…..
کیا، ہماری نئی غزل کے امکانات ان بے بس آنکھوں کے آنسوؤں سے کچھ علاقہ رکھتے ہیں جن کو خاک میں رول دیا گیا…….
کیا، ہماری نظمیں یہ دسترس رکھتی ہیں جو انسان کو ازلی اور ابدی سچائی کا آئینہ دکھا سکیں…….
کیا، ہمارا کالم اس رخ پر لکھا جا رہا ہے جس پڑھ کر یہ احساس ہو کہ یہ چند سکوں کے عوض نہیں بلکہ اعلیٰ اقدار کے فروغ کے لیے ضابطۂ تحریر میں آیا ہے……….
اور کیا، ہمارے تنقیدی رجحانات کا شیرازہ اس ترتیب میں آ رہا ہے جس کی سطح ذاتیات سے بالاتر ہو……
کیا، اعتبار کیا جائے کہ ہمارا لکھنے والا ہمیں اس دلدل سے نکال لے گا جس میں ہم پچھلی پانچ دہائیوں سے گردن، گردن دھنس چکے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“