آفاقیت تمام فنون میں موضوعی سطح پر استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔ شعر و ادب کے حوالے سے بھی کثیر الاستعمال ہے۔یہ شعر آفاقی ہے،فلاں شاعر آفاقی شاعر ہے وغیرہ وغیرہ۔
آفاقیت کی تعریفات(definitions)کی روشنی میں سامنے آتا ہے کہ کسی فن پارے میں اگر یہ خصوصیت ہو کہ تمام خطوں اور زبانوں کے انسان اس سے یکساں حظ یاب ہوں تو وہ فن پارہ آفاقی کہلائے گا۔
یعنی مجسمہ،پینٹنگ، موسیقی(دھن،لے،ساز) کے باب میں تو یہ بات درست ہے۔
مگر ایسا فن پارہ جس کا ذریعہء اظہار (medium )زبان ہو اس میں یہ صفت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟
مثلا” اردو میں کہا گیا شعر، نظم غزل، مصرع کیسے کسی ایسے قاری/سامع تک ابلاغ پا سکتا ہے جسے اردو نہیں آتی؟
یہاں کہا جا سکتا ہے کہ جی یہ کام ترجمے سے )لیا جائے گا یا لیا جا سکتا ہے۔
لیکن ترجمہ اصل کا قائم مقام تو نہیں ہوسکتاخواہ کتنا ہی عمدہ ترجمہ ہو۔زبان اور تہذیب بہت بڑے حارج ہیں اس ضمن میں۔
مثال کے طور پر اردو میں کہا جائے کہ “کتا بھونک رہا ہے” ۔اسے کسی ایسی تہذیب کا بندہ کیا ترجمہ کرے گا جس تہذیب میں کتا نہ ہو(فرض کریں)۔
ایسے میں وہ اپنی تہذیب کا کوئی جانور لے آئے گا؛ مثلا”شیر لے آتا ہے تو پھر شیر بھونکے گا کیسے؟ شیر کی آواز رکھ لی جائے گی!
اور یوں اصل کا بہت کچھ ترجمہ کرتے وقت ضائع ہو جائے گا۔
انگریزی لفظ pot (برتن) کی مثال لیں ۔
ترجمہ “ہانڈی” کریں تو مٹی سے برتن سازی (کوزہ گری ) یعنی “کمہار” والی ثقافت آ جائے گی، دیگچی کریں تو ماڈرن انڈسٹری اور پیتل سے جڑی ثقافت آ جائے گی۔ گویا ایک لفظ “وخت” ڈال دیتا ہے۔
بہرکیف ،مدعا یہ ہے کہ جس فن پارے کا میڈیم زبان ہو اس میں آفاقیت نہیں ہوتی۔یہ صفت دیگر فنون ،جن کا میڈیم زبان کے علاوہ ہو ان میں پائی جاتی ہے کیونکہ آفاقیت پیدا ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ بذات_خود زبان ہے اور کلچر/تہذیب اس پر مستزاد ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...