اردو زبان وادب کو زندہ رکھنے والے اور اس کی مختلف اصنافِ نظم ونثر پر طبع آزمائی کرنے والے نہ صرف پاکستان اور بھارت تک محدود ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں جہاں اس زبان کے بولنے اور سمجھنے والے گئے؛ وہاں وہاں انہوں نے اس کے ادبی سانچوں کو مضبوط بنانے کی کاوشیں جاری رکھیں اور موجودہ سائنسی دور میں جہاں لوگوں کا طرزِ زندگی بدلا ہے وہیں ادبی دنیا کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔COVID19 کے منفی اثرات نے جہاں انسانوں کو انسانوں سے جدا کردیا، وہیں انٹرنیٹ کے توسط سے ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع بھی فراہم کردیے۔چنانچہ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ سال 2020میں آن لائن کانفرنسز کا رواج بہت عروج حاصل کر گیا۔اب لوگ بذبانِ قلم نہیں بزبانِ ذوم باتیں کرتے ہیں اور زبان و ادب کی خدمت کرتے ہیں۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو زبان کی ترقی میں اوورسیز پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔بہت سے قلم کار اپنی انتہائی مصروفیات اور مشینی زندگی سے وقت نکال کر اردو زبان پر خامہ فرسائی کے جوہر دکھاتے ہیں۔
ان اوور سیز قلم کاروں میں ایک نام سیدہ غوثیہ سلطانہ کا بھی ہے جنہوں نے 1973میں حیدر آباد سے نقل مکانی کرکے امریکہ کے شہر شکاگو کو اپنا مسکن بنایا۔ان کا مجموعہئ کلام ”آئینہ جمال“ مجھ تک گزشتہ دنوں پہنچا جو حمد و نعت اور منقبت و سلام پر مشتمل ہے۔
”آئینہ جمال“کی وجہ تسمیہ خانہ کعبہ پر لکھی گئی تمہیدی نظم اور ایک نعت کا عنوان معلوم ہوتی ہے۔ سیدہ غوثیہ سلطانہ نے نعت جیسی نازک اور مشکل صنف کا انتخاب کرکے رسول اللہﷺسے اپنی دلی وابستگی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔آسان لفظوں میں اگر نعت کی تعریف کی جائے تو آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ، اوصافِ حمیدہ، خصائصِ گفتار، معجزات اور خُلقِ عظیم کی مدح سرائی کانام نعت ہے۔مذکورہ اوصاف پر روشنی ڈالنا کسی شاعر کے بس کی بات نہیں، تاہم ہر نعت گو شاعرآپﷺ کی حیاتِ طیبہ کے کسی نہ کسی گوشے کو وا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح سیدہ غوثیہ نے بھی بھرپور کوشش کی ہے۔
سیدہ غوثیہ کی حمد و نعت ان کے جذبات و احساسات کی آئینہ دار تو ہے ہی؛ لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ سادگی اور سلاست کے عمدہ مرقعے بھی پیش کرتی ہیں۔اُن کی نعتیں اُن کے فکری انداز اور نبی آخر الزماں ﷺ سے اُن کی گہری عقیدت اور والہانہ محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ ﷺ کے حسن وجمال کی بابت لکھتی ہیں:
حسن و جمال دیکھ کر، عالم نے آپ کا
اپنے دلوں کو نور کا ہالہ بنالیا
اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ ﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔آپ ﷺ کی آمد نے ظلمت کی چادر کو چاک کرکے ہر سو روشنی اور تابانی پھیلادی۔ اس ضمن میں سیدہ غوثیہ کہتی ہیں:
تاریک زندگی کو نئی دے کے روشنی
یک لخت آپﷺ نے ہمیں حیران کر دیا
خواب آنکھوں کے ہوگئے پورے
آپﷺ آئے تو زندگی سے ملے
راہ کانٹوں بھری تھی دنیا کی
درد انسان کی دوستی سے ملے
آپ ﷺ حسنِ اخلاق کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ ”قرآن آپ ﷺ کا اخلاق ہے“۔سیدہ غوثیہ اس کا تذکرہ کچھ یوں کرتی ہیں:
بچھ گئی نور کی حسین چادر
حسنِ اخلاق کی خوشی سے ملے
آپ ﷺ کی گفتار وہ یوں بیان کرتی ہیں:
نوعِ انساں کے لیے تحفہ ہے رحمت کا حضور ﷺ
مرتبہ اعلیٰ، الگ انداز ہے گفتار کا
آتی ہے ہر ایک حرف سے رحمن کی خوشبو
سرکار کی باتوں میں قرآن کی خوشبو
آپ ﷺ کے اسوہئ حسنہ کو ایک آزاد نظم میں یوں بیان کر تی ہیں۔
حضرت محمد کی حیات ِ کاملہ
تاریخِ انسانی کا حسین اسوہ
آپ کے عمل کی حرارت سے
انسانی تاریخ کا عظیم جذبہ
پیغمبرِ اسلام نے فرمانِ الٰہی سے
نماز کو محبوب عبادت بنا دیا
”آئینہ جمال“ کی تقریباً ہر تخلیق کسی نہ کسی عنوان کے تحت ہے۔وہ حمد ہو یا نعت یا منقبت یا سلام۔غوثیہ کی اس تخلیق میں ایک چیز جو مجھے روایتی انداز سے ہٹ کر نظر آئی وہ حمد و نعت کا آزاد یا نثری انداز ہے اور تقریباً ایک چوتھائی نعتوں، منقبت اور حمد کے لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔نیز اکثر جگہوں پر وہ حمد ونعت کے عنوان کے لیے نعت یا حمد کے قافیہ اور ردیف کو ہی بطور عنوان چن لیتی ہیں، مثلاً: حمد بشر اللہ، گلستاں اللہ، پاسباں اللہ، اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
کہہ رہاہے ہر اک شعر اللہ
کب نظر آئے گی سحر اللہ
مثلِ فردوس ہو جہاں اللہ
تیری رحمت کا گلستاں اللہ
یہی طریق کچھ نعتوں میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں سیدہ غوثیہ کی شاعری میں منظر کشی کے مرقعے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
وہ زم زم یاد آتا ہے، وہ اسود یاد آتا ہے
مجھے وہ عالم حیرت کا مجمع یاد آتا ہے
خدائے پاک کی الفت میں چلنا یاد آتا ہے
وہ مجمع چیر کر چلنا وہ رکنا یاد آتا ہے
عالمِ تخیل میں کھو ئے وہ روضے کی جالی کا منظر یوں بیان کرتی ہیں:
کبھی تو میں چوموں گی روضہ کی جالی کبھی تو مکمل مرا خواب ہو گا
کہ ایک ایک لمحہ مری زندگی کا، گلیوں مین آقا کی سیراب ہو گا
”آئینہ جمال“کے آخر میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں نعت گو شعرا ء کو بھی ایک مضمون کے ذریعے متعارف کرایا ہے اور ان کے نعتیہ کلام کے نمونے بھی پیش کیے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...