ایک سال وہ آستانے پر مقیم رہا۔ کسی نے نہ پوچھا کہ میاں کہاں سے آئے ہو؟ کس سے ملنا ہے؟کھانا مل جاتا۔ کھا لیتا۔ پانی ساتھ والے کنوئیں میں وافر تھا۔
ایک سال کے بعد جوگی نے اندر بلایا۔ کئی گھنٹے بیٹھا رہا۔ پھر نظر اُس پر ڈالی۔ چند ثانیوں کے لیےدیکھا۔ یوں لگتا تھا یہ نظریں ایک لمحہ بھی اور رُکی رہیں تو وہ پگھل جائے گا۔ جوگی کے لب ہلے۔’’صبر‘ صبر‘ سارا صبر کا امتحان ہے‘‘۔ پھر جوگی نے آنکھیں بند کر لیں اور واپس جوگ میں چلاگیا۔
ایک برس اور گزر گیا۔
خاکروب ٹوکری کندھے پر اٹھائے اس کے پاس سے گزرا۔ نہ جانے کیا ہوا۔ ٹوکری گری اور غلاظتکا ایک حصہ اُس پر آن پڑا۔ وہ طیش میں آ گیا۔ اٹھا اور ایک چانٹا اسے رسید کیا۔ خاکروب نے گالسہلایا۔ نظریں جھکائے ہوئے ٹوکری اٹھائی‘ غلاظت سمیٹ کر واپس اس میں ڈالی اور جدھر جا رہاتھا‘ چلا گیا۔ جوگی نمودار ہوا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر نظرجمائی… ’’صبر کا امتحان ہے‘‘۔ کہا اورغائب ہو گیا۔
دوسرے سال کے اختتام پر غلاظت کا پورا ٹوکرا اس پر گرا۔ اُس نے بُرا سا منہ بنایا۔ خاکروب کوگھورا اور خاموش رہا۔ صبر کا کڑوا پیالہ ایک سال مزید پینا پڑا۔ تیسرا سال ختم ہوا تو خاکروب نےاُس کے پاس سے گزرتے ہوئے باقاعدہ ٹھوکر کھائی۔ گرا‘ ٹوکرے میں سے مال متاع نکلا اور ساراہی اُس پر آن گرا۔ اِس بار اُس نے خاکروب کا گال تھپتھپایا اور شفقت بھرے لہجے میں پوچھا… ’’تمہیں چوٹ تو نہیں آئی‘‘۔ پھر غلاظت کو واپس ڈالنے میں خاکروب کا ہاتھ بٹایا۔ جوگی نمودار ہوااور اسے اندر لے گیا۔ ’’بیٹا! اب میں تمہیں جوگ سکھائوں گا۔ سنجوگ تمہارے مقدر میں ہے‘‘۔
عرصہ بیتا یہ حکایت پڑھی تھی۔ جانے یہی تھی جو لکھی ہے یا امتداد زمانہ نے یادداشت کے کاغذپر لکیریں ڈال کر اس کی شکل بدل ڈالی۔ مگر سالہا سال صبر کے کڑے امتحان سے گزرنے والا چیلاجسے جوگی نے بالآخر قبول کر لیا‘ تربیت میں ہم پاکستانیوں کا کہاں مقابلہ کر سکتا ہے!
ہماری ٹریننگ کا آغاز ایوب خان کے عہد میں ہوا۔ چینی کی قلت پیدا ہوئی۔ قطاروں میں کھڑا ہونا ہمنے سیکھا ہی نہ تھا۔ ہڑبونگ مچ گئی۔ وہ طوفان اٹھا کہ ایوب خان جیسے قوی ہیکل شخص کے بھیہوش ٹھکانے آ گئے۔ ہماری کارکردگی بہت بری تھی۔ ہم صبر سے ناآشنا نکلے۔ مزید تربیت کیضرورت تھی۔
یحییٰ خان کا عہدِ ہمایونی آیا تو ہم کافی حد تک صبر آشنا ہو چکے تھے۔ ہم نے خاموش رہنا سیکھلیا تھا۔ ہمارے مشرقی پاکستانی بھائیوں نے انتخابات جیت لیے تھے۔ قانونی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ ہراعتبار سے حکومت بنانا ان کا حق تھا۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنایا جاتااور قبول کیا جاتا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ان کا حق غصب کیا گیا۔ اِدھر ہم اُدھر تم کے نعرے لگے۔ اسمبلیکا اجلاس اٹینڈ کرنے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی باتیں ہوئیں۔ بنگالیوں نے اپنا حق حاصل کرنے کےلیے احتجاج کیا تو کوتاہ نظر‘ بداندیش فوجی آمر اور اس کے حواریوں نے تاریخ کا بدترین کریکڈائون کیا۔ نام نہاد مذہبی قوتیں‘ جو دراصل تاریکی پسند قوتیں تھیں‘ ساتھ ہو لیں۔ نان سٹیٹ ایکٹر’’بغاوت‘‘ کو کچلنے میں پیش پیش رہے۔ مگر ہمارے‘ یعنی موجودہ پاکستان کے باسیوں کے‘ صبر کایہ عالم تھا کہ ہم نے اُف کی نہ چُوں! ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ ہم دیکھا کیے اور سنا کیے۔ کوئیاحتجاج ہوا نہ ہنگامہ۔ ہم میں سے کسی نے نہ کہا کہ الیکشن جیتنے والوں کو حکومت بنانے دو اوردیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں! اب ہم ایک صابر اور راضی برضا قوم کہلانے کے لیے کامیابی کا آدھازینہ طے کر چکے تھے۔
بھٹو کا زمانہ آ گیا۔ تربیت کا عمل جاری رہا۔ ڈالڈا گھی کا ڈبہ جو شرفا کپڑے میں لپیٹ کر گھر لاتےتھے کہ کوئی دیکھ لے گا تو بے عزتی ہوگی‘ اب کسی کو مل جاتا تو فخر سے سب کو دکھا کر لاتاتھا۔ قلت اتنی تھی کہ ایک ایک ڈبہ حاصل کرنے کے لیے ہفتوں بھاگ دوڑ کرنا پڑتی۔ قطار بندی کیعادت پڑتی جا رہی تھی۔ قوم نے بہت سا ڈسپلن سیکھ لیا تھا۔ مگر ابھی تو منزل کوسوں دور تھی!
ضیاء الحق کا عہد آیا تو تربیت کا ڈرامہ عروج پر پہنچ گیا۔ اب کے صبر کا امتحان اس طرح لیا گیا کہہم پر غیر ملکی مسلط کیے گئے۔ افغان مہاجرین آئے اور کسی روک ٹوک‘ کسی پابندی‘ کسی تاخیر‘کسی ضابطے‘ کسی قانون‘ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر پورے ملک میں پھیل گئے۔ وہ
وی آئی پی بن گئے اور ہم‘ اِس ملک کے اصل باشندے‘ ریڈ انڈین قرار دیئے گئے۔ خیبر پختون خوامیں بالخصوص اور ملک بھر میں بالعموم‘ ہر قسم کی محنت مزدوری کے لیے انہیں ترجیح دی جانےلگی۔ ٹرانسپورٹ کے بزنس پر وہ چھا گئے۔ مارکیٹوں کی مارکیٹیں ان کی ہو گئیں۔ یہ صبر کا کڑاامتحان تھا۔ ہم صبر کی بھٹی سے گزارے جا رہے تھے کہ کندن بن کر نکلیں۔ پوری دنیا سےبھگوڑے اور ناشائستہ جنگ جُو عناصر اکٹھے کیے گئے اور ان کی بلائیں لی گئیں۔ قوم کو تربیتدینے والے ان پر صدقے واری ہونے لگے۔ دارالحکومت کے جڑواں شہروں پر اوجڑی کیمپ سےبموں اور میزائلوں کی بارش کی گئی۔ قیامت تھی جس کا سامنا شہریوں نے کیا۔ چھوٹے چھوٹےبچے سیوریج بھرے نالوں میں بھٹکتے رہے۔ وہ عالم تھا کہ جان بچانے کے لیے بھاگتے بچےپشاور اور لاہور جانے والی بسوں میں بیٹھ گئے اور ہفتوں بعد والدین کو ملے۔ لیکن آفرین ہے مردِمومن مردِ حق پر کہ ٹیلی ویژن پر پوری قوم کے سامنے اس حادثے کو معمولی واقعہ قرار دیا۔ صبرکی پیکر قوم کو آج تک معلوم نہیں ہوا کہ اصل واقعہ کیا تھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ حساب کتابامریکیوں سے چھپانے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا گیا۔ واللہ اعلم‘ بہرحال صابر قوم نے یہ منظر ضروردیکھا کہ کچھ سرکاری ملازموں کے بچے کھرب پتی بن گئے۔ اپنے آپ کو خاندانی صنعت کار کہلانےوالے یہ لوگ بلند ترین ایوانوں میں پہنچ گئے۔
ان تمام سلگتی بھٹیوں سے نکل کر یہ قوم آج کندن بن چکی ہے۔ آج اس کے نظم و ضبط پر پوریدنیا عش عش کر رہی ہے۔ اقوامِ عالم نے دیکھا کہ اس قوم کے بیٹے‘ جوان‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورتیں‘بیٹیاں‘ سی این جی کے لیے پہروں قطاروں میں کھڑی رہیں۔ جس قوم کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہکبھی قطار بنانا نہیں سیکھے گی‘ تین تین دن‘ تین تین راتیں مسلسل قطاروں میں کھڑی رہی اور اُفتک نہ کی۔ صبر کی انتہا یہ تھی کہ حکمرانوں کی فراٹے بھرتی سواریاں محفوظ رہیں۔ ان پر کسینے کنکر تک نہ پھینکا۔ کوئی احتجاج نہ جلوس! کوئی ردعمل نہ طیش! صبر و قناعت کی انتہا یہتھی کہ دو دو تین تین دن قطار میں کھڑے ہونے کے بعد چند کلو سی این جی ملتی تھی تو خوشیسے شادیانے بجائے جاتے۔
اب یہ قوم جوگ کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ پٹرول کی حالیہ قلت نے‘ جو محض ڈرامہ تھا‘ ثابتکردیا ہے کہ قوم آنے والی آزمائشوں میں حکمرانوں کو مایوس نہیں کرے گی۔ قصور وزیر خزانہ کانکلا نہ وزیر پٹرولیم کا اور نہ ہی وزیراعظم کا‘ یہ تو ایک تربیتی کورس تھا جو عوام کے اعصابمضبوط تر کرنے کے لیے لازمی تھا۔ عوام نے یہ کورس کامیابی سے پاس کر لیا ہے اور ثابت کر دیاہے کہ پٹرول کے آنے والے ’’بحرانوں‘‘ میں بھی ثابت قدم رہے گی!
سو اے اہلِ سیاست! اے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے عمائدین! اے وزرا کی فوج ظفر موج! اےمشیروں کے گروہِ خاص! اور اے محترم اور محبوب وزیراعظم! ہم تیار ہیں۔ آپ جب چاہیں گے ہمخاموشی اور سعادت مندی سے قطاروں میں کھڑے ہو جائیں گے! سی این جی کی قلت ہو یا پٹرولکی‘ یا آنے والے دنوں میں آٹے کی یا چینی کی‘ یا دوائوں کی یا پانی کی‘ یا سانس لینے کے لیےآکسیجن کی یا کفن بنانے کے لیے کپڑے کی‘ یا پھر دفن ہونے کے لیے قبروں کی‘ آپ ہمیں صابر اورشاکر پائیں گے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔