آب ِ نیل یہ آوارگی ( ثرثرہ فوق النیل ؛ Adrift on the Nile )
مصنف : نوبل انعام یافتہ ؛ نجیب محفوظ
ترجمہ : نیئر عباس زیدی
تبصرہ : قیصر نذیر خاورؔ
94 سال کی طویل عمر پانے والے مصری ادیب نجیب محفوظ ( Naguib Mahfouz ) کو 1988ء میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا ۔ اس نے اپنے ستر سالہ ادبی کیرئیر میں تیس سے زائد ناول ، لگ بھگ 350 کہانیاں اور درجنوں فلمی سکرپٹ لکھے ان کے علاوہ اس نے کچھ ڈرامے بھی تحریر کئے ۔ توفیق الحکیم کی مانند اس کی تحریروں پر وجودیت پسندی کا اثر نمایاں نظر آتا ہے ۔ اس کے ناولوں میں تین ناول خاصے اہم ہیں ؛ ’ بین القصرین ‘ ، قصر الشوق‘ ،اور ’ االسکریة‘ یہ قاہرہ ٹرایلوجی ( (Cairo Trilogy ) کے نام سے مشہور ہیں ۔ یہ پچاس کی دیائی کے وسط میں لکھے گئے ۔ اس کا ناول ’ اولاد حارتنا ‘ ( Children of Gebelawi ) جو اس نے 1959 ء میں لکھا تھا اور اخبار ’ الحرم‘ میں قسط وار شائع ہوا ، اس حد تک متنازع رہا کہ یہ مصر میں 2006 ء میں ہی کتابی شکل میں شائع ہو پایا ۔ وہ اپنے اس ناول اور سلمان رشدی کے ناول ’ The Satanic Verses ‘ کے حمایتی ہونے کی وجہ سے اسلامی انتہا پسندوں کی سخت تنقید کا نشانہ بھی بنا اور اسے 82 سال کی عمر میں ، قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔
11 دسمبر 1911 ء کو قاہرہ میں پیدا ہونے والے اس ادیب نے 30 ، اگست 2006 ء کو قاہرہ میں ہی وفات پائی ۔
زیر تبصرہ ناول بھی نجیب محفوظ کی تخلیق ہے ۔ اس ناول کا عربی نام ” ثرثرہ فوق النیل “ جبکہ انگریزی میں "Adrift on the Nile" ہے ۔ نجیب محفوظ کے تقریباً پندرہ ناولوں پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے۔ ناول کی بُنت نوجوان طبقے کے اُن افراد پر کی گئی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہین اور باشعور تو ہیں مگر ' کیف ' کے نشے کی عادت کی وجہ سے اخلاقی اور روحانی دیوالیہ پن کا شکار ہیں ۔ انہوں نے دریائے نیل پر اپنی ایک علیحٰدہ دنیا بسائی ہوئی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ' ذکی ظانی ' ہے جو انہی افراد میں سے ایک ہے اور اپنے باس کے زیر عتاب اس لیے ہے کہ اس نے اسے ایک رپورٹ بنا کر دی جس میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا ہوا تھا ؛ سارے صفحے خالی تھے ۔ ہوا یوں تھا کہ ذکی نے یہ رپورٹ اس وقت لکھی تھی جب وہ منشیات کے نشے میں تھا اور اس نے یہ خیال ہی نہ کیا تھا کہ اس کے پین میں سیاہی ہی نہیں تھی ۔ اس ناول میں ایک لڑکی بھی ہے جس کا نام سمیرا ہے ، وہ صحافی ہے اور اس کی وجہ سے اس گروپ میں محبت ، مقصد حیات اور اخلاقیات پر بحثیں ہونے لگتی ہیں اور اس گروپ کی طمانیت میں تلاطم آ جاتا ہے اور پھر ایک شب ، نصف رات کو ان کے ہاتھوں کار حادثے میں ایک بندہ مارا جاتا ہے ۔ وہ وہاں سے فرار ہو جاتے ہیں پھر یہ گروپ کیسے ٹوٹتا اورمنتشر ہوتا ہے ، اس کے لیے آپ کو ناول پڑھنا پڑے گا ۔
سید نیئر عباس زیدی نے اس ناول کا اردو میں ترجمہ کیا جو پہلی بار 2004ء میں شائع ہوا ۔ دوسرا ایڈیشن 2006ء میں اور جبکہ اب تیسرا ایڈیشن 2010ء میں سامنے آیا ۔ یہ ناول اتنا تو مختصر نہیں جتنا ارنسٹ ہمیونگوے کا ” اولڈ مین اینڈ دی سی“ ( بوڑھا اور سمندر ) ہے لیکن یہ بھی کوئی زیادہ طویل ناول نہیں ہے۔ 1966ء میں لکھے گئے اس ناول پر بھی ہدایت کار حسین کمال نے 1971ء میں عربی میں فلم بنائی تھی جس کے پہلے شو کا افتتاح مصری صدر انورالسادات نے کیا تھا ۔ فلم کو جلد ہی ڈبہ بند کر دیا گیا کیونکہ اس میں جمال عبدالناصر کے زمانے میں کی گئی اشتراکی اصلاحات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔
نجیب محفوظ کا شمار عربی میں لکھنے والے طہٰ حسین جیسے ادیبوں میں ہوتا ہے جن کے ناولوں اور افسانوں میں وجودیت پر مبنی Themes ملتی ہیں ۔
پاکستان میں مصر کے اس وقت کے سفیر نے نیئر عباس زیدی کے ترجمے کی تعریف کرتے ہوئے ایک نوٹ لکھا جو اس کتاب کے شروع میں دیا گیا ہے ۔ یہاں ہم ناول کے آغاز کا پہلا پیراگراف نقل کر رہے ہیں جس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ناول میں منظر کشی کتنی عمدہ ہے ۔
” گرد اور فریب کا مہینہ اپریل : ایک طویل اور اونچی چھت والا کمرہ کہ جو سگریٹ کے دھوئیں سے بھرپور کوئی اداس سا سٹور روم لگتا تھا ۔ شیلفوں میں فائلیں سکون کا مزہ لے رہی تھیں ۔ اپنے کام میں مصروف سول ملازمین ان فائلوں کے لیے کتنی تفریح طبع کا باعث ہوں گے ۔ ۔ ۔ ۔ “
نیر عباس زیدی نے ، گو ، یہ ترجمہ تیسرے ہاتھ کیا ہے یعنی عربی سے ' فرانس لیارڈیٹ ' ( Frances Liardet ) نے 1993ء میں انگریزی میں کیا اور پھر اسے انگریزی سے نیر عباس زیدی نے اردو میں ۔ یہی وجہ ہے کہ تیسرے ہاتھ کے ترجمے میں جو کمی اور خامیاں رہ جاتی ہیں وہ اس ترجمہ میں بھی ہیں ۔
نیئر عباس زیدی کو چاہیے کہ وہ نجیب محفوظ کی مشہور ٹرائلوجی (Triology) جس میں ” پیلس واک “، ” پیلس آف ڈیزائر“ اور ” شوگر سٹریٹ “ کا ترجمہ بھی کریں کیونکہ یہ نجیب محفوظ کا سب سے اہم کام ہے ۔
141 صفحات پر مشتمل یہ ناول فکشن ہاﺅس نے ، بک سٹریٹ ، 39 مزنگ روڈ لاہور سے شائع کیا تھا اور شاید اب بھی ان سے مل سکے ۔ تیسرے ایڈیشن کی مجلد کتاب کی قیمت 160 روپے تھی ۔ اب کا پتہ نہیں ۔ فکشن ہاﺅس کا فون نمبر7249219 ۔ 0423 جبکہ ای میل [email protected] ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...