پاکستان اور اہلِ پاکستان کا ستارہ مستقل گردش میں ہے۔ ایک مصیبت ٹلتی ہے تو دوسری آ جاتی ہے۔ شاعر کی طرح اہلِ پاکستان بھی اب یہی کہتے نظر آتے ہیں ؎
ٹُوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاںؔ پر
لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی
تازہ ترین افتاد یہ آن پڑی ہے کہ صدرِ مملکت کی شیروانی درست نہ نکلی۔ یومِ پاکستان کی تقریب کے لیے سلوٹوں سے بھری انتہائی خراب سلائی والی شیروانی ’’فراہم کرنے ‘‘کی تحقیقات شروع ہو بھی چکی ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ اس کے لیے چار رکنی کمیشن بٹھایا گیا ہے یا ایک ہی فرد تحقیقات کرے گا۔ خبرکا زیادہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس شیروانی کا وزیراعظم سمیت کئی شخصیات نے نوٹس لے لیا ہے۔ یہ صدر صاحب کے سائز کے مطابق نہیں تھی ، اسے استری بھی ٹھیک سے نہیں کیا گیا تھا۔ صدر نے خود بھی دورانِ تقریب سبکی محسوس کی بلکہ وہ سارا وقت انتہائی بے چین نظر آئے۔
اب اس وحشت اثر خبر میں کئی مقامات رُکنے پر مجبورکر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے علاوہ کون سی شخصیات نے اس حادثے کا نوٹس لیا؟ یہ کیسے معلوم ہوا کہ صدر صاحب سبکی محسوس کر رہے تھے؟ کیا وہ بار بار شیروانی کی سلوٹوں کو ہتھیلی سے ہموار کرتے پائے گئے یا سبکی محسوس کرنے کی کوئی اور علامت ظہور پذیر ہوئی؟ اگر وہ سارا وقت بے چین بلکہ انتہائی بے چین نظر آئے توکیا اس کی وجہ صرف شیروانی تھی؟ کیا خبرکوئی اور وجہ بھی ہو؟ شاعر نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانیے کیا یاد آیا
پیٹ میں درد اٹھا آنکھ میں آنسو آئے
صدر صاحب کو غالباً معلوم نہیں کہ اب وہ جس طبقے کے رحم و کرم پر ہیں وہ پاکستان کا طاقت ور طبقہ تو نہیں لیکن ان طبقات میں یقیناً سرفہرست ہے جو من مانی کرتے ہیں اورکبھی پکڑائی نہیں دیتے۔ اس طبقے کو بیوروکریسی بھی کہا جاتا ہے، افسر شاہی بھی اور نوکر شاہی بھی۔ انگریزی اخبارات ’’بابو‘‘ کا لفظ بہت استعمال کرتے ہیں۔ شیروانی کی خرابی کے ساتھ دوسری خبر یہ بھی ہے کہ جس مشاعرے کی صدارت صدر ممنون نے کی اور خصوصی خطاب بھی کیا وہ اسلام آباد کلب میں منعقد کیا گیا تھا۔ صدر صاحب اگر شیروانی کی پریشانی میں مبتلا نہ ہو جاتے توکیا خبر وزارت اطلاعات کے بابوئوں سے پوچھتے کہ اسلام آباد کلب میں تو صرف وہ لوگ داخل ہو سکتے ہیں جو کلب کے رکن ہوں یا جن کے نام خصوصی طور پر کلب کے گیٹ پر لکھوائے گئے ہوں ، ایک عام پاکستانی تو اسلام آباد کلب میں جا ہی نہیں سکتا۔ نیشنل لائبریری کے آڈیٹوریم میں کئی مشاعرے برپا ہوئے ہیں ، نیشنل کونسل آف آرٹس کی عمارت میں بھی بہت مناسب اور وسیع ہال ہے اور وہاں عوام بھی جا سکتے ہیں۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ شیروانی ’’فراہم کی گئی‘‘ تو لگتا ہے شیروانی ’’سرکاری‘‘ تھی اور اگر سرکاری تھی تو نوکر شاہی کاکوئی نہ کوئی رُکن ضرور ’’ملوث‘‘ ہوگا! اگر صدر صاحب خود اپنی مرضی کا کپڑا ’’خریدتے‘‘ اور اپنی مرضی کے ٹیلر سے سلواتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔
بیوروکریسی کے حوالے سے یاد آیا کہ جو ہاتھ حکومت طالبان سے کر رہی ہے‘ طالبان نے ساری ہشیاری اور احتیاط کے باوجود اس کا کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔۔۔ مذاکرات کرنے والی تازہ ترین کمیٹی نوکر شاہی پر مشتمل ہے۔ یوں حکومت ایک تیر سے کئی پرندے شکار کر رہی ہے۔ نوکر شاہی کی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں جن سے طالبان کا آج تک سابقہ نہ پڑا ہوگا ، طالبان سیدھے سادے آر یا پار پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ نوکر شاہی کی ساری تربیت ہی اس نکتے پر مرکوز ہوتی ہے کہ جان بچائو‘ ذمہ داری قبول نہ کرو اور بات ایسی کرو جس سے دو نہیں کئی مطلب نکالے جا سکیں۔ فاروق گیلانی مرحوم اپنا قصہ سنایاکرتے تھے کہ ان کے افسر نے کوئی فیصلہ کیا تو انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ غلط فیصلہ ہے۔افسر حقائق جاننا نہیں چاہتا تھا، گویا زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ ’’میں فیصلہ کر چکا ہوں، اب حقائق سے مجھے کنفیوز نہ کرو‘‘۔ طالبان کو مذاکرات کے دوران اس قبیل کے جوابات سے پالا پڑے گا:
۔۔۔ آپ نے درست کہا ہے ، اس پر ضرور غورکیا جائے گا۔
۔۔۔ آپ کا موقف صحیح ہے ، بس ہمیں ذرا وزارت قانون کی رائے لینا ہوگی۔
۔۔۔ آپ کا مطالبہ بجا، بجٹ کا تخمینہ لگا کر وزارتِ خزانہ سے پوچھ لیتے ہیں۔
۔۔۔ متعلقہ حلقوں (Concerned Quorters) سے رابطہ کرکے آپ کو بتائیں گے۔
۔۔۔ سمری تیارکر کے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو بھیجنا ہوگی۔
۔۔۔ جی ضرور! بس ذرا نظیر (Precedent) تلاش کرنی پڑے گی۔
بیوروکریٹ اور سیاست دان میں جوہری فرق یہ ہوتا ہے کہ سیاست دان زندہ‘ جیتے جاگتے انسانوں کو دھیان میں رکھتے ہیں جبکہ بیوروکریٹ نے قوانین کی کتاب ملحوظ رکھنی ہوتی ہے ، بیوروکریٹ میں لچک بالکل نہیں ہوتی۔ وہ اگر ڈپٹی کمشنر چار دن بھی رہا ہے تو ساری زندگی اسی خمار میں گزرتی ہے اور فیصلے بھی اُسی ذہنی فضا میں کرتا ہے (یا نہیں کرتا) ۔ سیاست دان کے سامنے ایک بڑی تصویر ہوتی ہے اور وہ ہر پہلو کو سامنے رکھتا ہے اور پھر اگر سیاست دان اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو توکیاکہنا ! بیوروکریٹ اسے جل نہیں دے سکتا !
نوکر شاہی کے ارکان نے اس ملک میں کیسے کیسے پتے کھیلے ہیں اورکس کس طرح کھیلے ہیں‘ اس کی صرف ایک مثال جو حافظے سے دفعتاً باہر نکل آئی ہے‘ دیکھیے: اکتوبر 2007ء کی بات ہے ، سرکاری ادارے نیپرا (NEPRA) کا چیئرمین لگایا جانا تھا۔ حکومت نے اخبار میں اشتہار دیا، پچاس سے زیادہ امیدواروں نے درخواستیں دیں ، ان میں سے سولہ کو انٹرویو کے لیے منتخب کیا گیا۔ تین ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے انٹرویو لینے تھے۔ یہ تین ارکان کابینہ ڈویژن ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور پانی اور بجلی کے وفاقی سیکرٹری تھے۔ سولہ امیدواروں کے انٹرویو کیے گئے ، ان میں سے پانچ امیدواروں کے نام اس وقت کے نگران وزیراعظم کو ارسال کیے گئے تاکہ وہ ان میں سے ایک کو چیئرمین تعینات کردیں‘ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ نوکر شاہی کا جو کارندہ نگران وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پرکام کر رہا تھا‘ اس نے پانچ منتخب ناموں والی فائل اپنے پاس ’’روک‘‘ لی۔ اس کارندے نے اس پوسٹ کے لیے درخواست دی تھی نہ اس کا انٹرویو ہوا تھا اور نہ ہی‘ جیسا کہ پریس نے لکھا‘ وہ اس کا اہل تھا لیکن پندرہ فروری 2008ء کو جو سرکاری اعلان جاری ہوا اس کی رُو سے وہ کارندہ چیئرمین تعینات ہوگیا۔ کیسا اشتہار اورکون سا انٹرویو؟ ان صاحب نے چار سال اس چیئرمینی سے حظ اٹھایا اور اس کے بعد درخواست دی کہ دوسال مزید عنایت کیے جائیں۔ افسوس صد افسوس! یہ درخواست منظور نہ ہوئی اور قوم کو ایک جوہرِ قابل کا داغِ مفارقت سہنا پڑا۔
قوم کی قسمت دیکھیے‘ شیروانی اور مشاعرے سے لے کر مذاکرات تک جو کچھ بھی کرنا ہے‘ افسر شاہی نے ہی کرنا ہے! غالبؔ تو اس صورتِ حال پر نوحہ خوانی پہلے ہی کر چکے ہیں ؎
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟