عدلیہ کو اپنا معیار بڑھانا ہوگا!
28جولائی کوملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی عدالتِ عظمیٰ نے وزیراعظم کوآئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نااہل قراردیا جس کے بعداپوزیشن جماعتوں نے عدالتِ عظمیٰ کے اِس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور بھرپور جشن منایاجبکہ حکومتی حلقوں کی طرف سے دبے الفاظوں میں اِس فیصلے کی مخالفت کی گئی مگر اِس کے چند روز بعدہی قومی اسمبلی نے اپنے نئے قائدِ ایوان کا انتخاب کرلیا اور نااہل ہونیوالے وزیراعظم سابق ہوکر ایوانِ وزیراعظم سے رخصت ہوگئے ۔
فیصلے سے قبل JITرپورٹ آنے کے بعد یہ بات تو واضع ہوہی گئی تھی کہ عدالتِ عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے جو ملک میں عدل وانصاف کے معاملات ٹھیک کرسکتی ہے کیونکہ عدالتِ عظمیٰ نےJIT ممبران کوجو اعتماد فراہم کیا اُس کے بعدانہوں نے ملک کے منتخب وزیراعظم اور اِن کے خاندان سے اُن پر عائد الزامات کی بنیاد پربلا خوف تفتیش کی جو ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔اگر اِس کے بعد احتساب کاغیر جانبدارانہ تسلسل جاری نہ رہا تو ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل کرنے والا فیصلہ انتقامی کاروائی سمجھاجائے گا۔
اِس فیصلے کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے یہ ثابت کرناہے کہ آئندہ ہرکسی کا بلاتفریق احتساب ہوگا اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا اوراب ہر خاص و عام پکڑ میں آئیں گے مگر اِس کے برعکس اعلیٰ عدلیہ کو اب یہ بھی سوچنا ہوگیا کہ عام عوام کو انصاف کیسے ملے گا جس کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ 28جولائی کو ملک کا ایک وزیراعظم نااہل ہواہے ۔اُن کو تو صرف اِس بات سے غرض ہے کہ ملک میں انصاف کا بول بالاکب ہوگا؟
اعلیٰ عدلیہ کو انصاف کی میرٹ پر فراہمی کے لئے ماتحت عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کو نمٹانے کے لئے اب سنجیدہ اقدامات کرناہونگے۔ اِس سلسلہ میں پہلے2009میں جوڈیشنل پالیسی لائی گئی تھی جس کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے بہت سے دعوے کیے تھے کہ اب بہت ہی جلد ماتحت عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کا خاتمہ ہوجائے گا مگر آج وہ جوڈیشنل پالیسی کہی نظر نہیں آتی۔ جس کے بعدموجودہ چیف جسٹس لاہور نے عہدہ سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ اب بہت جلد ماتحت عدالتوں میں ’’کیس مینجمنٹ ‘‘ کا نظام لایا جائے گا جس کے تحت 6ماہ کے اندر ہر دیوانی کیس کا فیصلہ ہوجائے گا مگر اب تک ہم اِس نظام کا انتظار ہی کررہے ہیں مگرصوبہ پنجاب کی سطح پر عدالتی نظام کے ساتھ مصالحتی نظام (ADR)ایک قابلِ تعریف کاوش ہے۔
اَس وقت موجودہ عدالتی نظام میں چند تبدیلی نظر آرہی ہیں جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تحت زیادہ سے زیادہ کمپیوٹر آلاٹ کو عدالتی نظام کاحصّہ بنایا گیا ہے جس سے صرف عدالتی اہلکاروں کا فائدہ ہوا ہے جبکہ سائلین کے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں سائلین کا فائدہ اُس وقت ہو گا جب اُن کو بروقت انصاف میسر آئے گا اورخاص طور پردیوانی مقدمات کے بارے جب اِس روایت کا خاتمہ ہوگا کہ مقدمہ دادا دائر کرے گا اور فیصلہ پوتا اپنے بڑھاپے میں سنے گا۔
ہمارے ہاں کے عدالتی نظام کی پیچدیگیوں کا فائدہ صرف اور صرف فراڈیوں کوہی ہوتاہے ۔موجودہ نظام میں تھوڑی سی تبدیلی کے بعد اگر مقدمات میں کوئی وکیل صاحبان انصاف کے تقاضے پورے ہونے میں رکاوٹ ڈالیں تو قانونی پیچدیگیوں کے خاتمہ سے ہرقسم کی رکاوٹ ختم ہوجائے گی اور صرف تنخواہ کے انتظار میں کام کرنے والے جج صاحبان بھی نیت سے کام کرناشروع کردیں گے اِس طرح ہم ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہونے کی روایت کا خاتمہ کردیں گے۔
اب عدلیہ کو اپنا معیار بڑھانا ہوگاکیونکہ جس طرح اعلیٰ عدلیہ کسی بھی خاص مقدمہ کے لئے سوموٹو ایکشن ، کمیشن، JIT یاپھر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے جلد ازجلد نمٹاسکتی ہیں اُسی طرح ماتحت عدالتوں کی مقدمہ بازی کو بھی ہنگامی بنیادوں نمٹایا جاسکتا ہے جس سے عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا اور زیادہ سے زیادہ سائلین میرٹ اور فوری انصاف کے لئے عدلیہ پر اعتماد کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔