::: اڈیا میڈیسن موز: اسرئیل کی ایک نئی فکر کی ادبی اور ثقافتی نظریاتی ناقدہ :::
پچھلے دنوں میں نے اسرائیل کی ایک ادیبہ، استاد اور ناقدہ اریا میڈیسن موز { Adia Mendelson-Maoz} کی کتاب " اسرائیل کی کثیر الجہت ثقافت" ادبی تناظر " Multiculturalism in Israel}
Literary Perspectives } پڑھی ۔ اس کتاب میں ادبی تناظر میں اسرائیلی ثقافت کے کئی زاریوں کا انکشاف ہوا۔ خاص طور پر اسرائیل کے عبرانی ادب میں ثقافتی تناظر میں ادبی نظرئیے کا جدید تر پہلو اجاگر ہوا۔ اس کتاب کا یہ کمال ہے کہ اس میں نسلی اورقومی ثقافت کے تفاوت اور اس کے متنازعہ فکری مسائل پر کھل کر لکھا ہے۔ اوراس نئے فکری مکالمے پر دانشوروں اور ادبّا کی توجہ ان ثقافتی اور ادبی مسائل اور نکات پر مرکوز کی اور اس پر بات کرنے پر اکسایا۔ جو ابھی تک اسرائیل میں موضوع بحث نہیں آسکے تھے۔ اور لوگ اس سے ناواقف بھی تھی انھوں نے بڑی جرات مندی سے بہت سے پرانے بت گرائے اور انھیں مسترد کرتے ہوئے یہودیت اور عبرانی ادب میں رائج کھوکھلی قدامت پسندی پر نئے سوالات اٹھائے۔
اڈیا میڈیسن موز نے فلسطین کی عربی ثقافت وتمدن اور اس کے ادب کو تقابلی تناظر میں مطالعہ کیا اور اسے اسرائیلی ادب کا حصہ قرار دیتے ہوئے "مزراھم"{MIZRAHIM} کے سابق سویٹ یونیں اور ایتھوپیا کے یہودیوں کے ادب کو اسرائیلی ادب میں مفید اضافہ قرار دیتے ہوئے اس کے منفرد اسلوب نگارش اور تنوع کا ذکر کرتے ہوئے اسے " نئے صہیونیت" کا جنم قرار دیا اور اسے" یک ثقافت" {MONO CULTURE} کہا۔
ان کے انھی نظریات اور خیالات سے اسرائیل میں نئے معاشرتی، ثقافتی اور ادبی مباحث کو فروغ حاصل ھوا۔ موصوفہ کے ان نظریات پر کافی لے دے بھی ہوئی مگر ان کا ادبی اور ثقافتی اجتہاد اور مخاطبہ بہت عمیق اور توانا تھا۔ جس سے بہت سےمتروک عوامل کو انھوں نے اپنی لغت سے باہر نکال پھیکا۔ موز نے تقابل نے کے ادبی اور ثقافتی متنون کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
انھوں نے اسرائیل کے عربی ادب اور خاص کرفلسطینی ادبیات کی لسان اور تراجم پر خاصی دقیق فکری بحث کی ہے۔ اور انھوں نے ان ادیبوں کی قبولیت، اساس کی تین سمتوں کی نشاندھی بھی کی ہے۔ ان کی اس کتاب میں ۱۹۵۰ سے "مزراھم"{MIZRAHIM} ادب کی تاریخ کو تسسلسل کے ساتھ مطالعہ کیا۔ اور صداقت ،حق خودارادیت کے سوالات اٹھائے۔ اس کتاب میں سابقہ سویت یونین کے مہاجرین کے اسرائیلی ادب کتاب کے آخری حصے میں ایتھوپیا سے نقل مکانی کرنے والے ادیبوں کے " حبشی ادب" کو اسرائیلی ادب میں ایک اضافہ قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جس میں ماضی شاز ونادر ھی بات کی گئی ہو۔ اور انھوں نے ان تنوع اور ماخذات میں پوشیدہ آوازوں کا کھوج لگاتے ہوئے ان کو وسیع تناظر میں مطالعہ و تجزیہ کیا۔ جو یکساں طور پر ایک بڑی ادبی اور نظریاتی تاریخی بیانیہ کو بیاں کرتا ہے۔ اور پرانے روایتی بیانہ تشریحات اور تفھیمات کو داستان کہ کر مسترد کرتا ہے۔ یوں تازہ رویوں کی بنیاد پری۔ یہ صحت مند رجحان ایک روایت کو بھی سامنے لایا۔ جس سے کئی فکری نظریاتی اور ثقافتی دریچے بھی کھل جاتے ہیں۔ مجھے اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس لیے بھی زیادہ لطف آیا کیونکہ میں عمرانیات کا طالب علم ہوں ، میں نے اس کتاب کو بشریاتی اور سماجیاتی تناظر میں بھی اس کے متن کو پڑھا تو کئی عمرانیاتی نظریات کی گرہیں کھلتی گئی۔
اڈیا میڈیسن موز اسرائیل کی اوپن یونورسٹی کے ادب و ثقافت کی کلیہ { فیکلٹی} میں شعبہ عبرانی ادب و زبان میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے اخلا قیات، نسلیات، سیاست اور ثقافتیات پر بڑا دقیق کام کیا ہے اور بیسوین سدی کی کثیر الجہت ثقافت پر مختلف زاویوں سے جامعات کے نصابیات میں نئے موضوعات کو متعارف کروایا۔ ان کے مقالات کئی ادبی جرائد جیسے " معاشرتی یہودی مطالعوں" { Social Jewish Studies}، " جزل آف ماڈرن جیوش اسٹیڈیز"Journal of Modern Jewish Studies}, Review} اور Jewish Studies Shofar, میں چھپتے رہے ہیں۔ ان کی ایک کتاب Literature as a Moral Laboratory: Readings in Selected Twentieth-Century Hebrew Prose, بر ایلان یونروسٹی ہریس نے عبرانی زباں میں شائع کی ہے۔ انھوں نے تل ابیب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل لی۔ آج کل اپنے شوہر شیر موز کے ساتھ " ہافیا" شہر میں رہتی ہیں ان کے دو صاحب زادے اور ایک صاحب زادی ہیں۔::::
۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد سہیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔