یہ کہانی کراچی یعنی میرے شہر دلبرا کے ایک گنجان محلے کی ہے جہاں نہ صرف گھر سے گھر ملے ہوئے تھے بلکہ دلوں میں بھی دوریاں نہ تھیں۔ سکون کا زمانہ تھا، رات کے آخری پہر بھی اگر گھر کا دروازہ کھلا رہ جائے تو کسی کو تشویش نہیں ستاتی تھی۔
گھروں میں پچھلی گلیوں کا رواج تھا اور پچھلی گلیاں زنان خانہ تصور کی جاتیں تھیں ۔ گلی سے خاکروب اور مختلف پھیری والے رنگیلی تانوں میں صدا لگا کر گزرا کرتے تھے۔ پچھواڑے کا دروازہ تو شاید ہی کوئی بند کرتا تھا، بس دروازے بھڑے رہتے تھے جو ہلکی سی دستک پر عاشق کے دل کی طرح وا ہو جایا کرتے تھے ۔
پیاز یا ایک کپ شکر مانگنا عار تھا نہ ادھار۔
اس زمانے میں نہ دیوبندی تھے، نہ بریلوی اور نہ ہی شیعہ نہ سنی کا ٹنٹا۔
سب گھروں میں صبح ریڈیو پر تلاوت گونجا کرتی پھر دن چڑھتے ہی گھر گھر سے رنگ رنگ کے ریڈیو اسٹیشن گونجا کرتے۔ کہیں ریڈیو سیلون تو کہیں کراچی اسٹیشن سے ارشاد حسین کاظمی کی گمبھیر آواز اور ناہید اختر کی تانیں،
“دل توڑ کے مت جئیو برسات کا موسم ہے۔”
یا مہدی حسن کی ہوش گم کرتی آواز
“زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا۔
اور بندہ اس آواز کے سحر کے دوش پر زمانوں کی سیر کر آتا۔
زندگی اتنی تیز رفتار نہیں تھی۔ موسم نہ صرف محسوس کئے جاتے تھے بلکہ جوش و خروش سے منائے بھی جاتے تھے۔ کم تھا پر سب سانجھا تھا۔ ایک کا درد سب کے دل پر دستک دیتا اور خوشیاں اور مہمان بھی اجتماعی ہوتے تھے ۔ شادی بیاہ یا مہمان داری کے موقعوں پر عاریتاً گدا لحاف لینا معیوب نہ تھا۔
یہ اسی دور مخلصی کی پریم کتھا ہے۔
گلی میں ہم دونوں کے دروازے آمنے سامنے کھلتے تھے۔ وہ بوٹے قد کی، ڈمپل والی حسین لڑکی تھی۔ چمپئی رنگت اور گہرے سیاہ بالوں کی گھٹنوں کو چھوتی ہوئی موٹی ریشمی چوٹی۔ وہ چندر مکھی ہنستی پہلے اور بولتی بعد میں تھی زندگی کی امنگوں سے سرشار۔ جہاں بیٹھ جاتی محفل کشت زعفران بن جاتی۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے پہل میں افسانہ باجی کی چوٹی پر ہی فدا ہوئی تھی۔
ہم دونوں تقریباً ایک ہی وقت میں کالج کے لیے نکلا کرتے تھے میں فرسٹ ائیر کی الہڑ احمق تھی اور وہ فورتھ ائیر کی نازنین۔ افسانہ باجی آٹھ بھائی بہن تھے اور ترتیب میں تیسرے نمبر پر ۔ پانچویں نمبر پر جو بہن تھی دردانہ وہ میری ہم جماعت تھی پر میری اس سے بس علیک سلیک تھی دوستی نہیں۔
tripako tours pakistan
ہنسوڑ اور زندہ دل تو وہ سارا گھرانہ ہی تھا۔ صبح فجر کی نماز کے بعد آنٹی کی پرسوز آواز میں تلاوت کے بعد باورچی خانے میں برتنوں کے کھڑکنے کے ساتھ ہی اس گھر میں زندگی کی لہر چہر شروع ہو جاتی اور ایک ہڑبونگ مچ جاتی۔ تین کمروں کا مختصر سا گھر جسکے مکینوں کا بیشتر کام اور وقت صحن میں ہی بسر ہوتا اور ہوا کے دوش پر تلتے پراٹھے اور آملیٹ کی خوشبو کے ساتھ ساتھ قہقہے اور خوش نوائی بھی اڑوس پڑوس میں سفر کرتی پھرتی۔
مجھے وہ گھرانہ اپنی زندہ دلی کے سبب بہت پسند تھا اور کچھ آنٹی کی محبت بھی دامن دل کھینچتی تھی۔ جانے اللہ تعالیٰ نے ان کے منحنی سے وجود میں کس قدر وسیع دل رکھ دیا تھا کہ اپنے آٹھ عدد جگر گوشوں کے باوجود وہ مجھ سے بھی بہت محبت کرتی اور دن کے کھانے پر تقریباً روز ہی میرے لیے کچھ نہ کچھ سوغات ان کے گھر سے ضرور آتی، بھلے وہ تل کی چٹنی ہی کیوں نہ ہو۔ میری پہلی دوست اس گھر میں محبت سے لبریز دل رکھنے والی شفیق سی آنٹی ہی تھیں۔ اتنا بڑا کنبہ تھا اور آنٹی ماتھے پر شکن ڈالے بغیر مشین کی طرح مستقل کام میں لگی رہتیں۔ چاروں بیٹیوں کو میں نے بہت کم ہی باورچی خانے میں دیکھا تھا۔ آٹھوں بھائی بہنوں کا مشغلہ گپ مارنا، بیت بازی، لوڈو، کارڈز اور شترنج کی بساط تھا۔
افسانہ باجی سے دوستی کا سبب کتابوں کا شوق تھا۔ وہ کتابوں کی رسیا تھیں اور ادھر بھی کچھ ایسی ہی جنوں خیزی تھی۔ بس اس سبب ہم دونوں باوجود عمروں کے فرق کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو گئے تھے۔ گلی میں میرے گھر کی دیوار کے ساتھ آم کا کٹا ہوا تنا پڑا رہتا تھا جو میرے ہی گھر میں تیسرے کمرے کی تعمیر کی خاطر کٹا تھا اور جس کے کٹنے کا مجھے شدید قلق تھا مگر تعمیر بھی ضروری تھی۔ شام میں عصر کی نماز کے بعد جب دھوپ کی حدت ماند پڑ جاتی تھی اور کراچی کی مشہور و معروف سمندری ہوا دست مہرباں کی طرح گلے لگتی تو میں دو مگ چائے (ان دنوں مگ میں چائے پینے کا نیا نیا رواج چل پڑا تھا اور ابا جان پشاور کے باڑے سے بہت خوب صورت مگ لائے تھے) کے بنا کر افسانہ باجی کو آواز دیتی اور اسی تنے پر بیٹھے بیٹھے ہم دونوں کتابوں کو ڈسکس کرتے رہتے یہاں تک کہ شام سرمئی آنچل اوڑھ لیتی اور پھر امی یا آنٹی کی صدا آتی کہ
“نماز قضا کرنی ہے کیا ”
اور ہم دونوں ہڑبڑا کر اگلی شام کے وعدے پر اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے۔
اکثر افسانہ باجی کے گھر ان کا ایک گھنگریالے بالوں والا ہینڈسم سا کزن آرمی کی جیپ پر آیا کرتا تھا۔ اس کی آمد پر افسانہ باجی کی چھب نرالی اور آواز کا سُر اور چال کی لہر متوالی ہو جاتی تھی۔ اس دن عصر کے بعد کی نشت بھی معطل ہو جاتی۔ میں نے جب یہ بات تواتر سے نوٹ کی تو ایک دن ہمت کر کے ان سے پوچھ ہی لیا؟
گو کہ ہم دونوں دنیا جہاں کے موضوع پر گفتگو کرتے تھے مگر ایک رکھ رکھاؤ اور حد ادب کی پردہ داری بہرحال حائل تھی ۔ کچھ دن تو افسانہ باجی نے ٹال مٹول سے کام لیا مگر ایک دن خود ہی اپنی محبت کا شریک راز کر لیا۔ شاید وہ اس کومل بوجھ کو اٹھائے اٹھائے بھرے بادل کی مانند ہو گئی تھیں جس کا برسنا ضروری ہو گیا تھا۔ افسانہ باجی کے ساتھ میں نے بھی اس وادی اسرار کی خوب سیر کی۔
محبت انسان کو کتنی خوبصورتی، گداز اور فراخی عطا کرتی ہے اس کا مشاہدہ بھی کیا۔ ایک دفعہ افسانہ باجی نے مجھے ایک کتاب پڑھنے دی اور اس کتاب کا ہر رومینٹک جملہ انڈر لائن تھا۔ یہ بات زرا خلاف معمول تھی کیونکہ اچھے جملے یا پیراگراف ہم دونوں ہی انڈر لائن کیا کرتے تھے مگر یہ سارے کے سارے جملے اس قدر واشگاف تھے کہ حد نہیں۔ میں نے پلٹ کر سرورق دیکھا اور بےاختیار مجھے ہنسی آ گئی کہ وہاں” مرسلین احمد” لکھا تھا۔
او ہو! یہ تو خوش جمال صاحب کی کتاب تھی۔ میں نے جب افسانہ باجی کو کتاب واپس کی تو کہا کہ پچھلے زمانوں میں جو کام کبوتروں سے لیا جاتا تھا وہ اب کتابیں کرنے لگیں ہیں۔ افسانہ باجی میرا اشارہ سمجھ کر خوب ہنسی۔ محبت تو ان دونوں کی تھی مگر اس کی کوملتا میں نے بھی محسوس کی تھی۔
دن سبک سری سے گزرتے گئے ان دنوں میرے لیے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ سالانہ امتحان ہوا کرتا تھا۔ افسانہ باجی یونیورسٹی پہنچ چکی تھیں اور میں بھی اپنی بھانویں کچھ عقل مند ہو گئی تھی۔
کہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے کہ
آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔
افسانہ باجی کے اس راز سے اب پورا گھر آشنا ہو چکا تھا اور کوئی مسئلہ یوں نہ تھا کہ وہ خوش جمال افسانہ باجی کا چچازاد بھائی تھا، آرمی میں کیپٹن اور ان لوگوں کی اندرون سندھ زمینداری بھی تھی۔ کوئی فارمل بات یا منگنی وغیرہ نہیں تو ہوئی تھی پر راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ دونوں گھرانے راضی باضی تھے۔ اس لو اسٹوری میں کوئی رقیب تھا اور نہ کیدو۔
دونوں پریمی پریم رس سے مست تھے۔
سنہ اسی کی دھائی تھی اور ضیاء الحق کا ظلمت بھرا دور اپنے پورے جبر و استبداد کے ساتھ جاری و ساری تھا۔ پڑوس(افغانستان) میں شدت سے جنگ جاری تھی اور میں تازہ تازہ یونیورسٹی میں آئی تھی۔ افسانہ باجی کو ایم۔ اے کئے دو سال سے زیادہ ہو چلے تھے مگر شادی کا معاملہ ہنوز کھٹائی میں پڑا تھا کہ اس خوش جمال کی بڑی بہن کی شادی نہیں ہو پا رہی تھی۔ پھر یہ نوید آئی کہ چچی منگنی پر راضی ہو گئی ہیں مگر افسانہ باجی کی شادی ان کی بڑی نند کی رخصتی کے بعد ہی ہو گی۔ گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ اب افسانہ باجی کے بعد والی بھی ماسٹرز کر چکی تھی اور دردانہ نے بھی میرے ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ زور و شور سے منگنی کی تیاریاں ہو رہیں تھیں اور خوش جمال کے ایکسرسائز سے واپس آتے ہی منگنی طے پا چکی تھی۔
انسان کی منصوبہ بندی اس قادر مطلق کی منصوبہ بندی کے آگے دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اس ایکسرسائز پر خوش جمال کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور حادثہ بھی ایسا المناک جو خوش جمال کی ساری خوشیاں نگل گیا۔ وہ زندگی سے بھرپور جوان کمر کے نیچے سے اپاہج ہو گیا۔ چھ ماہ کے طویل صبر آزما علاج کے بعد خوش جمال جب اپنے اردلی کے ساتھ افسانہ باجی کے گھر آیا تو اس کی بےچارگی پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ پھر خوش جمال کے لیے اس گھر کی فضا بدل گئی۔ وہ گھر جہاں پہلے سب نظریں فرش راہ رہتی تھی پہلے وہ نظریں کترائیں اور پھر کٹار بنتی چلی گئی۔ سوائے افسانہ باجی کے اس گھر کا ہر فرد اس رشتے کے خلاف تھا۔ افسانہ باجی کا برا حال تھا۔ خوش جمال کے حادثے سے لیکر اس وقت تک وہ رو رو کر ہلکان ہو چکیں تھیں، آدھی بھی نہیں رہیں تھیں۔ گھر کا ہر چھوٹا بڑا ان کو قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ شادی کا یہ فیصلہ خودکشی کے مترادف ہے۔ یہ نرا جزباتی فیصلہ ہے، ازدواجی خوشی کے بغیر کوئی کیسے رہ سکتا ہے؟ عجیب آبلے جیسی صورتحال تھی ۔ اس ہنستے بولتے گھر میں خاموشی نے ڈیرہ ڈال لیا تھا اور سب ایک دوسرے سے نظریں چرانے پر مجبور تھے۔
خوش جمال کے لیے یہ گھر بہت روکھا ہو گیا تھا۔ اس شیر جوان کو وہیل چیئر پر دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیس کسی نے دل پر تیر مارا ہے اور تیر کی انی اندر ہی گڑی رہ گئی ہے۔
ایک دن آنٹی نے مجھے افسانہ باجی کو سمجھانے کہا۔ میں بھلا کیا بولتی بس ان کے ساتھ آنسو بہاتی رہی کہ میں اس محبت کی کہانی کے ہر راز کی امین تھی۔ مجھے یاد ہے افسانہ باجی نے بڑے درد سے کہا تھا کہ
تم پلیز امی کو سمجھاؤ نا!
ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش رہے گے۔ میں بہت صابر ہوں۔ میری خوشی ان کی کمپنی اور ان کے ساتھ میں ہے۔ میں بچوں کے بغیر رہ لوں گی اور اگر بچے اتنے ہی ضروری ہوئے تو ہم کوئی بچہ گود لے لینگے۔
میرے پاس اس ماہی بے آب کے لیے کوئی جواب نہیں تھا ماسوائے آنسوؤں کے۔
ایک اداس شام خوش جمال نے افسانہ باجی کو اس اذیت سے رہائی دے دی۔ اتفاق سے اس شفق رنگی شام میں افسانہ باجی کے گھر ہی تھی جب وہ اپنے اردلی کے ساتھ آئے تھے ۔ اردلی سیدھے ان کی وہیل چئیر افسانہ باجی کے کمرے میں ہی لے آیا۔ انہوں نے بنا رکے اور لڑکھڑائے افسانہ باجی سے صاف اور مضبوط آواز میں معذرت کی کہ وہ ان سے شادی نہیں کر سکتے اور انہوں نے تمام وعدوں اور دعووں سے افسانہ باجی کو آزاد کر دیا۔ یہ جملے ادا کرتے ہوئے زبان میں لکنت تو نہ تھی پر چہرہ ضبط غم سے سیاہ پڑ گیا تھا۔ پھر وہ رکے نہیں فوراً اردلی کو آواز دی اور اردلی ان کی وہیل چئیر کو دھکیلتا ہوا ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔
یوں یہ ادھورا فسانہ تمام ہوا۔
Advertisements
merkit.pk
افسانہ باجی بالکل بجھ گئی، ایسے جیسے بولنا ہی بھول گئی ہوں ۔ بس ایک ٹک خلا میں گھورتی رہتی یا پھر منہ سر لپیٹ کر کسی کونے میں پڑی رہتیں۔
آنٹی نے جھٹ پٹ ان کا رشتہ طے کر دیا۔ میں نے دبی زبان میں کہا بھی کہ کم از کم افسانہ باجی کو سنبھلنے کا موقع تو دیں۔
انہوں نے کہا، نہیں!
“جتنی جلدی اتنی بہتری” ۔
پہلے ہی بہت وقت ضائع ہو گیا ہے۔ نئے لوگوں اور نئے ماحول میں جائے گی تو بہل جائے گی۔ آنٹی اس گھڑی مجھے بہت کٹھور لگیں جب انہوں نے کہا تھا کہ
“بیٹا دل بسے نہ بسے مگر جسم فشار میں مبتلا نہ ہو ورنہ بڑی تباہیاں لاتا ہے۔ دو چار بچے ہونگے تو ان کے سبب دل بھی آباد ہو جائے گا۔”
افسانہ باجی نے اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا اور اس شادی کے فیصلے پر ان کی طرف سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا۔
ان کی شادی ایک اوسط سے بھی کم صورت شخص کے ساتھ کر دی گئی جس کی واحد خوبی اس کی بھاری بھرکم ڈگری اور سات سمندر پار کا ویزہ تھا۔ وہ ایسی شادی تھی جس میں سارا گھر خوش تھا سوائے دلہن کے۔
ان کی شادی پر چچا کے گھر سے کوئی نہیں آیا تھا اور افسانہ باجی بنا ایک بھی آنسو بہائے رخصت ہو گئیں ۔
آج میں پانچ دہائیاں گزار چکنے اور ممتا کی کٹھالی میں پسنے کے بعد بھی میں بےیقین ہوں کہ
آنٹی کا فیصلہ درست تھا یا غلط ؟
عقل یہی کہتی ہے کہ ہاں! وہ مناسب فیصلہ تھا۔
شاید ہر ماں یہی فیصلہ کرتی۔
پر جانے دل کیوں کرلاتا ہے۔
اب تو زمانے گزر گئے اس قصے کو!
جانے دنیا کی اس بھیڑ میں افسانہ باجی کہاں ہیں؟
آسودہ ہیں یا دل زدہ کون جانے۔
خدا جانے خوش جمال کہاں سیاہ پوش ہے۔
دنیا بہرحال اپنے مدار پر قائم ہے۔
***
تحریر: شاہین کمال