وہ فاتحانہ انداز سے اسٹیج سے اتری اور خراماں خراماں چلتی ہوئی اپنی
نشست پر آکر بیٹھ گئی۔اس کا شوہر حماد برابر بیٹھا ہوا تھا۔اس وقت اس کا
چہرہ کامرانی کا غماز تھا۔آتشی رخسار خوشی سےدمک رہے تھے۔وہ اسے والہانہ
انداز سے دیکھنے لگا۔
’’آج تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔‘‘
اس نے کانوں میں میٹھی سرگوشی کی۔
اس کا دل زور سے دھڑکا ۔جس کی صدا وجود کے پاتال میں اترتی چلی گئی۔ایسا
کئی بار ہوا تھا۔مگر آج اسے یہ سرگوشی بری لگی تھی۔
وہ ایک کامیاب اور معروف مصنفہ تھی۔ بچپن سے لکھنا شروع کیا اور ادب کے
میدان میں اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑتی چلی گئی۔
وہ اور حماد ایک ہی یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے تھے ۔وہ شوخ و شریر تھی۔
اس کی اداؤں پہ سبھی مرتے تھے۔ مگر وہ اس پہ مرمٹی تھی۔ وہ اس کی تعریفیں
اس انداز سے کرتا تھا، کہ اسے خود پر پیار آنے لگتا تھا۔وہ دیوانہ اس کے
ملکوتی حسن کو اتنی خوبصورتی سے سراہتا تھا ۔وہ خود کو کسی اور جہاں میں
محسوس کرنے لگتی۔وہ گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی اپنے حسیں سراپے کو ہر
زاویے سے دیکھتی، اس کی باتوں کو یاد کرکے مسکراتی تھی۔
عشق تعریف کرتا ہے۔ حسن نکھرتا ہے ۔وہ بھی نکھرنے لگی۔ سجنے سنورنے
لگی۔ان کی ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ان کے جسم تو دو تھے مگر جان ایک بن گئی
تھی۔
ایک دن حماد نے اسے پرپوز کیا۔وہ سرشاری سے نہال ہوگئی۔
اسے اپنے گھر والوں سے ملوایا ۔وہ کھاتے پیتے گھر کا تھا، خوبرو جوان
تھا۔ انہیں بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا؟
یوں وہ ہم سفر بن گئے۔ادبی سرگرمیاں جو کچھ عرصے سے التواء کا شکار تھیں۔
وہ دلجمعی سے سرانجام دینے لگی۔وقت گزرتا رہا۔دن رات ایک دوسرے کے تعاقب
میں دوڑتے رہے۔
شادی کے تین ماہ بعد اس کی پہلی کتاب شائع ہوئی۔ جسے ادبی محفلوں میں خوب
پذیرائی ملی،بہت سراہا گیا۔
اس کے اعزاز میں کئی تقاریب منعقد کی گئیں۔وہ آگے بڑھتی رہی۔لیکن اس کے
دل میں ہمیشہ اک کسک سی رہی۔بہرکیف اس کا ادبی سفر جاری رہا۔ یہ اس کی
دسویں کتاب تھی۔ جس کا نام"ادھورے لوگ" تھا۔اس پر اسے صدارتی ادبی ایوارڈ
ملا تھا۔وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہی تھی۔یہ اس کی شاندار
کامیابی تھی۔
حماد ہمیشہ کی طرح اس تقریب میں بھی اس کے ساتھ آیا تھا۔
اس کے چہرے پہ بکھرے دھنک رنگ دیکھ کر اس نے کانوں میں میٹھی سرگوشی کی۔
وہ اس سرگوشی کا مطلب جانتی تھی۔آج اسے رات گئے تک جاگنا تھا۔اب اسٹیج پر
مہمان خصوصی جو کہ اردو ادب کا معتبر نقاد تھا اپنے خیالات کا اظہار کر
رہا تھا۔وہ بھی گاہے گاہے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔اسے اب ایسی نظروں سے
الجھن ہوتی تھی۔اس نے اکثر یہ بات محسوس کی تھی۔ وہ کسی بھی تقریب میں
جاتی، مردوں کی ستائشی نگاہیں اس کے حسین سراپے کا جائزہ لیتی تھیں۔ وہ
ان نگاہوں کا مہفوم جانتی تھی۔
وہ ان ستائشی نظروں کے پیچھے چھپی ہوس کو بخوبی پہچانتی تھی۔ کبھی کبھی
حماد بھی اسے دوسرے مردوں جیسا ہی لگتا تھا۔ فرق بس اتنا تھا۔ دوسرے
مردوں کی طرح اسے اس کے قرب کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔
آخر تقریب ختم ہوگئی۔وہ دونوں بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ ڈائننگ ہال میں
آگئے ۔کھانا کھانے کےدوران وہ بار بار اس کی طرف دیکھتا رہا۔ اسے اس طرح
دیکھنے سے الجھن سی ہونے لگی تھی۔
کھانے کے بعد وہ کچھ دیر مزید وہاں رکے ۔رات دس بجے کے قریب اپنے گھر
آگئے۔وہ سارے راستے یہ سوچتی آئی تھی کہ آج وہ ادبی کامیابی پر گفتگو
کریں گے۔وہ اس کی تعریفیں کرے گا۔یہ سوچ سوچ کر اس کے ہونٹوں پر بے ساختہ
مسکراہٹ پھیل جاتی تھی۔وہ بھی اسے مسکراتا دیکھ کر مسکرانے لگتا تھا۔وہ
دونوں گاڑی سے اترے،سیدھے اپنے بیڈ روم میں آگئے۔حماد نے اس کا ہاتھ پکڑا
،اور اپنے سامنے بٹھا لیا۔اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر
وارفتگی سے بولا۔
’’شمائلہ جس دن تمہاری کوئی تقریب ہوتی ہے۔ میں بہت خوشی محسوس کرتا ہوں۔‘‘
وہ چپ رہی ۔وہ لمحاتی توقف کے بعد بولا۔
’’اس دن تم بہت خوبصورت لگتی ہو۔ میں وفور شوق سے تمہارا حسیں چہرہ
دیکھتا رہتا ہوں ۔ہاں تمہارا چہرہ اس دن کھلے گلاب کی طرح لگتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کروہ اس کے مزید قریب ہوگیا۔ پھر اسے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑ لیا۔
’’حماد۔۔۔!‘‘وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔۔مگر کہہ نہ پائی۔اس نے اس کے گداز
ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔آج اسے یہ بازو ایک سنہری قفس کی مانند لگ
رہے تھے۔جس میں وہ کسی پنچھی کی طرح پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔وہ اس کی بانہوں
میں دبی‘ بڑبڑائی۔
’’حماد! نہ جانے کب تک تم میرے حسن کی تعریف کرتے رہو گے؟کبھی تو میری
ذہانت،علم و ہنر اور صلاحیتوں کی تعریف کر دیا کرو۔‘‘
وہ بحر جذبات میں غوطہ زن تھا۔
اتنا سنتے ہی وہ اسے اپنے ہاتھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔ ’’تو کیا تم یہ
چاہتی ہو کہ میں تمہاری ذہانت اور صلاحیتوں کی بیٹھ کر مالا جپوں؟تمہارے
ادبی دوست اور وہ نقّاد تمہارے حسن کی تعریف کریں؟جب وہ تمہیں گھورتے ہیں
تو ان کی نظریں میرے دل کو تیر کی طرح چیرتی چلی جاتی ہیں۔۔۔تم ان کے
ساتھ ہی خوش رہتی ہو۔تم ان کے ہی پاس چلی جاؤ۔ کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ
تمہاری صلاحیتوں کے قدردان ہیں۔اگر تم چاہو تو میں تمہیں آزاد کر دیتا
ہوں۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1718306818436018/
“