بیک سٹیج سے علیزہ
عؔ
ساحر ساحر غزل چل رہی ہوتی ہے نہ چھیڑ قصہِ اُلفت جاناں اچانک ساحر کی نظر علیزہ پر پڑتی ہے
فورً بھاگ کر کیا بات ہے علیزہ۔
تم اس کے کیسے دوست ہو؟
کیوں؟ کیونکہ صبح کے چار بجنے والے ہیں شامی تو نشے میں مست ہے اور گاۓ جارہا ہے۔
تم کیسے میوزیشن ہو،کیا تم بھی نہیں تھکتے؟ دُکھی اور افسردہ چہرے کے ساتھ علیزہ۔
کراؤڈ دیکھو لوگ کتنا خوشی سے سن رہے ہیں کتنا ہجوم ہے اِدھر تمہیں۔
کیا مطلب ہے؟ صرف ہجوم کی خاطر وہ خود کو داؤ پر لگا کر شراب پہ شراب پیتا اور گاتا جاۓ۔
میری بات نہیں سمجھی تم۔ وہ ایک بڑا گلوکار ہے تو اس کی اپنی کوئی زندگی نہیں۔
کیا بہت بڑے سٹیج پر درمیان میں گول دائرہ نما چھوٹے سٹیج پر بیٹھا مائیک میں گاۓ جارہا ہوتا ہے۔
نہ پوچھ اس کی عنائتیں
نہ پوچھ اس کی محبتیں
تھوڑے فاصلے پر دونوں طرف میوزیشنوں کی قطاریں لگی ہوتیں ہیں ۔کالے رنگ کی شلوار قمیض سائیڈ پر اجرا رکھے کندھوں تک بال دونوں ہاتھوں میں گولڈن رنگ کی گھڑیاں، پورے انگلیاں قیمتی نگینوں والی انگوٹھیوں سے بھری ہوتی ہیں ۔
یہ 35 سالہ گلوکار ہوتا ہے چھوٹی چھوٹی مونچھیں، چپٹی ناک ،سفید رنگت، دیکھنے میں کافی صحت مند نظر آ تا ہے۔
میں کئی بار اٹھا چکا ہوں پر وہ ایسے مگن ہے کہ ہر تیسرے بندے کی فرمائش پوری کر رہا ہے۔
اب یہ آخری غزل ہونی چائیے۔ ورنہ میں خود اسٹیج پر آ جاؤں گی اور میرے ایسا کرنے سے تمھارا دوست پر میڈیا والوں کو سُرخی چھاپنے کا اچھا موقع مل جاۓ گا۔
اوکے اوکے تم گاڑی میں چلو میں ابھی لے کر آ تا ہوں۔
علیزہ ٹوٹے ہوۓ دل سے آ نکھوں سے ٹپکتے ہوۓ آ نسو روکتے ہوۓ گاڑی کی طرف چلی جاتی ہے۔
اتنی میں ہر طرف تالیوں ،سیٹیوں کی آ وازیں اور واہ واہ کمال کر دیا کی صدا بلند ہو جاتی ہے۔
ساحر بھاگ کر پلیز شامی اُٹھو نکلیں۔
شامی نیم بےہوشی، آ نکھیں بند ہونے والی حالت میں مُسکراتے ہوۓ،خود غرض انسان ہو تم ہجوم کی طرف دائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوۓ یہ لوگ دیکھ رہے ہو میری خاطر بیٹھے ہیں اور میں فرد ارے کر جاؤں مجھے نفرت ہے دھوکے سے۔
اتنے میں کچھ حسینائیں اسٹیج پر بڑی مشکل سے پہنچتی ہیں آ ٹو گراف اور سیلفی کے لیے۔
ساحر اندازہ لگاتے ہوۓ کہ رش بڑھنے والا ہے فورً ہاتھ پکڑ کر سب کو شکریہ شکریہ کرتے ہوۓ جلدی سے باہر نکلتا ہے۔
علیزہ بے چینی میں شیشے میں دیکھے جا رہی تھی۔ جیسے ہی وہ دونوں نظر آئے۔ گاڑی پارکنگ ایریا سے نکال کر بیک کرتے ہوۓ روکتی ہے۔
شامی تم بھی اس محفل میں تھی؟
سوچا آ پ لوگوں کے ساتھ جاؤں گی۔
فرنٹ سیٹ پر علیزہ کے ساتھ بیٹھتے ہوۓ شامی بولا جھوٹ کیوں بولتی ہو؟ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوۓ بڑبڑاتے ہوۓ شامی ہر کوئی جھوٹا نہیں ہوتا ۔
میں نے تمھاری بات کی؟
ہر کوئی کون میری طرف دیکھ کر جواب دو۔
وہی جس نے تمہیں اس حال تک پہنچایا ۔گاڑی روکو اتارو ہمیں۔
علیزہ بریک لگاتے ہوۓ اگر اس نے تمہیں دھوکا دیا اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ تم سب کو یوں جھوٹا بولو ۔
سڑک بالکل سنسان۔
روڈ پر قریبی لائٹس تو آن تھیں۔ پر دور دور گھپ اندھیرا تھا۔
خبر دار اسے برا کہنے کا حق صرف مجھے ہو سکتا ہے اور کسی کو نہیں وہ بے وفا نہیں تھی۔
ہو سکتا ہے حالات سے مجبور ہو اب شامی کی آ واز میں گرج، آ نکھیں تپتے سورج کی مانند لال اور چہرے پر بےبسی تھی۔
ہمممم اسی مجبوری میں آپ اس حال تک پہنچے؟
کیسا حال دنیا والے مجھے پیار کرتے ہیں۔
میری ہر محفل میں ہزاروں نہیں لاکھوں کا مجمہ ہوتا ہے۔
طنزیہ مسکراتے ہوۓ جی جی سچ کہہ رہے ہیں دنیا ضرور پیار کرتی ہے پر وہ نہیں۔
لوگ آ پ کی محفل موسیقی میں آتے ہیں وہ نہیں۔
پچھلی سیٹ سے ساحر بولا کیا بچوں والی حرکت ہے علیزہ گھر چلو یہ وقت اور جگہ لڑائی کی نہیں ہے۔
شامی کا غصہ بھی تھم سا گیا ۔کھانا کھایا تم لوگوں نے علیزہ نے شیشے میں دیکھتے ہوۓ ساحر سے پوچھا۔
مصنوعی مسکراہٹ سے ان صاحب کو شراب مل جاتی ہے اور ہم ۔
ہم کیا علیزہ بولی۔
ہم بس پھر بھوک سے ہی مرتے ہیں۔
اب سب قہقہ لگاتے ہیں۔ ساحر کے ان الفاظ پر ۔چلو پھر اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔
میرا بھی بھوک سے برا حال ہے۔
ساحر نہیں ریسٹورنٹ پر لوگ شام کو پہچان لیں گے۔
آخر شہرت و رُتبے والا جو بندہ ہے اور ہم پھر بھوک پیاس سے مر جائیں گے۔
تھوڑا آگے سڑک کنارے جو ڈھابہ ہے اُدھر چلتے ہیں۔
ہاں بس پانچ منٹ تک وہاں پہنچتے ہیں۔
ڈھابے پر رک کر علیزہ تم لوگ فریش ہو جاؤ تب تک میں کھانا آ رڈر کر لوں۔
فریش ہونے کے بعد چھوٹی سیڑھیاں بنی ہوتیں تھیں وہاں بیٹھ جاتے ہیں۔
یار تمہیں نہیں لگتا کہ تم علیزہ کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو۔
اتنے میں دس سالہ بچہ شامی کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ نکل جاتا ہے۔
ساحر لگتا ہے یہ بھی کوئی تیرا فین تھا۔
چھوڑو بھی ان باتوں کو، تھک گیا ہوں بناوٹی خوشیوں سے۔
تو علیزہ سے شادی کر لو۔
سوری وہ مجھے صائمہ کے طعنے دیتی ہے۔ میں اس کے بارے میں کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا۔
کیوں اب کیا فائدہ؟
یار وہ میری زندگی میرا سب کچھ ہے۔
یار تمہیں حقیقت پسند ہونا چاہئیے۔ وہ تمھاری زندگی اور خوشی تھی۔ اب ہے نہیں وہ تمہارا کل تھی۔
علیزہ آ ج ہے مت بھولو تمھاری اس شان و شوکت ،دولت و رتبہ۔ اس مقام تک پہنچانے کے پیچھے علیزہ کا ہاتھ ہے۔
تم جانتے ہو میں صائمہ کے لیے گلوکار بنا تھا اسے بہت پسند تھے گانا گانے والے۔
میری جیب میں دو کوڑی نہیں تھی۔ مجھے اُسی نے پیسے دے کر بھیجا تھا لاہور کہ میں گانا سیکھ آؤں ۔
ہاں جب کوئی تم سے اچھا ملا تو اس نے شادی کر لی ہیں نا ۔
میری بھی غلطی ہے میں نے چار،پانچ سال لگا دئیے اتنے عرصے واپس گاؤں نہیں گیا۔ نہ خیر خبر بھیجی تو وہ کب تک انتظار کرتی۔
ہمم پر میں بے وفا اس لیے کبھی کبھی کہتا ہوں وہ چاہتی تو میرا انتظار تو کر سکتی تھی پر نہیں کیا۔میرے واپس جانے پر پتہ چلا وہ بھی شادی کروا کر لاہور چلی گئی تھی۔ اس نے سوچا ہوگا بے وفا تھا پیسے کھا کر بھاگ گیا پر میں اس کی خاطر گانا سیکھ رہا تھا۔
پہلے شادی اس نے کی۔ معافی کا اسے سوچنا چائیے نہ کہ تمہیں۔
اتنے میں بچے کے شور کرنے کی آ واز آ تی ہے شامی ساحر چونک کر پیچھے دیکھتے ہیں تو آ نسوؤں
کی برسات لیے ایک عورت کھڑی ہوتی ہے۔
شامی حیرت سے کھڑا ہوتا ہے علی جو کہ دس سالہ ہوتا ہے شامی انکل میری مما آ پ کی بہت بڑی فین ہیں۔ہمارے گھر میں آ پ کی تصویریں لگائیں ہیں۔تقریباً آ پ کے ہر شو میں ہم لوگ آتے ہیں ۔پر مما سے جب بھی کہو کہ آ پ سے آٹو گراف لیں تو نہیں لیتیں۔ ابھی آپ کو دیکھا تو مما کو بلا لایا ہوں۔
یہ صائمہ ہوتی ہے شامی کی سب باتیں سن لیتی ہے۔
اتنے میں ایک خوبصورت شخص آ جاتا ہے کہ آؤ صائمہ بچے فریش ہوگئے ہیں تو ملتان کے لیے روانہ ہوں۔ یہ صائمہ کے شوہر ہوتے ہیں جو بات کرتے چلے جاتے ہیں۔
کھانا ٹھنڈا ہوگیا ہے آ جاؤ علیزہ کی طرف دیکھتے ہوۓ صائمہ بولتے ہوۓ اچھی لڑکی لگ رہی ہے شادی کر لو اس سے کہہ کر چلی جاتی ہے۔شامی صائمہ کے تاثرات دیکھتے ہوۓ ساحر ،علیزہ سمجھ جاتے ہیں کہ وہی لڑکی ہے۔جس کے لیے سنگر تو بنا پر اُسے پا نہ سکا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...