آ گئی تم ودیا " بہت دیر کر دی ؟
دیر کہاں " پونے سے بنارس تک کا سفر تم تو جانتی ہی ہو ۔۔۔
بیٹھ جاؤ " پانی دوں ؟ ۔۔
نہیں " یہ بتاؤ کہ آخری دنوں میں ویر کیا کہا کرتا تھا (ودیا نے درد بھرے لہجے میں آنکھوں سے آنسو پونجھتے ہوئے کہا) ۔۔۔
وہ کہتا تھا ۔۔
اسے دیکھے ہوئے پچیس سال گزر گئے " اب نہ تو میرے سر پہ بال ہیں اور نہ ہی میرے ذہن پہ کچھ سوار ہے ۔۔ بھلے وقتوں میں جب میری زولفیں میرا کندھا چوما کرتی تو یوں لگتا مجھ سا کہاں کوئی دوسرا اس جہان میں ۔۔ میں ہی سرسوتی کا راگ تھا اور میں ہی اندر کا جمال تھا جو بارش برساتا اور بارش کے بعد آسمان پہ دھنک کے رنگ بکھیر دیتا ۔۔ رات کو میرے آنگن میں چاند اترتا تو گویا میری آنکھوں کی چمک سے چاند کی چاندنی مدہم پڑ جاتی ۔۔ میں ہی آسمان تھا اور میں ہی دھرتی کا دان ویر تھا ۔۔ ذرہ ذرہ میری نفاست میری کاریگری کا شاہد تھا ۔۔ ایک میں تھا جو بے جان پتھروں میں جان ڈالے جاتا اور لوگ ان پتھروں کو بھگوان سمجھ کر پوجے جاتے ۔۔ میں کہاں تھا کسی اور دھن میں ۔۔۔
سفید داڑھی آنکھوں پہ موٹے شیشوں والا سیاہ چشمہ لگائے " اس دن بھی ویر کٹے ہاتھوں اور چھلنی روح سے مورتیاں تراشتا رہا تھا ۔۔
تم تو جانتی ہو ودیا" اس نے ہمیشہ اپنا خون سینچ کر مورتیوں کو ایسا رنگ دیا کہ دیکھنے والا بھی دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے ۔۔۔
ہاں سچ کہتی ہو " میرے رنگ بھی اسی کے ہیں ۔۔
ہاں " یہ تو ہے ۔۔ خیر آگے سنو ۔۔
وہ ساری زندگی بھگوان بناتا رہا۔۔۔ ہر وقت اسکے چاروں طرف بھگوان ہوتا ۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بھگوان نے اسے بنایا ہی اسلیے تھا کہ وہ بھگوان کو صورت دے سکے۔۔
سب کچھ جاننے اور سننے کے باوجود وہ ہر بات سے بے نیاز تھا۔۔ مگر ایک سوال تھا جو اسے کھائے جاتا ۔۔۔ سوال کی اذیت سے دن بہ دن اسکے درد کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔۔ جیسے جیسے درد بڑھتا چلا گیا ویسے ویسے اسکی گاریگری نکھرتی گئی ۔۔
اس دن ویر اپنی زندگی کی آخری بچی چند سانسیں لے رہا تھا۔۔ ڈاکٹروں نے کینسر کا مرض بتایا اور کہا کہ مورتیاں تراشتے تراشتے اسکے اندر پتھروں کی دھول جمع ہوتی رہی اور وہی دھول چھاتی میں کینسر کا باعث بنی۔۔۔
جس دن وہ مر رہا تھا کہتے ہیں کہ اسکے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔۔۔
اب وہ مسکرا کیوں رہا تھا میں نہیں جانتی " ۔ شاید تمہیں علم ہو ۔۔۔
ہاں جانتی ہوں ۔۔۔
تو بتاؤ ۔۔۔
کیا فائدہ کہ جیتے جی میری بات سمجھ نہ سکا اور مرتے سمے سمجھ گیا ۔۔
اسے اکثر میں کہا کرتی تھی ۔۔۔
جی لو ویر۔۔۔۔
مگر یاد رکھنا یہ جو بنا رہے ہو آدھے خدا نہ یہاں پا سکو گے نہ وہاں پا سکو گے ۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...