لبرل ازم کی طرح سیکولرازم بھی وہ بدقسمت لفظ ہے جسے عفریت بنا دیا گیا ہے۔ جس شخص نے بھی یہ اصطلاح سب سے پہلے استعمال کی، اب بہرطور یہ اُن معنوں میں نہیں لی جاتی۔ اس کا مطلب لادینیت، الحاد یا دہریہ ہونا ہرگز نہیں! اس سے مراد پوری دنیا میں اب یہ لیا جاتا ہے کہ تمام مذاہب کو برداشت کیا جائے اور مذہبی معاملات میں جبر، تشدد، امتیاز اور نفرت سے بچا جائے۔ اگر سیکولرازم کا مطلب دہریت اور الحاد ہوتا تو بھارتی مسلمان اسے اپنی ضرورت نہ سمجھتے۔ اسدالدین اویسی آل انڈیا مجلسِ اتحادالمسلمین کے صدر ہیں۔ تین بار لوک سبھا کے رکن رہے۔ 21 اکتوبر 2015ء کو انہوں نے دہائی دی کہ ’’سیکولرازم کے بغیر بھارت بے کس ہو جائے گا۔ اس ملک کی اقدار میں سیکولرازم اور تنوع بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور انہیں ہر حال میں مضبوط کرنا ہو گا‘‘۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں آئے دن اُن کے دانشور، پروفیسر اور اہلِ علم وضاحتیں کر رہے ہیں کہ سیکولرازم سے مراد نازی ازم ہے، نہ سٹالن ازم، نہ سوشلزم اور نہ ہی الحاد و دہریت! امریکی اہلِ علم دائیں بازو کے انتہا پسند مذہبی گروہوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ سیکولرازم کو یہ لوگ اپنے مقاصد کی خاطر غلط ملبوس پہنا رہے ہیں۔
اس وقت تقریباً اجماع ہے کہ سیکولرازم سے مراد ہے تمام مذاہب کو برداشت کرنا‘ معاشرے میں تنوع کی موجودگی میں مسائل کو عقل اور منطق کے ذریعے حل کرنا، ہر شہری کو اپنے جائز منصوبوں کی تکمیل میں مدد دینا، مساوات کو اہمیت دینا، ذات پات، طبقات، نسل، مذہب اور عقیدے کے تعصب کے بغیر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ریاست کی طرف سے اقدامات کرنا۔
اگر تعصب کو ایک لمحے کے لئے ایک طرف رکھ دیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ سلطنتِ عثمانیہ نے یورپ اور امریکہ سے بہت پہلے اپنے معاشرے کو سیکولر کیا تھا۔ بے شک یہ اصطلاح اُس وقت استعمال نہیں ہو رہی تھی مگر آج متوازن اور غیر متعصب دانشور سیکولرازم سے جو کچھ مُراد لیتے ہیں سلطنتِ عثمانیہ نے اس کا عملی مظاہرہ کرکے پوری
دنیا کو دکھا دیا تھا کہ سیکولر معاشرہ کیا ہوتا ہے۔ یہودی اور نصرانی بلند مناصب پر فائز تھے۔ حکیم یعقوب پاشا (یہودی) وزیر خزانہ رہا۔ پرتگالی یہودی موسیٰ ہامون خلیفہ کا طبیب تھا۔ ابراہیم کاسترو ٹکسال کا حاکمِ اعلیٰ تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے عروج کے زمانے میں (1300ء سے 1600ء تک) غیر مسلموں نے ازحد ترقی کی۔ تجارت، مالیات، سفارت، وزارت، انتظامیہ ہر جگہ موجود تھے۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تو حکم دیا کہ ’’مسلمان، عیسائی اور یہودی‘‘ سلطنت کے اطراف و اکناف سے آئیں اور قسطنطنیہ میں آباد ہوں! نئے دارالخلافہ کی آبادی میں یہودی دس فیصد ہو گئے۔ دوسرے غیر مسلم اس کے علاوہ تھے۔ 1481ء سے 1512ء تک کا زمانہ ہسپانیہ میں مذہبی عدالتوں کے ظلم و ستم کا تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ نے اپنے دروازے کھول دیے۔ ایک لاکھ پچاس ہزار یہودی ہسپانیہ سے بھاگے۔ اکثریت کو پناہ ترکوں کے ہاں ملی۔ عثمانی خلیفہ کا ہسپانوی بادشاہ پر یہ طنز اُس زمانے میں بہت مشہور ہوا… ’’تم فرڈی ننڈ کو عقل مند سمجھتے ہو! وہ اپنے ملک کو غریب اور ہمارے ملک کو امیر کر رہا ہے!‘‘ یہ یہودی، عثمانی سلطنت کے امیر تر شہروں میں آباد ہوئے۔ قسطنطنیہ میں اُس وقت 44 یہودی عبادت خانے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ، جو مشرقی علوم کے بہت بڑے عالم تھے، سر سید احمد خان اور شبلی نعمانی کے دوست تھے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھاتے رہے اور علامہ اقبال کے استاد رہے، لکھتے ہیں کہ عثمانی حکومت کے مفتوح علاقوں میں اسلام زور اور طاقت سے نہیں پھیلا۔ آرنلڈ اس کا سبب اخلاقی برتری کو قرار دیتے ہیں۔ اخلاقی برتری کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ غیر مسلموں کو بلند مناصب پر فائز کیا جاتا تھا!
اِس وقت بھارت میں جو سلوک مسلمانوں اور نچلی ذاتوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اُسے سیکولرازم کے کھاتے میں ڈالنا مُودی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے! روایت ہے کہ مُلا نصرالدین آدھا سیر گوشت خرید کر لائے اور بیوی سے کہا کہ پکا دینا۔ خود کسی کام سے باہر چلے گئے۔ بیوی کو ایک مدت بعد گوشت ملا ہو گا۔ اس نے بُھونا اور سارا خود ہی چٹ کر گئی۔ مُلّا آئے تو بیوی نے شکایت کی کہ بلّی کھا گئی۔ مُلاّ نے بلّی کو ترازو میں تولا۔ بلّی کا وزن آدھا سیر نکلا۔ مُلاّ نے پوچھا: اگر یہ گوشت کا وزن ہے‘ تو بلّی کہاں ہے؟ اور اگر بلّی خود ہی آدھا سیر ہے تو گوشت کہاں گیا؟
اگر مودی اور آر ایس ایس کے سیاہ کارنامے سیکولرازم کے کھاتے میں ڈالیں گے تو پھر نتیش کمار اور اُس کا ساتھ دینے والی پارٹیوں کو کہاں رکھیں گے؟ اور اگر بہار میں جیتنے والے سیکولرازم کے نام پر جیتے ہیں تو مُودی اور بی جے پی سیکولر کس طرح ہو گئے؟ ہر شخص کو معلوم ہے کہ مودی ہندوتوا کا نقیب ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کا ذمہ دار وہی تھا۔ بھارتی ادیب جوق در جوق اعزازات واپس کر رہے ہیں۔ بھارتی نیوی کے سابق سربراہ نے احتجاج کیا ہے! یہ لوگ یہی تو رونا رو رہے ہیں کہ مُودی اور اُس کے ہم رکاب بنیاد پرست متعصب ہندو بھارت کا مُنہ کالا کر رہے ہیں!
یہ سیکولرازم ہی ہے جس کے طفیل کروڑوں مسلمان، اپنے آبائی ممالک سے ہجرت کر کے، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی،
ہسپانیہ، جاپان، آسٹریلیا، سنگاپور، نیوزی لینڈ، آسٹریا، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن حتیٰ کہ فن لینڈ جیسے دور افتادہ ممالک میں آباد ہو گئے ہیں۔ ان ملکوں میں انہیں مذہبی آزادیاں حاصل ہیں، مساجد آباد ہیں، جائیدادیں، مکان، دکانیں اُن کے نام پر ہیں، پارلیمنٹ کے وہ ممبر بن رہے ہیں، وزارتیں اور سفارتیں انہیں دی جا رہی ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں سے وہ اپنے رشتہ داروں کو بھی بلا کر آباد کر رہے ہیں۔ زرِمبادلہ بھیج رہے ہیں۔ اس کالم نگار نے اپنے ایک عزیز کی وساطت سے مساجد اور مدارس کے اعداد و شمار حاصل کیے ہیں۔ صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تین ہزار سے زیادہ مسجدیں ہیں۔ کیلی فورنیا میں 525، نیویارک میں 507، ٹیکساس میں 302، فلوریڈا میں 186، اسی طرح ہر ریاست میں مسجدوں کی تعداد معلوم کی گئی ہے۔ ایک نجی ذریعے کے مطابق نیویارک، شکاگو، کیلی فورنیا، فلوریڈا اور اٹلانٹا میں درس نظامی کے کم از کم پندرہ مدارس کام کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اصل تعداد اس سے زیادہ ہو۔ حفظِ قرآن پاک کے امریکہ میں دو سو مدارس ہیں! برطانیہ کے اُن شہروں میں جہاں پاکستانی زیادہ تعداد میں ہیں جیسے مانچسٹر، گلاسگو، بریڈفورڈ وغیرہ، پاکستان سے فرقہ واریت تک درآمد کی جا رہی ہے۔ پیری فقیری، استخارہ، جادو ٹونہ کا علاج۔ سب کچھ پوری حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ خصوصی ٹیلی ویژن چینل رات دن چل رہے ہیں، آسٹریلیا میں مصریوں کی اپنی مساجد ہیں، ترکوں کی اپنی، بنگالیوں کی اپنی اور پاکستانیوں کی اپنی۔ لاکھوں صومالوی مہاجر آباد ہوئے ہیں۔ بہت سے خوشحالی اور امارت سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔ سڈنی کے اُس حصے میں‘ جسے لکمبا
(LAKEMBA)
کہا جاتا ہے، جائیں تو یوں لگتا ہے قاہرہ یا لاہور میں آ گئے ہیں۔ میلبورن میں فاکنر کے علاقے میں پاکستانیوں کی بہت بڑی مسجد ہے جو تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے۔ اس کے ساتھ ملحق مسلمانوں کا اپنا تعلیمی ادارہ ہے۔ عربوں اور ترکوں کے اپنے تعلیمی ادارے ہیں جو حکومت سے منظور شدہ ہیں۔ ان تمام ملکوں میں اسلام مخالف عناصر آئے دن مطالبے کرتے پھرتے ہیں کہ مسجدوں پر پابندی لگائی جائے اور مسلمانوں کو نکال باہر کیا جائے مگر کسی حکومت نے اس قسم کے انتہا پسندانہ مطالبات کو کبھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا! آئے دن ہمارے ہاں سے اور دوسرے مسلمان ملکوں سے علماء کرام، پیرانِ عظام، مشائخ کرام اور روحانی شخصیات ان ملکوں کے دورے کرتی ہیں، چندے اکٹھا کرتی ہیں، عقیدت مندوں سے خدمت کراتی ہیں، تبلیغی جماعت کے وفود ان ملکوں میں شہر شہر قریہ قریہ گھومتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ملکوں میں یہ سب کچھ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا! امام خمینی سے لے کر علامہ طاہرالقادری تک سب کی سرگرمیوں کے مراکز مغربی ممالک ہی رہے ہیں۔ یہ سب کچھ جمہوریت اور سیکولرازم کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ ریاستیں سیکولر نہ ہوتیں اور مسیحی ہوتیں تو پادری اور دوسرے متعصب لوگ کسی ایک مسلمان اور ایک مسجد تک کو برداشت نہ کرتے!
اس کے مقابلے میں ہمارا اپنا طرزِ عمل کیا ہے؟ مسلم لیگ نون کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ہر سال پانچ ہزار ہندو گھر بار چھوڑ کر بھارت جا رہے ہیں۔ رمیش کمار نے کہا کہ صرف دو ماہ میں مذہبی تشدد کے چھ واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابیں جلائی گئی ہیں اور بااثر افراد اندرون سندھ میں ہندو لڑکیوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں!
اگر ذہنوں میں مخصوص ڈکشنریاں کھلی رہیں گی اور آنکھوں پر مخصوص رنگوں کی عینکیں لگی رہیں گی تو یہی ہو گا، جو اب ہو رہا ہے۔ جہاں سیکولرازم یا لبرل ازم کا نام آیا، چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں، یا گلوں کی رگیں پھول کر سرخ ہو جاتی ہیں اور سوچے سمجھے بغیر واویلا مچا دیا جاتا ہے! خدا کے فضل سے اسلام کمزور ہے نہ پاکستان کہ مذہبی رواداری سے اور دوسرے مذاہب کو برداشت کرنے سے اسے نقصان پہنچ جائے! تلفظ تک تو ہمیں آتا نہیں، معنیٰ کیا سمجھیں گے۔ اکثر حضرات کو سیکولر کے سین کے نیچے زیر لگا کر SEECuLAR
کہتے سنا ہے حالانکہ سین کے اوپر زبر ہے یعنی SECULAR!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“