ایک ایسا ملک جہاں بھانت بھانت کے لوگ رہتے ہوں اور بھانت بھانت کی زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہوں ، لیکن ان میں کچھ مشترک بھی ہو ؛ غربت ، ایک سا سماجی ڈھانچہ ، اونچ نیچ ، عدم مساوات ، غربت اور ریاست کے ایک جیسے ستون اور ان ستونوں کے ہاتھوں ان بسنے والے لوگوں کا ایک ایسا استحصال جو ان سب کو ایک ہی صف میں لا کر کھڑا کر دے ۔ ایسے میں ان زبانوں کے ادیب اور دانشور شاید سوچتے بھی ایک طرح سے ہیں اور ان کی لِکھتیں بھی بسا اوقات ایک دوسرے سے لگا کھا جاتی ہیں ۔ کچھ ایسی ہی ایک مثال میرے سامنے سعید اختر مرزا کی ہے جنہوں نے ’ موہن جوشی حاضر ہو!‘ کی کہانی لکھی اور اس میں انڈیا میں رائج عدالتی نظام کی کھِلی اڑائی تھی اور بعد ازاں اس کہانی پر یوسف مہتہ اور سُدھیر مِشرا کی مدد سے فلم بھی بنا ڈالی تھی ۔ ایسا ہی کچھ مراہٹی زبان میں ’ وجے ٹنڈلکر ‘ نے کیا تھا ؛ اس کا ڈرامہ ’ شانتاتا ! کورٹ چالو ہے ‘ ( خاموش ! عدالت جاری ہے ) بھی انڈین یا ہمارے جیسے ملکوں کے عدالتی نظام کا تَوا اپنے ہی انداز سے لگاتا ہے ۔ وجے ٹنڈلکر کے دیگر ڈرامے بھی سماج کی تلخ ، کھردری اور کرخت حقیقتوں کو اُجاگر کرتے ہیں اور ان میں موجود بحرانوں اور آتے بدلاﺅ کا پرتو دکھاتے ہیں ۔
بات آگے چلانے کے لئے مجھے یہاں ایک اور شخص کا ذکر کرنا ہو گا جس کا وجے ٹنڈلکر کے ساتھ کافی گہرا تعلق رہا ؛ یہ کراچی میں پیدا ہوا ’ گووند نہلانی‘ ہے جس کے خاندان کو مجبوراً تقسیم ہند کے وقت اپنا آبائی شہر چھوڑنا پڑا تھا ۔ اس نے بنگلور کے ’ پولی ٹیکنیک ‘ سے 1962ء میں سینماٹوگرافی کی تعلیم حاصل کی اور ’ وی کے مورتھی‘ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا ۔ وی کے مورتھی ’ گرو دت‘ کا سینماٹوگرافر تھا اور جرمنی سے فلم بندی کا آرٹ سیکھ کر آیا تھا ۔ بعدازاں گووند نہلانی ہدایت کار شیام بینیگل کے ساتھ منسلک ہوا اور اس کی کئی فلموں کی عکس بندی کی ۔ 1980 ء میں اس نے فلم ’ آکروش ‘ سے ہدایت کاری کا آغاز کیا ۔ یہیں سے وجے ٹنڈلکر اور گووند نہلانی کا ساتھ شروع ہوا ۔ ’ آکروش ‘ ، ’ ارد ھ ستیا ‘ ، ’ پارٹی ‘ اور ’ آگات ‘ وہ چار فلمیں ہیں جن میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے معاشرے کے کچھ اہم کرداروں کا سماج میں کیا کرتبے ہونا چاہیے ؛ وکیل ، پولیس افسر ، شاعر اور ٹریڈیونین لیڈر کیسے معاشرے کے سدھار میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ گووندنہلانی کی ان چار فلموں میں سے ، پارٹی ، کو چھوڑ کر تین کے سکرین پلے ’ وجے ٹنڈلکر ‘ نے لکھے؛ آکروش میں اس کے ساتھ ستیادیو دُوبے اور اردھ ستیا میں وسنت دیو مکالمے وغیرہ لکھنے میں معاون تھے ، آگات البتہ ’ وجے ٹنڈلکر ‘ کی اپنی ہی لِکھت تھی ۔
مجھے یہاں آکروش، پارٹی اور آگات پر بات نہیں کرنی ، یہ پھر کبھی سہی ؛ یہاں میں صرف ’ اردھ سیتا ‘ ( آدھا سچ ) پر بات کرتے ہوئے آگے بڑھوں گا ۔ اس فلم کا سکرین پلے لکھنے کے لئے وجے ٹنڈلکر نے ’ ایس ڈی پنوالکر‘ کی کہانی ’ سوریا ‘ کو چُنا اور فلم کے نام کے لئے دلیپ چِترا کی ایک نظم سے استفادہ حاصل کیا ۔ یہ فلم 1983 ء میں سامنے آئی تھی ۔
اِس فلم کا مرکزی کردار ( protagonist ) اننت ویلنکر ( اوم پوری) ہے جو ممبئی پولیس میں ایک سب انسپکٹر ہے۔ ایک مقامی کالج کی استاد ’ جیوتسنا گوکھلے(سمیتا پاٹل) سے اس کا محبت کا سمبندھ ہے اور ان دونوں کے درمیان نظریات کے حوالے سے بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے ۔ جیوتسنا حقیقت پسند ہے جبکہ اننت اپنی نوکری کو ایک آدرش کے طور پر دیکھتے ہوئے تن دہی اور جذبے کے ساتھ سرانجام دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کی نوکری البتہ مشکل اور اس تلخ حقیقت سے بھری ہے جس میں مقامی مافیا ، پولیس اور بدعنوان سیاستدان ایک ایسی تکون بنائے ہوئے ہیں کہ اننت کے لئے اس علاقے میں کام کرنا دشوار ہے جو اسے سپرد کیا گیا ہے ۔ جب وہ تین بدمعاشوں کو گرفتار کرتا ہے تو اس کے اپنے ہی محکمے کے اعلیٰ افسراور ساتھی اسے مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان کے ڈان ’ راما سیٹھی‘ ( سداشیو امراپرکار) سے ملے ۔ اننت ایسا نہیں کرتا جس پر اس کی اور راما سیٹھی کی آپس میں ٹھن جاتی ہے ۔ اس واقع کے بعد ایک اور شکایت پر وہ کچھ لوگوں کو حراست میں لیتا ہے اور ان کی خوب پٹائی کرتا ہے ؛ یہ بندے ایک مقامی ممبر آف پارلیمنٹ کے آدمی ہیں ؛ اس کے کہنے پر اننت کو معطلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اننت کا اافسر حیدر علی ( شفیع انعامدار) اسے سمجھاتا ہے کہ جن بندوں کو اس نے حوالات میں مارا پیٹا تھا وہ ایم ایل اے کے وہ ساتھی ہیں جو انتخابات میں اسے ووٹ دلانے میں مددگار ہوتے ہیں لیکن اننت اپنے کیے پر شرمندہ نہیں اور ایم ایل اے سے سمجھوتے پر تیار نہیں ۔ اسے یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ معطلی اس کے سروس ریکارڈ پر ایک دھبہ بنی رہے گی اور تفتیشی ٹربیونل معاملے کو لٹکاتے رہیں گے ۔
اننت خود کو ویسے ہی بے بس سمجھتا ہے جیسے وہ بچپن میں اس وقت خود کو بے بس سمجھتا تھا جب اس کا ریٹائرڈ ’ فوجدار‘ باپ اس کی ماں کو مارا پیٹا کرتا تھا ۔ وہ اپنے افسر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی معطلی سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے لیکن حالات اسے ایک نئے موڑ پر ، اس وقت لا کھڑا کرتے ہیں جب وہ راما سیٹھی کے ایک آدمی ، جسے جلا کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہوتا ہے، کی مدد کرتے ہوئے اسے ہسپتال لے کر جاتا ہے اور اس کا بیان ریکارڈ کرتا ہے ؛ اسے راما سیٹھی نے خود جلوایا ہوتا ہے ۔ اننت راما سیٹھی کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کا کیا ، حکام بالا کوایک فون ہی اننت کو راما سیٹھی کی گرفتاری سے باز رکھتا ہے ۔ اننت کو وہاں ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے ۔ اسے ایک اور ہزیمت تب بھی اٹھانا پڑتی ہے جب اس کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ایک ڈاکو کے حوالے سے اسے میڈل نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے ایک ساتھی کو دے دیا جاتا ہے ۔ اننت شراب نوشی شروع کر دیتا ہے اور نشے کے عالم میں ہی اس کے ہاتھوں ایک ریڈیو چرانے والا معمولی چور بھی حوالات میں مارپیٹ کے نتیجے میں مر جاتا ہے ۔ اننت ایک بار پھر معطل ہو جاتا ہے ۔ حیدر علی اسے راما سیٹھی ، جو اب تک میونسپیلٹی کا انتخاب جیت چکا ہے ، سے ملنے کا مشورہ دیتا ہے کہ وہ اس کی معطلی ختم کرا سکتا ہے ۔ کافی دن غور کرنے کے بعد اننت راما سیٹھی کے پاس جاتا ہے جو اس کی آﺅ بھگت تو کرتا ہے لیکن اس کی مدد کرنے کے لئے یہ شرط رکھتا ہے کہ اننت اس سے مل جائے ، اس کا بھڑوہ بن جائے ؛ یہ وہ لمحہ ہے جب اننت کی وہ بزدلی جو بچپن سے اس کے لاشعور میں کنڈلی مارے بیٹھی ہے ، الٹ رُخ اختیار کرتی ہے اور وہ راما سیٹھی کا خون کر دیتا ہے اور خود کو قانون کے حوالے کر دیتا ہے ۔
’ آدھے سچ ‘ کی کہانی بس اتنی ہی ہے جس کا سب انسپکٹر اننت ویلنکر اپنے وجود کے اس بحران کو ، جسے وہ بچپن سے کندھوں پر لادے ایک ایسی نوکری کے شکنجے میں آ پھنستا ہے، جس میں کوئی بھی سچ کامل نہیں ؛ اسے راما سیٹھی کو مار کر ختم کرنا پڑتا ہے تاکہ خود کو آزاد کرا سکے ۔
یہ فلم پچھلی صدی کی 8 ویں دہائی میں ایک لینڈ مارک فلم تھی اور اس سے متاثر ہو کر بعد میں کئی فلمیں بنیں ؛ خود گووند نے ’دیو‘ جیسی فلموں میں پولیس کو موضوع بنایا ۔
وقت آگے بڑھا اور گووند نہلانی بھی دیگر کئی سینما آف کنوِکشن ( Cinema of conviction ) بنانے والوں کے ساتھ رفتہ رفتہ کمرشل سینما میں گم ہو گیا ۔
اس سے پہلے کہ میں’ آدھی گواہی ‘ کی طرف بڑھوں اور آپ کو سب انسپکٹر ’ سونی ‘ کی کہانی سناﺅں ، مجھے ایک ایرانی فلم یاد آ گئی ہے ۔ یہ ایرانی فلم ’ Offside ‘ ہے ۔ اسے ایرانی نیو ویو ( Iranian New Wave) تحریک سے جڑے ہدایت کار ’ جعفر پناہی ‘ نے 2006 ء میں بنایا تھا ۔ ایرانی سرکار نے جعفر پناہی کو یہ فلم ایران میں بنانے کی اجازت تو دی لیکن اسے یہ فلم ایران میں دکھانے کی اجازت نہ دی ۔ اس فلم کا مرکزی خیال اس بات سے جڑا ہے کہ ایران میں عورتوں پر کئی طرح کی پابندیاں ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ سٹیڈیم یا کسی بھی کھیل کے میدان میں مردوں کے ہمراہ بیٹھ کرکھیل نہیں دیکھ سکتیں ( کچھ اسی طرح کی پابندی مردوں پر بھی ہے کہ وہ بھی عورتوں کے کھیل نہیں دیکھ سکتے ) ۔ یہ فلم 2006 ء کے ’ فیفا ورلڈ کپ ‘ کے گرد گھومتی ہے جس میں ایران اور بحرین کے درمیان ہونے والے ’ کوالیفائنگ میچ ‘ کو فٹ بال کی شیدائی خواتین سٹیڈیم میں جا کر دیکھنا چاہتی ہیں لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں ہے ۔ کچھ جو سٹیڈیم میں یہ میچ دیکھنے کے لئے پہنچتی ہیں ، انہیں سٹیڈیم میں ہی ایک ایسی جگہ نظر بند کر دیاجاتا ہے جہاں سے انہیں میچ نظر نہیں آتا اور ان پر خاصی تعداد میں گارڈ متعین کر دئیے جاتے ہیں ۔ اس فلم میں آگے کیا ہوتا ہے ، میں یہاں نہیں بتاﺅں گا ، کبھی الگ سے اس پر بات کروں گا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ خالص مذہبی انتہا پسند ریاست میں عورتوں کے ساتھ اس طرح کا ناروا اور دوسرے درجے کا سلوک تو کچھ سمجھ میں آتا ہے لیکن دنیا کے سب سے بڑے سیکولر اورجمہوری ملک میں دہلی پولیس کی سب انسپکٹر ’ سونی‘ اور اس کی افسر ’ کلپنا ‘ پولیس کے اختیارات رکھنے کے باوجود ، خود بھی روز ہونے والی جرائم کی وارداتوں سے متاثر ہوتیں ہیں ، یہ قدرے ناقابل فہم ہے لیکن حقیقت اس سے کچھ الگ نہیں ہے ۔
فلم ’ سونی‘ کا ہدایت کار ’ آئیون آئر ‘ ہے ۔ میں اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا ، سوائے اس کے کہ وہ دہلی میں پلا بڑھا اور اس فلم کے بنانے سے بارہ سال پہلے وہ سان فرانسسکو گیا تھا اور وہاں کی فلم سوسائٹی سے سکرپٹ لکھنے اور ہدایت کاری کے کورس کرنے کے بعد مختصر فلمیں بنانے لگا تھا ۔ اس نے ’ سونی‘ کیوں بنائی تو اس کا جواب گھوم پھر کر 2012 ء کے دہلی گینگ ریپ سے جا ملتا ہے جس کی بازگشت اب تک سننے کو ملتی ہے ، گو فلم میں ’ گینگ ریپ ‘ جیسا کچھ نہیں ہے ۔
’سونی ‘ زنانہ پولیس کی دو عورتوں کی وہ کہانی ہے جس میں عصری زمانے کے انڈین معاشرے میں ’ صنفی محاذآرائی ‘ کی کئی پرتیں کھلتی ہیں ۔ اس فلم کی خوبی ، اس میں کام کرنے والی دو اداکارﺅں کی عمدہ اداکاری ہے ۔ سب انسپکٹر سونی ( گیتیکا وِدیااہلائن ) کا اپنی کمانڈنگ آفیسر کلپنا ( سلونی بترا ) کے ساتھ ایک پیچیدہ تعلق ہے ۔ یہ دونوں اپنی ذاتی زندگی میں بھی مردوں کے ساتھ کچھ زیادہ سلیقے سے نہیں رہ پا رہیں ۔ وہ دونوں ، ڈیوٹی پر تن دہی سے ان مردوں اور لڑکوں کو قابو کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو دہلی کی گلیوں ، سڑکوں اور پارکوں میں عورتوں کو ہراساں کرنے اور انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی تاک میں رہتے ہیں ۔ سادہ کپڑوں میں کبھی وہ خود ’ شکار ‘ کے لئے ’چارہ ‘ بنتی ہیں اور کبھی ناکوں پر وردی میں نشے میں دھت امراء یا عسکری افسران کے ہاتھوں بےعزتی کرواتی ہیں ۔ ایسا کرنے میں سونی کو اپنی جگہ تبادلے اور تنزلی کا سامنا رہتا ہے جبکہ اس کی افسر کلپنا کو اپنے خاوند سندیپ (موہت چوہان) ، جو پولیس چیف ہے کہ طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں کہ وہ ’ آئی پی ایس‘ افسر کے طور پر اپنے فرائض انجام نہیں دیتی اور اپنے ماتحت اہل کاروں کے ساتھ نجی سطح پر ان کی ذاتی زندگیوں میں شامل ہو جاتی ہے ۔ فلم کا سارا فوکس جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور پولیس کے محکمے میں ’ صنفی نابرابری ‘ پر ہے اور اگر اسے وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے جیسے معاشروں میں ایسا ہر اس عورت کے ساتھ ہوتا ہے جو بیوروکریسی کے کسی بھی میدان میں مردوں کی بھیڑ کا حصہ بنتی ہے یا نچلی سطح پر کام کرنے گھر سے باہر نکلتی ہے ۔ فلم میں نہ تو آگ اگلتی گولیاں ہیں اور نہ ہی ایسا جان لیوا خطرہ جو عام طور پر ’ پولیس ڈراموں‘ میں نظر آتا ہے ؛ ہدایتکار’ آئیون آئر ‘ نے اپنی فلم کو دھیمی آنچ پر پکایا ہے اور ورکنگ وومن ،خاص طور پر لیڈی پولیس کی ذاتی زندگی کی پیچیدگیوں اور ادھورے پن کے ساتھ ساتھ پولیس فورس میں مردانہ برتری کا وہ پردہ چاک کیا ہے جس کی آڑ میں عام زنانہ پولیس ، جو ڈیوٹی تو اپنے مرد ساتھیوں کے برابر دیتی ہیں ، لیکن رہتی پھر بھی دوسرے درجے کی ملازم ۔ اس نے امرتا پریتم اور اس کی آپ بیتی ’ رسیدی ٹکٹ ‘ کو اس فلم میں عمدگی سے برتا ہے ، ویسے ہی جیسے گووند نہلانی نے ’ اردھ ستیا ‘ میں اوم پوری اور سمیتا پاٹل کے ایک سین میں دلیپ چِترا کی پوری نظم اوم پوری سے پڑھوا دی تھی ۔
’آئیون آئر ‘ کی اس پہلی پوری طوالت کی فیچر فلم نے 75 ویں عالمی فلمی میلے ، وینس میں نام کمایا ؛ اس نے ’بی ایف آئی‘ لندن فلمی میلے کے علاوہ اور بھی کئی میلوں میں اپنی پہچان بنائی اور چین میں منعقدہ میلے میں بہترین فلم قرار پائے جانے کے ساتھ ساتھ 20 ہزار ڈالر کا انعام بھی حاصل کیا ۔ جنوری 2019 ء میں ’ نیٹ فلکس ‘ نے اسے نیٹ پر ریلیز کیا ۔
سونی اور کلپنا جیسی مہیلائیں گو مسلمان نہیں لیکن نان مسلم ہونے کے باوجود ان کے وجود اس ’ آدھی گواہی‘ کی طرح ہی ہیں جس طرح کہ مسلمان عورتوں کا وجود گواہی کے حوالے سے آدھا مانا جاتا ہے۔
فٹ نوٹ ؛ سان فرانسسکو کا باسی’ آئیون آئر ‘ جب ’ سونی ‘ بنا رہا تھا تو ایک کنیڈین نژاد انڈین ہدایتکار ’ رِچی مہتہ ‘ بھی ایک ٹیلی فلم سیریل ’ دہلی کرائم ‘ کے نام سے بنا رہا تھا ؛ سات ایپیسوڈز پر مبنی یہ سیریل 2012 ء کے مشہور’ دہلی گینگ ریپ ‘ کے ہی سانحہ پر بنائی گئی ہے ۔ یہ دہلی پولیس ، اس کی ڈی سی پی ( DCP ) سائوتھ اور اس کی ٹیم کی کارکردگی کی کچھ ایسی تصویر پیش کرتی ہے جسے میں تو کیا ہر ناظر ’ valorisation the Delhi Police ‘ کے سوا اور کچھ نہیں کہہ سکتا ؛ یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے پاکستانی عسکری قیادت اپنی برتری و بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لئے 23 ، مارچ اور 14 ، اگست جیسے سویلین دِنوں کی کمان بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے ۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ رِچی مہتہ نے انڈیا کی پولیس سروس یا انڈین سرکار کے ایماء اور فنڈنگ سے یہ فلم بنائی لیکن مجھے شک ضرورہے کہ شاید ایسا ہی ہوا ہے ؛ اس میں دکھائی گئی کہانی سے تو لگتا ہے کہ دہلی پولیس خاص کر ڈی سی پی سائوتھ دہلی اور اس کی ٹیم نہ ہوتی تو واردات کرنے والے چھ ملزم گرفتار ہی نہ ہو پاتے وغیرہ وغیرہ ( حقائق شاید اس کے برعکس ہیں اور انکوئری کے نتیجے میں دو اسسٹنٹ کمشنر پولیس کے علاوہ پولیس کے کئی اہلکار زیر عتاب آئے تھے ۔ ایک مجرم جیل میں مر گیا تھا ، ایک کم عمر ہونے کی وجہ سے تین سال قید بھگت کر رہا ہو گیا تھا باقی چار جنہیں موت کی سزا ہوئی تھی تاحال اپنے انجام کو نہیں پہنچ پائے ) ۔ رِچی مہتہ اس کا دوسرا سیزن بھی بنانا چاہ رہا ہے جس میں وہ ڈی سی پی ’ وارتیکا ‘ اور کی ٹیم کو ہی ساتھ لے کر دہلی پولیس کی کوئی اور کارگزاری اور کامیابی سامنے لائے گا ۔ اس کے برعکس ’ آئیون آئر ‘ کی فلم مجھے ایک ’ آزاد ‘ فلم لگتی ہے جو ’ اردھ ستیا ‘ کے پائے کی ہے ۔
’ دہلی کرائم ‘ دیکھ کر مجھے 85 ۔ 1984 کا زمانہ یاد آتا ہے ؛ یہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کا زمانہ تھا اور وہ فوج و دیگر امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کی ساکھ بنانے کے چکر میں تھا ۔ تب پی ٹی وی پر اس کے ایماء پر ایک سیریل ’ اندھیرا اجالا ‘ چلائی گئی تھی ؛ یہ پولیس پر تھی اور اس میں اس ادارے میں سب اچھا ہی اچھا دکھایا گیا تھا ۔
یاد رہے کہ بی بی سی کی ہدایت کارہ لیسلی اُڈون ( Leslee Udwin ) نے ’ India's Daughter ‘ نامی ڈاکومینٹری فلم ’ دسمبر 2012 ء دہلی گینگ ریپ ‘ کے بعد دو سال کی محنت سے بنائی جو مارچ 2015 ء میں ریلیز ہونا تھی ۔ لگ بھگ ایک گھنٹے کی اس فلم انڈیا میں پابندی لگا دی گئی تھی ۔
کنیڈین نژاد انڈین ہدایت کارہ ’ دیپا مہتہ ‘ بھی 2016 ء میں اسی گینگ ریپ کے حوالے سے ایک الگ انداز سے فلم ’ Anatomy of Violence ‘ بنا چکی ہے جس میں اس نے یہ سوال اٹھایا کہ ریپ کرنے والوں نے ایسا کیوں کیا ؟ اس کی فلم میں اس کا جواب یوں موجود ہے ؛ پِدری نظام کی اخلاقیات ، سخت گیرطبقاتی نظام ، غربت اور ان سب کے اثر تلے موجود ذہنی ہیجان ہی ایسی پُر تشدد وارداتوں کو جنم دیتا ہے ۔