عربی افسانہ
آدھا دِن
نجیب محفوظ
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
میں اپنے والد کا دایاں ہاتھ تھامے ، ان کے ساتھ چل رہا تھا ۔ مجھے ان کے لمبے قدموں کا ساتھ دینے کے لئے دوڑنا پڑ رہا تھا ۔ میرا سارا لباس نیا تھا ؛ کالے جوتے ، سکول کا سبز یونیفام اور لال رنگ کا ’ تاربوش ‘ ۔ مجھے نئے کپڑوں کی کوئی خوشی نہ تھی کیونکہ یہ کوئی جشنی دن نہ تھا بلکہ یہ میرے سکول میں داخلے کا میرا پہلا دن تھا ۔
میری والدہ ،کھڑکی میں کھڑی ، ہمیں جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور میں وقتاً فوقتاً مڑکر انہیں ایسی نظروں سے دیکھتا کہ وہ میری مدد کو آئیں ۔ ہم اس سڑک پر چلتے رہے جس کے ساتھ باغات تھے ؛ دونوں اطرا ف میں بڑے بڑے کھیت تھے جن میں فصلیں اُگی تھیں ۔ حِنا اور ناشپاتیوں کے درخت تھے اور کچھ کھجور کے درخت بھی ایستادہ تھے ۔
” سکول ہی کیوں؟ “ ، میں نے اپنے والد سے کھلے الفاظ میں پوچھا ، ” میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گا جس کی وجہ سے آپ مجھ سے ناراض ہوں ۔“
” میں تمہیں سزا نہیں دے رہا “ ، وہ بولے ، ” سکول جانا کوئی سزا نہیں ۔ یہ ایک ایسا کارخانہ ہوتا ہے جس میں لڑکوں کو کارآمد مرد بنایا جاتا ہے ۔ کیا تم اپنے والد اور بھائیوں جیسا نہیں بننا چاہتے؟ “
ان کے کہے سے میری تسلی نہ ہوئی ۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ مجھے گھر کے بے تکلف ماحول سے نکال کرسڑک کے اختتام پر واقع دیو ہیکل عمارت ، جو اونچی دیواروں والا ایک ایسا کڑا اور اداسی بھرا قلعہ لگتا تھا ، میں پھینک دیا جائے ۔
جب ہم اس کے دروازے پر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ اس کا وسیع صحن لڑکوں اور لڑکیوں سے بھرا ہوا تھا ۔
” اب تم یہاں سے خود ہی اندر جاﺅ ۔“ ، میرے والد نے کہا ، ” اور ان سے جا مِلو ۔ اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاﺅ اور دوسروں کے لئے ایک اچھی مثال بنو ۔ “
میں ہچکچایا اور ان کے ہاتھ سے چمٹا رہا لیکن انہوں نے ، مجھے نرمی سے ، خود سے الگ کیا ۔ ” مرد بنو“ ، انہوں نے کہا ، ” آج سے تمہاری اصل زندگی شروع ہو رہی ہے ۔ جب چھٹی کا وقت ہو گا تو تم مجھے یہیں پاﺅ گے ۔ “
میں کچھ قدم چلا ، رکا اور دیکھا ، مجھے کچھ نظر نہ آیا ۔ پھر مجھے لڑکوں اور لڑکیوں کے چہرے نظر آنے لگے ۔ گھنٹی بجی ۔ ایک خاتون بہت سے مردوں کے ساتھ وہاں آئی اور مردوں نے ہماری درجہ بندی شروع کی ۔ انہوں نے ہمیں ایک پیچیدہ ضبط سے اس وسیع صحن میں کھڑا کیا جس کی تینوں اطراف میں لکڑی کی چھتوں سے ڈھکی لمبی راہداریوں والی کئی منزلہ ،عمارتیں تھیں ۔
” یہ تم لوگوں کا نیا گھر ہے ۔“ ، عورت بولی ، ” یہاں بھی مائیں اور والد ہیں ۔ یہاں بھی ہر وہ شے ہے جس سے تم لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہو اوروہ کچھ حاصل کر سکتے ہو جو مذہب اور علم کے حوالے سے فائدہ مند ہے ۔ اپنے آنسو پونچھو اور زندگی کو خوشی سے اور ہنستے ہوئے خوش آمدید کہو ۔ “
ہم نے حقائق کو تسلیم کر لیا اور ایسا کرنے سے ہم نے ایک طرح کی طمانیت بھی محسوس کی ۔ زندہ لوگ دوسرے زندہ لوگوں کی طرف کِھنچتے چلے گئے اور میرے دل نے پہلے ہی لمحات میں ان لڑکوں سے دوستی کر لی جو دوست بننے کے لائق تھے اور ان لڑکیوں سے محبت کی جو محبت کے قابل تھیں ، چنانچہ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ اس جگہ کے بارے میں میرے شبہات بے معنی تھے ۔ میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ سکول میں اتنا تنوع موجود ہو گا ۔ ہم نے طرح طرح کے کھیل کھیلے ؛ پینگیں ، اچھلتے کودتے گھوڑے ، گیندوں والی کھیلیں ۔ موسیقی والے کمرے میں ہم نے پہلی بار گانے گائے ۔ ہم نے اپنی زبان کے بارے میں پہلی ہدایات بھی حاصل کیں ۔ ہم نے کرہ ارض کا ’ گلوب ‘ بھی دیکھا ، جس کو گھمانے پر مختلف برِاعظم اور ملک سامنے آتے تھے ۔ ہم نے اعداد کا علم بھی سیکھنا شروع کیا ۔ ہمیں اس کائنات کے خالق کی کہانی بھی سنائی گئی ۔ ہمیں ’ اس‘ کی اِس دنیا اور ’ اس ‘ کی اِس کے بعد کی دنیا کے بارے میں بھی بتایا گیا ۔ ہم نے ’ اس ‘ کے کہے کی کچھ مثالیں بھی سنیں ۔ ہم نے لذیذ کھانا کھایا اور کچھ دیر سوئے بھی اور جاگنے پر پھر سے دوستیوں ، محبت ، کھیل اور سکھلائی کے عمل میں مشغول ہو گئے ۔
ہمارا راستہ اب ہم پر ، خود بخود وا ہوتا گیا ، لیکن یہ ویسا خوشگوار اور بِنا بادلوں کے نہ تھا جیسا ہم نے سوچا تھا ۔ گرد آلود آندھیاں ، غیر متوقع حادثات اچانک سامنے آئے چنانچہ ہمیں محتاط ہونا پڑا ، تیار رہنا پڑا اور صبر کا مظاہرہ بھی کرنا پڑا ۔ سب ایسا نہیں تھا کہ ہم صرف کھیلتے اور بلا وجہ مٹرگشت کرتے ۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے عمل نے دکھ اور نفرت کو جنم دیا جس سے لڑائیاں بھی ہوئیں ۔ اور خاتون جو کبھی کبھار مسکراتی تھی اکثر غصے میں رہتی اور سرزنش بھی کرتی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جسمانی سزاﺅں کا ہتھیار بھی برتتی ۔
اس پہ طرہ یہ تھا کہ اپنا ذہن بدلنے کا سمے گزر چکا تھا اور یہ سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا کہ بندہ گھر کی جنت میں واپس لوٹ سکے ۔ ہمارے سامنے مشقت ، جدوجہد اور ثابت قدمی سے ڈٹے رہنے کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔ وہ ، جو اس قابل تھے کہ تفکرات کے باوجود مواقع اورکامیابی حاصل کر سکیں ، انہوں نے اس کا ثمر بھی پایا ۔
گھنٹی بجی اور اس نے اعلان کیا کہ دن گزرا اور کام تمام ہوا ۔ بچوں کے ریلے دروازہ ، جو اب پھر سے کھول دیا گیا تھا ، کی طرف بھاگے ۔ میں نے اپنے دوستوں اور دلرباﺅں کو الوداع کہا اور دروازے سے باہر آ گیا ۔ میں نے چاروں طرف دیکھا لیکن اپنے والد ، جنہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وہاں موجود ہوں گے ، کا نشان تک نہ پایا ۔ میں ایک طرف ہو کر ان کا انتظار کرنے لگا ۔ جب میرا طویل انتظار بھی بے سود ثابت ہوا تو میں خود ہی گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا ۔ میں نے ابھی چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ ایک درمیانی عمر کا آدمی میرے پاس سے گزرا ۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اسے جانتا تھا ۔ وہ میری طرف مسکراتے ہوئے بڑھا اور اپنے ہاتھ سے مجھے تھپتھپاتے ہوئے بولا ، ” ہمیں ملے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ تم کیسے ہو؟ “
میں نے سر ہلا کر اس سے اتفاق کیا اور جواباً کہا ؛ ” اور آپ ۔۔۔آپ کیسے ہیں ؟ “
” جیسا کہ تم دیکھ سکتے ہو، سب ٹھیک نہیں ہے ، پھر بھی خدا کا شکر ہے ۔ “
اس نے ایک بار پھر مجھے اپنے ہاتھ سے تھپتھپایا اور چلا گیا ۔ میں چند قدم اور آگے بڑھا لیکن پھر حیران ہو کر رک گیا ۔ ” یا خدا! وہ گلی کہاں گئی جس کے ساتھ ساتھ باغات کی قطار تھی؟ یہ کہاں غائب ہوگئی؟ اس پر یہ گاڑیاں کب سے چلنا شروع ہوئیں ؟ اور اس پر انسانوں کے یہ ہجوم کب در آئے ؟ اس کی دونوں اطراف میں کچرے کی پہاڑیاں کب کھڑی ہوئیں ؟ اور وہ کھیت کدھر گئے جو اس کے دونوں طرف لہلہاتے تھے؟ بلند و بالا عمارات سڑک پر چھائی ہوئی تھیں ، سڑک بچوں سے بھری پڑی تھی اور فضا سکون برباد کرنے والے شور سے اَٹی تھی ۔ بہت سے مقامات پر مداری کھڑے تھے اور اپنے کرتب دکھا تے ہوئے سانپوں کو اپنی ٹوکریوں سے باہر نکل رہے تھے ۔ وہاں ایک ’ بینڈ ‘ بھی تھا جس کے آگے مسخرے اور ’ وزن اٹھانے والے ‘ پہلوان چل رہے تھے ۔ یہ بینڈ کسی سرکس کے بارے میں اعلان کر رہا تھا ۔ محافظ دستوں کو لئے ٹرکوں کی ایک قطار بھی شان سے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی ۔ آگ بجھانے والی ایک گاڑی کا ’ سائرن‘ بھی تیز آواز میں بج رہا تھا اور سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ اپنا راستہ بنا کر جلتی آگ تک کیسے پہنچ پائے گی ؟ ایک ٹیکسی ڈرائیور اور اس کا مسافر آپس میں لڑ رہے تھے ۔ مسافر کی بیوی مدد کے لئے پکار رہی تھی لیکن کوئی اس کی سن ہی نہیں رہا تھا ۔ ” یا خدا “ ، میں حیران تھا ، میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور میں کسی حد تک پاگل ہو رہا تھا ۔’ یہ سب آدھے دن میں کیسے ہو گیا ؟ میں گھر جا کر اپنے والد سے پوچھوں گا ۔‘ لیکن میرا گھر کہاں تھا ؟ مجھے تو صرف اونچی اونچی عمارتیں اور انسانوں کے ہجوم نظر آ رہے تھے ‘ ۔ میں تیزی سے اس جگہ پہنچا جہاں باغات اور’ ابو خودا‘ والی سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی تھیں ۔ مجھے ’ ابو خودا ‘ پار کرکے گھر پہنچنا تھا لیکن ندی کی طرح بہتی کاروں کی قطار مجھے ایسا نہیں کرنے دے رہی تھی ۔ آگ بجھانے والی گاڑی کا سائرن پورے شور کے ساتھ بجے جا رہا تھا جبکہ وہ ایک کینچوے کی طرح رینگ رہی تھی ۔ میں نے خود سے کہا، ” آگ جو بھی کھا رہی ہے ، اسے اس کا مزہ لینے دو ۔“ اس سب سے تنگ آتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ میں سڑک کب پار کر سکوں گا ؟
میں وہاں کافی دیر تک کھڑا رہا ، تب کونے میں موجود کپڑے استری کرنے والی دکان میں کام کرنے والا ایک نوجوان میرے پاس آیا ۔ اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور جوان مردی سے بولا ؛
” دادا جی ، آئیں میں آپ کو سڑک پار کرا دوں ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
94 سال کی طویل عمر پانے والے مصری ادیب نجیب محفوظ ( Naguib Mahfouz) کو 1988ء میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا ۔ اس نے اپنے ستر سالہ ادبی کیرئیر میں تیس سے زائد ناول ، لگ بھگ 350 کہانیاں اور درجنوں فلمی سکرپٹ لکھے ۔ ان کے علاوہ اس نے کچھ ڈرامے بھی تحریر کئے ۔ توفیق الحکیم کی مانند اس کی تحریروں پر وجویت پسندی کا اثر نمایاں نظر آتا ہے ۔ اس کے ناولوں میں تین ناول خاصے اہم ہیں ؛ ’ بین القصرین ‘ ، قصر الشوق‘ اور ’ االسکریة ‘ یہ قاہرہ ٹرایلوجی (Cairo Trilogy ) کے نام سے مشہور ہیں ۔ یہ پچاس کی دیائی کے وسط میں لکھے گئے ۔ اس کا ناول ’ اولاد حارتنا ‘ ( Children of Gebelawi) جو اس نے 1959 ء میں لکھا تھا اور اخبار ’ الحرم‘ میں قسط وار شائع ہوا ، اس حد تک متنازع رہا کہ یہ مصر میں 2006 ء میں ہی کتابی شکل میں شائع ہو پایا ۔ وہ اپنے اس ناول اور سلمان رشدی کے ناول ’ The Satanic Verses ‘ کے حمایتی ہونے کی وجہ سے اسلامی انتہا پسندوں کی سخت تنقید کا نشانہ بھی بنا اور82 سال کی عمر میں اسے قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔
11 دسمبر 1911 ء کو قاہرہ میں پیدا ہونے والے اس ادیب نے 30 ، اگست 2006 ء کو قاہرہ میں ہی وفات پائی ۔
اس کا یہ افسانہ پہلی بار 1988 ء میں عربی میں اس کی کہانیوں کی کتاب ' الفجر الکاذب ' میں شائع ہوا ۔ انگریزی میں یہ افسانہ کتاب ' The time and the place and other stories ' میں موجود ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔