نجیب محفوظ (۱۱ دسمبر ۱۹۱۱ – ۳۰ اگست ۲۰۰۶) مصر کے معروفِ عالم عربی فکشن رائیٹر اپنی۔۔۔ زندگی میں چونتیس ناول اور ساڑھے تین سو افسانے تخلیق کیے۔ ان کے موضوعات، الٰہیات، اشتراکیت اور ہم جنس پرستی سمیت خاصی رنگا رنگی کے حامل رہے ہیں تاہم سیاست ان کی ہر تخلیق میں ضرور شامل رہتی ہے۔ ان کی بعض تخلیقات اپنی بے باکی کی بنا پر مصر سے ممنوع رہیں۔ ان کی تحریروں میں بہت پیچیدگی نہیں ہوتی اور غالباً اسی لیے دل میں اُتر جاتی ہیں۔ وہ اب تک کے واحد عرب لکھاری ہیں، جنہیں ادب کا نوبل انعام (1988 میں) پیش کیا گیا۔ ذیل کی کہانی ان کی اپنی زندگی کا ایک باب لگتی ہے، جسے بہت ہونہار شاعر اور استاد منیر فیاض نے آپ کے لیے ترجمہ کیا ہے۔
آدھا دن
میں اپنے باپ کا دایاں ہاتھ مضبوطی سے تھامے اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ میرا سارا لباس نیا تھا: کالے جوتے، سکول کی سبز وردی، اور سرخ ٹوپی مگر مجھے اس کی خوشی نہیں تھی کیونکہ آج وہ دن تھا جب مجھے پہلی مرتبہ سکول میں پھینکا جا رہا تھا۔
میری ماں دروازے میں کھڑی ہماری پیش قدمی کو دیکھ رہی تھی اور میں گاہے گاہے مدد امید پر مڑ کر اسے دیکھتا تھا۔ ہم ایک ایسی گلی میں چل رہے تھے جس کے دائیں بائیں فصلیں تھیں اور کناروں پر کھجور اور ناشپاتی کے درختوں کی قطاریں تھیں۔
’’سکول کیوں؟۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’میں نے کیا کیا ہے؟‘‘۔
’’میں تمہیں کسی بات کی سزا نہیں دے رہا‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا، ’’سکول کوئی سزا نہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لڑکوں کو کارآمد افراد بنایا جاتا ہے۔ کیا تم اپنے بھائیوں کی طرح کارآمد نہیں بننا چاہتے؟‘‘۔
میں اس بات سے قائل نہیں ہوا۔ مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ گھر سے اٹھا کر مجھے اس اونچی دیوار والی بڑی عمارت میں پھینکنے کا واقعی کوئی فائدہ تھا۔
جب ہم دروازے پر پہنچے تو لڑکوں اور لڑکیوں سے بھرا اسکول کا وسیع صحن نظر آنے لگا۔
’’خود اندر جاؤ اور ان سے ملو‘‘، میرے باپ نے کہا ’’چہرے پر مسکراہٹ سجاؤ اور دوسروں کے لیے اچھی مثال بنو‘‘۔
میں ہچکچایا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا مگر اس نے مجھے نرمی کے ساتھ خود سے جُدا کیا۔ ’’مرد بنو‘‘، اس نے کہا۔ ’’آج تم صحیح معنوں میں اپنی زندگی آغاز کرنے جا رہے ہو۔ چھٹی کے وقت تم مجھے یہاں اپنا منتظر پاؤ گے۔‘‘
میں چند قدم آگے بڑھا۔ پھر مجھے لڑکوں اور لڑکیوں کے چہرے نظر آنے لگے۔ میں ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جانتا تھا اور نہ ان میں سے کوئی مجھے جانتا تھا۔ مجھے لگا جیسے میں اجنبی ہوں اور راستہ بھٹک کر یہاں آ گیا ہوں مگر پھر کچھ لڑکوں نے مجھے تجسس سے دیکھنا شروع کر دیا اور ان میں سے ایک نے میرے قریب آ کر پوچھا ’’تمہیں کون لایا؟‘‘
’’میرا باپ‘‘، میں نے سرگوشی کی۔
’’میرا باپ مر گیا ہے‘‘ اس نے بس یہی کہا۔
مجھے علم نہیں تھا کہ اب کیا کہنا ہے۔ دروازہ بند ہو چکا تھا، کچھ بچے رونے لگے۔ گھنٹی بجی، ایک عورت آئی جس کے پیچھے کچھ مرد تھے۔ مردوں نے ہماری درجہ بندی شروع کر دی۔ ہمیں طویل عمارتوں کے درمیان پھیلے اس وسیع صحن میں پیچیدگی سے مرتب کر دیا گیا۔ ہر منزل پر موجود لکڑی کی چھت والے چھجوں سے ہمیں دیکھا جا رہا تھا۔
’’یہ تمہارا نیا گھر ہے‘‘ عورت نے کہا ’’ یہاں تمہاری مائیں اور باپ بھی ہیں، ہر وہ چیز یہاں موجود ہے جو تمہارے لیے فائدہ مند اور لطف انگیز ہے۔۔۔۔ اپنے آنسو پونچھو اور بخوشی زندگی کا سامنا کرو‘‘۔
ایسا لگتا تھا کہ میری بد گمانیاں بے بنیاد تھیں۔ اولین لمحات سے ہی میں نے بہت سے دوست بنا لیے اور بہت سی لڑکیوں کی محبت میں گرفتار ہوا۔ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ سکول اتنے سارے خوش کن تجربات سے بھرپور ہو گا۔
ہم نے بہت سے کھیل کھیلے۔ موسیقی کے کمرے میں ہم نے اپنا پہلا گانا گایا۔ زبان سے بھی ہمارا پہلا تعارف ہوا۔ ہم نے زمین کا گلوب دیکھا جو گھومتا تھا اور اس پر بہت سے ممالک اور براعظم نظر آتے تھے۔ ہم نے گنتی سیکھی اور ہمیں خدا اور کائنات کی تخلیق کی کہانی سنائی گئی۔
ہم نے مزیدار کھانا کھایا، قیلولہ کیا اور بیدار ہو کر اپنی دوستی اور محبت، کھیلنے اور سیکھنے کو جاری رکھا۔
ہمارا راستہ مکمل طور پر لطف آ گیں اور آسان نہیں تھا۔ ہمیں صبر کے ساتھ بہت کچھ دیکھنا پڑتا تھا۔ یہ محض کھیلنے کودنے اور مستیاں کرنے کا معاملہ نہیں تھا۔ یہاں دشمنیوں سے نفرت پیدا ہو سکتہ تھی، جس سے لڑائی ہونے کا بھی خدشہ تھا اور وہ عورت جہاں کبھی کبھی مسکراتی تھی تو اکثر ڈانٹتی اور چلاتی بھی تھی بلکہ اکثر اوقات وہ جسمانی سزا بھی دیتی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ اب ارادہ بدلنے کا وقت ختم ہو چکا تھا اور گھر کی جنت کو کبھی بھی پلٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے سامنے اب محنت، کوشش اور ثابت قدمی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ جو قابل تھے انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور کامیابی حاصل کی۔
گھنٹی کی آواز نے دن اور کام کے اختتام کا اعلان کیا۔ بچے بھاگتے ہوئے دروازے کی طرف دوڑے جو دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔ میں نے دوستوں اور محبوباؤں کو خدا حافظ کہا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔ میں نے اردگرد دیکھا مگر اپنے باپ کا، جس نے مجھ سے وہاں موجود ہونے کا وعدہ کیا تھا، کہیں نشان نہ پایا۔ میں ایک طرف کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا۔ طویل اور رائیگاں انتظار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود گھر چلا جاؤں۔ میں چند قدم چلا اور پھر حیرت زدہ ہو کر رک گیا۔ او خدایا! وہ گلی کہاں گئی، جس کے دونوں طرف باغات تھے؟ وہ کہاں غائب ہو گئی؟ یہ سب گاڑیاں یہاں کب داخل ہوئیں اور یہ سب لوگ کب زمین پر آ گئے؟ یہ کوڑے کے ڈھیر کی پہاڑیاں کناروں پر کیسے آ گئیں؟ وہ فصلیں کہاں گئیں، جو دونوں کناروں پر موجود تھیں۔ ادھر اُدھر مداری کھڑے تھے، جو اپنی ٹوکریوں سے سانپ نکالنے اور غائب کرنے کے کرتب دکھا رہے تھے۔ پھر ایک بینڈ تھا جو سرکس کے افتتاح کا اعلان کر رہا تھا، جس کے آگے آگے مسخرے اور پہلوان چل رہے تھے۔
او خدایا! میں ہکا بکا رہ گیا۔ میرا دماغ گھوم رہا تھا۔ صرف آدھے دن میں، صبح اور شام کے درمیان، یہ سب کیسے ہو سکتا ہے۔ گھر پہنچ کر مجھے اپنے باپ سے اس کا جواب مل جائے گا مگر میرا گھر تھا کہاں؟ مین چوراہے کی طرف بھاگا کیونکہ مجھے یاد نہیں تھا کہ گھر پہنچنے کے لیے مجھے سڑک پار کرنا ہو گی مگر گاڑیوں کے دھوئیں نے مجھے پار نہیں ہونے دیا۔ انتہائی جھنجلاہٹ کے عالم میں میں نے سوچا کہ پتہ نہیں کب میں سڑک پار کرنے کے قابل ہوں گا۔
میں بہت دیر تک وہاں کھڑا رہا اور تب کونے پر واقع دھوبی کی دکان سے کپڑے استری کرنے والا ملازم لڑکا میرے پاس آیا۔
اس نے اپنا بازو میری طرف بڑھایا اور کہا ’’باباجی، آئیں میں آپ کو سڑک پار کروا دوں۔‘‘
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1103824659&Issue=NP_LHE&Date=20161028
“