آج – 5/نومبر 2001
مقبول پاکستانی شاعر جنہوں نے عوامی تجربات کو آواز دی، نظم نگار،اردو کے جدید شعراء میں شامل اور ممتاز و معروف شاعر” عدیمؔ ہاشمی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام فصیح الدین اور تخلص عدیمؔ تھا۔ یکم اگست ۱۹۴۶ء کو فیروزپور(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ فیصل آباد میں نشوونما ہوئی۔ ۱۹۷۰ء میں لاہور آگئے۔ ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا۔ اس دوران انھوں نے ریڈیو اورٹی وی کے لیے گیت لکھے۔ بعدازاں وہ راول پنڈی منتقل ہوگئے۔ ۲۰۰۱ء میں اپنے عزیز اورممتاز شاعر افتخار نسیم کے پاس امریکہ چلے گئے۔ وہ طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ ان کا بائی پاس آپریشن ہوچکا تھا ۔ وہ 5؍نومبر۲۰۰۱ء کو شکاگو میں انتقال کرگئے اور وہیں سپردخاک کردیے گئے۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں:
’’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘، ’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘، ’بہت نزدیک آتے جارہے ہو‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:384
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز شاعر عدیمؔ ہاشمی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا
وہ مرا محسن مجھے پتھر سے ہیرا کر گیا
—
کیوں سب کی طرح بھیگ گئی ہیں تری پلکیں
ہم نے تو تجھے حال سنایا نہیں اتنا
—
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
—
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا
—
جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا
—
جب بیاں کرو گے تم ہم بیاں میں نکلیں گے
ہم ہی داستاں بن کر داستاں میں نکلیں گے
—
درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لیے
سب کے سب آنسو نہیں ہوتے بہانے کے لیے
—
قصۂ سخن گوئی جب عدیمؔ آئے گا
ہم بھی واقعہ بن کر داستاں میں نکلیں گے
—
ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال تھا
دل خوش ہوا ہے ایک گنہ گار دیکھ کر
—
ستونِ ریگ نہ ٹھہرا عدیمؔ چھت کے تلے
میں ڈھ گیا ہوں خود اپنے کو آسرا دے کر
—
شامل تھا یہ ستم بھی کسی کے نصاب میں
تتلی ملی حنوط پرانی کتاب میں
—
کیوں مرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
عین ممکن ہے اسے خود ہی خیال آ جائے
—
بیٹھا رہا ہمائے ستم سر پہ ہی عدیمؔ
ہر دشتِ کرب کی ہمیں سلطانیاں ملیں
—
مرے قریب سے گزرا نہیں ہے سنگ تراش
مجسمہ ہوں میں اب تک مگر چٹان میں ہوں
—
بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہر اک جانب ترا غم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
—
لوٹ کر آئے نہ کیوں جاتے ہوئے لمحے عدیمؔ
کیا کمی میری صدائے بے اثر میں رہ گئی
—
سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے
—
دائیں رخسار پہ آتش کی چمک وجہ جمال
بائیں رخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے
—
جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے
—
تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے
—
عدیمؔ بیٹھا ہوا ہوں پروں کے ڈھیر پہ میں
خوش اس طرح ہوں کہ جیسے کسی اڑان میں ہوں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
عدیمؔ ہاشمی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ