وہ خلوت پسندی کو کیوں پسند کرتے ہیں۔۔۔؟؟
آخر وہ پبلک فیگر کیوں نہیں بنتے ہیں ۔۔؟؟
اور ادیب کو پبلک فیگر کیوں نہیں ہونا چاہیے۔۔؟؟
میکسم گورگی نے "مدر" لکھنے سے بہت پہلے اخبار نکال کرخود کو پبلک فیگر تسلیم کرایا۔۔۔ ۔۔۔۔اور خود کو عوامی زندگی کے لیئے وقف بھی کر دیا تھا۔۔۔اذہان جب وسیع بہت وسیع ہونے لگ جاتا ہے تو افکار کا یلغار ہوتا ہے ۔۔۔اور ایسے میں وہ گوشہ نشیں ہو جاتے ہیں ۔۔//
پر اب آپ ادیبوں کو باہر نکلنا ہی پڑے گا۔۔سیاسی میدان میں جہلا کی ایک فوج تیار ہو کر سیاست کا ذائقہ چکھ رہی ہیں ۔۔۔
کافکا نے کہا ۔۔۔کہ میں خود کو قائل کر چکا ہوں کہ میں انسانی تعلق کے لیئے نامناسب ہوں ۔۔۔۔زندگی ایک نقاب پوسں کی طرح کھڑی تھی ۔۔اور میں اپنی اصلی شکل کے ساتھ پہنچ گیا۔۔۔۔//
فرائڈ نے کہا کے معاشرے میں مجھسے نفرت کرنے والوں کی کمی نہیں تھی تعلیمی اکاڈمی میں بھی لوگ اس سے دور بھاگتے ۔۔نفرت کرتے ۔۔۔پر سگمیڈ فرائڈ نے سماج کو اپنے وجود کو تسلیم کرا کر ہی مانا۔۔۔۔۔سماج اور سماجیات کا یہ کھوکھلا پن ادیب ہی کیوں جھیلتا ہے سیاستداں کیوں نہیں۔۔۔؟؟
خلیل جبران کہتا ہے۔۔۔
میری تحریر ۔۔۔! میرے اندر گہرائی میں ہمہ جہت ذہن موجود ہے۔۔۔۔جس کو نہ لفظوں سے سروکار ہے۔۔۔نہ لکیروں اور رنگوں سے وہ کام جس کے لیئے میں پیدا ہوا ہوں۔۔۔اس کا نہ قلم سے تعلق ہے اور نہ ہی مو قلم سے۔۔۔
منتسر حسین تارڑ کہتے ہیں کہ اچھی تحریریں لکھنے کے لیئے گوشہ نشین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔//
ابن انشاء کہتے ہیں
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو۔۔۔اس شہر میں جی کا لگانا کیا۔۔۔
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب ۔۔جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا۔۔۔
کچھ ادیب حالات حاضرہ سے نگاہیں نہیں چراتے بلکہ حالات سے نظریں ملا کر چلتے ہیں ۔۔۔اور کچھ رسم ورواج کے احساسات میں خود کو اور اپنے قلم کو مستغرق رکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کے ملک کاغذ پر بنا ٹکڑا نہیں ہوتا۔۔۔۔میں کیا لکھ رہا ہوں۔۔؟؟
اور کیوں لکھ رہا ہوں ۔۔۔؟؟
کیونکہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ جب ہم ایک سادہ سے خیال کو بیان کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں کچھ ایسے الفاظ آتے ہیں جن سےہمارا قلم مانوس ہوتا ہے اور اسی کے نتیجے میں ہمیں پبلک فیگر بننا ہی ہوگا۔۔۔۔سماجی۔۔اور سایسی گندی اور گاربیج کو purify کرنا ہی ہوگا۔۔۔۔اور لوگوں سے عوام سے تعلق استوار کرنا ہی پڑے گا۔۔۔
اور اس کےلیئے انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔اور انتظار وقت کا ایک ان مٹ نقش ہے۔۔۔۔جبکہ ادیب اور شاعر مسلسل انتظار کی کیفیت میں ہیں۔۔۔؟؟
میں دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ میں لکھتا ہوں۔۔۔کرتا ہوں ۔۔۔سوچتا ہوں ۔۔۔وہ خلوت سے جلوت میں جانے کے لیئے نہیں ۔۔۔۔ع
شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ہمیں ایک دوسرے سے مفاہمت کر لینی چاہیئے۔۔۔۔اور اگر ہم ایسا کر لیں تو خود کو شک۔۔اذیت۔۔افسوس۔۔۔بے اعتنائی ۔۔۔اور کوفت سے بچا لینے میں کامیاب ہو جاتے جناب ۔۔۔//
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...