اداروں کا احترام:
'۔۔۔ یہ جو وردی ہے' چیف جسٹس۔۔۔۔۔۔ ہے، باجوہ۔۔۔۔۔ ڈبہ چور ہے، ووٹ کو عزت دو وغیرہ نعرے۔۔۔ بتاتے ہیں۔ پاکستان سماجی اورسیاسی لحاظ سے انتشار کا شکار ہے، ریاستی ادارے عوام کی نظروں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔۔ ایک حصہ ان اداروں پرشدید تنقید اوراختلاف رکھتا ہے۔۔ سچی بات ہے پاکستان ٹوٹ پھوٹ رہا ہے۔۔ جب عوام کے بڑے اور متنوع حصے میں ریاست اپنا وقار کھو دے۔۔ تو ملک کمزورہوجاتے ہیں۔ متنوع میں نے اس لئے کہا ہے کہ بلوچ، سندھی، پختون اور اب پنجابی کے علاوہ انتہائی غصے کی باتیں سیاسی مولونا حضرات کی طرف سے بھی ہونے لگی ہے۔ جو براہ راست فوج کے اداروں پرانگلی اٹھا رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری اسٹیبلش منٹ بے حسی سے اس رستے پرچلتی چلی جارہی ہے، وہ اس کا نوٹس نہیں لے رہے، کہ وہ اسی شاخ میں سوراخ کئے جارہے ہیں۔۔ جس پرخود بیٹھے ہیں۔۔ ہرکام ریاستی جبراوربدمعاشی سے نہیں ہوتا۔۔ اگرایسا ہوتا تو دنیا بھر میں آج جمہوری نہیں آمرانہ حکومتیں ہوتی۔۔
ٹھیک ہے ریاست کا رول 'باپ' جیسا ہوتا ہے۔۔ 'ٹھیک کرنے والا' ریاست ماں تو ہو نہیں سکتی۔۔ ابھی اسے بڑا وقت لگے گا۔ لیکن باپ کی بھی عزت اسی وقت ہوتی ہے۔۔ جب وہ سچ مچ باپ والا رول ادا کررہا ہو۔۔ ورنہ میں نے دیکھا ہے۔۔کہ اولاد باپ کی عزت کا تیاپانچہ کرکے رکھ دیتی ہے۔۔ آپ اپنا احترام بدمعاشی اور آئینی قانونی تحفظ کے زریعے نہیں کروا سکتے۔۔ جبرسے کام لیں گے۔ مزید عوام کے اندر ریاست سے بیگانگی اورمایوسی پیدا ہوگی۔۔ آپ کی فالٹ لائنز بڑتی چلی جائیں گی۔۔ اداروں نے اپنے کردار سے اپنا احترام کرانا ہوتا ہے۔۔۔
اگر آج فوج، احتسابی اورعدالتی اداروں کا احترام تیزی سے کم ہورہا ہے۔۔ تو ان کو پہلے اپنے گریبان پرہاتھ ڈالنا ہوگا۔۔۔ کہ کہیں ان کی اپنی بدکرداری سے تو عوام کی نظروں میں نہیں گررہے۔۔۔ ادارے اپنی چادروں سے باہرنکل چکے ہیں۔۔ وہ دائرہ کار سے باہر والے اداروں کو ٹیک اوور کرچکے ہیں۔۔ اپنے فیصلوں اور مداخلتوں سے ملک کی یک جہتی اور اس کے نظام کی توڑ پھوڑ کررہے ہیں۔۔
احترام کرانا ہے۔۔ تو پھر اپنے آئینی حدود میں چلے جائیں۔۔ کب تک جبراورظلم سے 21 کروڑ لوگوں کو دبائے یا پراپیگنڈے سے بے وقوف بنائے رکھیں گے۔۔ فوج بالکل ساری قوم کے لئے قابل احترام ہونی چاہئے۔۔ عدلیہ باعزت ہونی چاہئے۔۔ لیکن اس کے لئے فوج اورعدلیہ کو غیرسیاسی ہونا پڑے گا۔۔ ادارے خود اپنا احترام گنوا چکے ہیں سیاسی پارٹیاں بن کر۔۔ کسی سیاسی پارٹی کو پوری قوم کی تائید حاصل کبھی نہیں ہوتی۔۔ عوام کا ایک حصہ حمائت کرتا ہے، تو دوسرا حصہ تنقید اورمخالفت ۔۔ جب ریاستی ادارے سیاسی پارٹیاں بنیں گے، تو پھروہ باوقار بھی نہیں رہیں گے، اس کا مطلب ہے آپ پوری قوم کے ہے ہی نہیں۔ تو پھرسب سے وقار کا کلیم کیسا۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“