اگر آپ کو دس سیکنڈ دیے جائیں اور کہا جائے کہ سوچیں کہ آپ کے لئے زندگی کا بہترین واقعہ کیا ہو سکتا ہے اور بدترین واقعہ کیا ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ بہترین واقعہ یہ کہ دو ارب روپے کی لاٹری نکل آئے۔ اس سے آپ اپنی زندگی کی امنگیں، پوری کر سکیں، دوسروں کی مدد کر سکیں اور آرام دہ زندگی گزار سکیں۔ اس سے ملنے والے خوشی مختصر مدت کی نہیں بلکہ لمبے آرام کی ہے۔ اور بدترین یہ کہ آپ مکمل طور پر مفلوج ہو جائیں، کھانے پینے کے لئے دوسروں پر منحصر ہو جائیں، زندگی ایک قیدخانہ بن جائے۔ کئی لوگ ایسی زندگی کو موت سے بھی بدتر سمجھتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں۔
ہاں، لاٹری جیت جانا مفلوج ہو جانے سے بہتر ہے لیکن اتنا زیادہ نہیں جتنا کہ آپ کا خیال ہے۔ کیونکہ زندگی میں آپ کے ساتھ جو بھی ہو جائے، اس کے مطابق ہو جانا اتنا وقت نہیں لیتا لیکن یہ وہ حقیقت ہے جس کا آپ کو احساس نہیں ہوتا۔ ہم سب اپنی مستقبل کی سوچ اور جذبات کی پیشگوئی کرنے میں بہت بُرے ہیں۔ ہم اپنے جذباتی ری ایکشن کی شدت اور اس کی مدت کا حقیقت سے بہت زیادہ تخمینہ لگاتے ہیں۔ اوسطا، ایک سال کے اندر اندر لاٹری جیتنے والے اور مفلوج ہو جانے والے اپنی خوشی کے سیٹ پوائنٹ پر واپس آ جاتے ہیں۔
لاٹری جیتنے والا نیا گھر، نئی گاڑی خرید لے گا، اپنی پرانی بورنگ نوکری چھوڑ دے گا، بہتر معیارِ زندگی اپنا لے گا۔ اپنے پچھلی زندگی سے موازنہ کر کے خوش ہو لے گا۔ چند مہینوں تک یہ سب مٹنا شروع ہو جائے گا، خوشی ماند پڑ جائے گی۔ اس کی وجہ یہ کہ انسانی ذہن تبدیلیاں ڈیٹکٹ کرنے میں غیرمعمولی طور پر حساس ہے لیکن ایبسولیوٹ سطح کے بارے میں بالکل بھی نہیں۔ لاٹری کے بعد دولت اور زندگی کے معیار کے بڑھنے نے خوشی دی، پھر یہ نئی بیس لائن بن گئی۔ جیتنے والے کے لئے یہ اب ایک معمول ہے، اس سے آگے کچھ اور نہیں۔ اور اس سے برا؟ وہ اس پیسے کی وجہ سے تعلقات میں ہونے والا نقصان ہے۔ دوست، رشتہ دار، منہ بسورتے اجنبی اور دھوکہ باز جو اس پر اپنا حصہ لینے کے لئے منڈلا رہے ہیں۔ (یہ سب بھی اپنے سیلف سرونگ بائیس کے تحت ایسا کرتے ہیں)۔ لاٹری جیتنے والوں کی زندگی کئی بار اتنی مشکل ہو جاتی ہے کہ وہ شہر چھوڑ دیتے ہیں، رشتے ختم کر دیتے ہیں، روپوش ہو جاتے ہیں۔ لاٹری جیتنے والوں نے اپنا سپورٹ گروپ بنایا ہوا ہے جہاں پر وہ اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی زندگی کے دکھڑے رو سکیں۔ ان لوگوں کے ساتھ مل کر، جو ان کی پریشانیوں کو ٹھیک طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔ (تاہم لاٹری جیتنے والوں کی اکثریت اس کو زندگی کا ایک اچھا واقعہ کہتی ہے)۔
اور دوسری انتہا پر۔ مفلوج ہو جانے والے کو ایک بڑی ناخوشی شروع میں برداشت کرنا پڑے گی۔ اس کا خیال ہو گا کہ زندگی ختم ہو گئی، تمام امیدیں ختم ہو گئیں۔ لیکن ایک بار پھر۔ ذہن تبدیلیوں کے بارے میں زیادہ حساس ہے۔ کچھ مہینوں کے بعد وہ اپنے لئے نئے مقاصد تلاش کر لے گا۔ فزیکل تھراپی سے ہونے والی بہتری اس کے لئے مسرت لے کر آئے گی۔ اب اس کے پاس مزید خراب ہونے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ ہر راستہ بہتری کا ہے۔ ہر قدم پراگریس کے اصول کے تحت اوپر ہی کی طرف جا رہا ہے۔ سٹیفن ہاکنگ اپنی نوجوانی میں ہی موٹر نیورون بیماری کا شکار ہو گئے تھے۔ لیکن انہوں نے کاسمولوجی کے بڑے مسائل حل کئے، بڑے انعامات جیتے۔ سائنس کے سب سے زیادہ پاپولر مصنف بنے۔ ان کی لکھی جانے والی کتاب سائنس کی آج تک کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے۔ نیویارک ٹائمز میں انٹرویو کے وقت ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ اس قدر باہمت کیسے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ “اکیس سال کی عمر میں زندگی کے ساتھ میری توقع صفر پر پہنچ گئی تھی۔ اس کے بعد ہر شے بونس تھی”۔
ایڈاپٹ کر لینا نیورون کی خاصیت ہے۔ جب ایک سٹومولس نارمل ہو جائے تو یہ اس پر فائرنگ کم کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے لئے اہم معلومات تبدیلی میں ہے، یکسانیت میں نہیں۔ انسان اس خاصیت کو کوگنیٹو انتہا پر لے جاتے ہیں۔ نہ صرف نئی حالت کی عادت ہو جاتی ہے بلکہ کیلیبریشن ہی بدل جاتی ہے۔ یعنی زندگی سے توقع نئی ہو جاتی ہے۔ نئے ٹارگٹ بنا لئے جاتے ہیں، کامیابیوں کے بعد مزید اوپر کا نشانہ۔ کسی دھچکے کے بعد، نشانہ کچھ نیچے۔ ہم اپنے آپ کو مقاصد، امیدوں، توقعات سے گھیر لیتے ہیں اور اپنی تکلیف اور خوشی کا پیمانہ اس میں ہونے والی پراگریس کو بناتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر کیا اچھی زندگی کی تلاش ایک ٹریڈ مِل ہے، جس پر جتنی بھی تیز بھاگ لیں، اصل میں وہیں پر ہی کھڑے رہیں گے؟ کیا دولت اور آسائشیں، تکلیف اور مصائب معنی نہیں رکھتے؟ اچھی خبر یہ ہے کہ اس کا جواب اگرچہ مکمل طور پر تو نہیں، لیکن اس سے زیادہ اثبات میں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم اڈاپٹیشن کے اصول کو اور جینیات کو ملا کر دیکھتے ہیں تو ایک چونکا دینے والی دریافت ہوتی ہے۔ طویل مدت میں خوشی کا انحصار اس پر نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ اس کا ایک بڑا حصہ ایک اور لاٹری کا ہے۔ یہ ہمارے جینز سے بننے والی شخصیت کی لاٹری ہے۔ کچھ لوگوں کا خوشی کا سیٹ پوائنٹ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کیا جس کی یہ لاٹری نہیں نکلی، اس کی قسمت میں ناخوش زندگی لکھ دی گئی ہے جو بدل نہیں سکتی؟ بہت ہی اچھی خبر یہ ہے کہ ایسا نہیں۔ اس پر 17 سال سے ہونے والی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اگرچہ جینیات سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماحول اور حالات کا بھی کچھ ہاتھ ہوتا ہے (زیادہ نہیں)، لیکن شعوری کنٹرول سے بھی اس کو بدلا جا سکتا ہے۔ اس پر مارٹن سلگمین کا کہنا ہے۔
The very good news is there is quite a number of internal circumstances . . . under your voluntary control. If you decide to change them (none of these changes come without real effort), your level of happiness is likely to increase lastingly.
اس کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Hedonic_treadmill
فوہیٹا اور ڈائنر کی جرمنی میں کی جانے والی سٹڈی پر
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/15631581