ٹھاہ، ٹھاہ۔۔۔ دو فائر کی آواز آئی۔۔۔
شہرِ کراچی کے حالات اتنے بگڑ چکے تھے کہ آئے روز فائرنگ کی آوازیں یا گولی چلنے کی آواز آنا ایک معمول کی بات ہو گئی تھی۔ اُن دنوں میں اور میرا خاندان جن کٹھن حالات سے گزر رہا تھا اس کے پیشِ نظر "فائر" کی وہ آواز سُن کر ہم سب سوتے میں سے اٹھ بیٹھے، صبح کے ساڈھے پانچ بج رہے تھے، میرا بیڈروم پہلی منزل پر تھا، میں فوراَ اپنے کمرے سے باہر نکلا اور ٹیرس کی جانب دوڑ پڑا جہاں سے نیچے گھر کا صدر دروازہ نظر آتا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ میرے گھر کا سیکورٹی گارڈ جو رات کی ڈیوٹی پر مامور تھا فرش پر پڑا تڑپ رہا ہے اور دوسرا گارڈ جو ہماری طرح ہی فائر کی آواز سُن کر سوتے میں سے اٹھا تھا ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا، مار گئے۔۔۔ ظالم گولی مار گئے!
میں یہ منظر دیکھ کر نچلی منزل کی جانب دوڑا اور سراسمیگی کی حالت میں صدر دروازے کا تالا کھولا، فرش پہ پڑے گارڈ کی نبض کو ٹٹولا، مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ بےچارہ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اس کے چاروں طرف خون بھی بکھر گیا تھا۔ ستائیس، اٹھائیس سال کا کڑیل نوجوان "علی بخش" چند لمحوں میں شہید کا درجہ پا گیا، ٹھیک اسی وقت فجر کی اذان کی آواز فضا میں گونجنے لگی۔۔۔اور پھر وہی ایمبولینس، پولیس تھانہ، کچہری، ہسپتال پوسٹ مارٹم وغیرہ وغیرہ۔
"علی بخش" جیکب آباد کے ایک گاؤں "گڑھی خیرو" سے کراچی روزگار کے سلسلے میں آیا تھا اور ہمارے گھر پر سیکیورٹی ایجنسی کی طرف سے سیکیورٹی گارڈ کے طور پر پچھلے ایک سال سے تعینات تھا۔ نہایت ہی خوش مزاج، کم گو، اپنی ڈیوٹی کا پکّا۔
پچھلے دو سال میں یہ ہمارے گھر پر ڈاکوؤں کا پانچواں "حملہ" تھا۔ پہلی دو دفعہ تو ڈاکو ہمارے گھر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور جو سمجھ میں آیا لوٹ کر فرار ہو گئے۔ اس کے بعد ہم نے سیکورٹی گارڈز رکھ لیے، لیکن ڈاکوؤں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری۔ اس دوران ڈاکوؤں نے مزید تین دفعہ گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی، ایک دفعہ تو ہمارے سکیورٹی گارڈ کو شدید زخمی بھی کر گئے لیکن اس کی زندگی تھی ہم نے بروقت اس کو اسپتال پہنچا دیا اور وہ بچ گیا۔ اس واقعے کے دو ماہ بعد ہی "علی بخش" ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہو گیا۔
ہم اُس علاقے میں پچھلے چالیس سال سے رہ رہے تھے۔ میں نے اسی علاقے میں پندرہ سال پہلے ایک پُرانا گھر خریدا اور اس کو مسمار کروانے کے بعد خود ریڈیزائن کیا اور بڑے چاؤ سے تعمیر کروایا تھا لیکن افسوس کہ ہمیں اس گھر کو خیرآباد کہنا پڑا۔ شاید مسلسل ہجرت میرے وطن کے باسیوں کا اب مقدر بن چکی ہے۔ پاکستان آزاد ہوا تو ہجرت، بنگلادیش بنا تو ہجرت، سندھ میں لسانی ہنگامے ہوئے تو اندرون سندھ سے کراچی کی طرف ہجرت، ماضی قریب میں بلوچستان سے خصوصاً غیر مقامیوں کی کوئٹہ سے ہجرت، کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے کی پاکستان سے بیرون ممالک کی جانب ہجرت، سرائیکی اور پشتونوں کی کراچی کی جانب ہجرتوں کا سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔ عدم تحفظ کا شکار ہو کر ہجرتیں کرنے کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تھمے گے۔ اب ہم کراچی کے ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں کوئی آزادانہ طور پر داخل بھی نہیں ہوسکتا، حتٰی کہ وہاں کے مستقل رہائشی بھی اپنے اپنے "اجازت نامے" دکھا کر اندر داخل ہوتے ہیں اور ہر دفعہ ان کی گاڑیوں کی تفصیلی تلاشی لی جاتی ہے۔ اب یہ خود اختیار کردہ نظربندی ہے اور ہم ہیں دوستو!
“