کریمیا پر روس کی عملداری قائم ہونے کے بعد وہاں کے مسلمان روس کے مسلمانوں کی مرکزی دینی کونسل کے تحت آ چکے ہیں، جس نے وہاں ایک علیحدہ ایوان مفتیان قائم کیا ہے۔ اس ایوان مفتیان نے 2016 بمطابق 1437،1438 ہجری کا کیلنڈر چھپوایا تھا جو شاید اتنی زیادہ تعداد میں چھاپ لیا گیا تھا کہ اب اسے ماہ رمضان کی مناسبت سے اس مبارک مہینے کے پہلے جمعہ کی نماز کے بعد ماسکو کی تاریخی مسجد کے باہر بڑے پیمانے پر مفت تقسیم کیا گیا۔
اس کیلنڈر کے صفحات پر تصاویر اور تحریر کے ساتھ سرمہ، کلونجی، روغن زیتون، شہد، مہندی، مسواک، علاج بالقرآن وغیرہ کے اوصاف و محاسن کا ذکر کیا گیا ہے۔ موٹر اور طیارے کی جگہ اونٹ، گھوڑے اور گدھے کی سواری کی افادیت بیان نہیں کی گئی۔ یہ تمام مفتی حکومت سے علاج کی اعلٰی ترین سہولیات لیتے ہیں لیکن اس کیلنڈر کے ذریعے لوگوں کو ایڈز اور ہیپاٹائٹس سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا۔ ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے سے متعلق اور چربیات استعمال کرنے کے خطرات سے متعلق درس دینے کا تو ذکر ہی کیا کرنا۔ جی ہاں مسلمانوں کی اس مرکزی کونسل اور ادارہ مفتیان کو حکومت روس کی سرپرستی حاصل ہے مگر بات یہ ہے کہ یہاں حکومت سیکیولر ہے اس لیے وہ اپنا کام کرتی ہے، مذہبی حلقوں کو اپنا کام کرنے دیا جاتا ہے۔ تعلیم عام ، دستیاب، قابل دسترس اور اچھی ہے اس لیے لوگ مسواک یا ٹوتھ برش میں جسے مناسب سمجھتے ہیں چن لیتے ہیں۔ کچھ گھر میں برش اور پیسٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ مسجد میں اور لوگوں کے سامنے مسواک زنی کا پرچار۔
اس کے برعکس پاکستان میں حکومت کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع لزوم میں شامل ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر حکومت پنجاب نے گھریلو تشدد کے خلاف ایک بل منظور کیا تھا جس پر بہت لے دے ہوئی۔ بالآخر ملاحظے کی خاطر اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنا پڑا تھا۔ اس کونسل نے اپنی جانب سے اس ضمن میں منظور کیے بغیر کچھ نکات میڈیا کے ذریعے عام کیے، جن میں عورت کی نافرمانی کو فرو کیے جانے کی خاطر پندو نصائح کے بعد بستر الگ کر لینے اور بالآخر ہلکی پھلکی جسمانی سزا دینے کی تجویز بھی تھی، جو قرآن کریم کی ایک سورۃ کی روشنی میں ہے۔
قرآن کی اپنی زبان اور اس کے صحیح تراجم میں "اگر تمہاری عورتیں نافرمان ہوں" ہے البتہ شرح و تفاسیر میں ان عورتوں کو بیویاں بتایا گیا ہے۔ یہ بیٹیاں، بہوئیں، رشتہ دار خواتین اور شناسا قریبی خواتین بھی شاید ہو سکتی ہوں، بہر حال اس سے کوئی غرض نہیں غرض ہے تو ماروی سرمد کے ساتھ سینیٹر حافظ حمداللہ کے نامناسب رویے اور سلوک سے۔ درست ہے کہ ماروی اپنے تمام تر نستعلیق پن کے باوجود بسا اوقات سخت زبان کا استعمال کرتی ہیں، مجھے ذاتی طور پر بعض اوقات ان کا انداز تخاطب اور بے محابا تکرار اچھی نہیں لگتی تاہم اس بار انہوں نے ابھی کچھ کہا بھی نہ تھا کہ حمداللہ موصوف بھنا گئے اور پھر ثابت کر دیا کہ نہ وہ پٹھان ہیں نہ حافظ، سینیٹر اور عالم دین ہونا تو دور کی بات رہی۔
مجھے لگتا ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ اس ذہنیت کے حامل ہیں جو ان مذہبی لوگوں کے بڑے بڑے جید رہنماؤں نے تشکیل دی ہے۔ اس خاص سورت کی توضیح میں ذرا دو علمائے کرام کا انداز ملاحظہ ہو جو مولوی یا محض حافظ ہرگز نہیں تھے۔
سورۃالنساء کی آیت چونتیس میں جہاں آخر میں "والضربوہن" لکھا ہے،
اس پر 59 لکھ کر تشریح میں مولانا ابوالاعلٰی مودودی صاحب رقم طراز ہیں : " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے بادل ناخواستہ دی ہے اور پھر بھی اسے ناپسند فرمایا ہے۔ تاہم بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو پٹے بغیر درست نہیں ہوتیں۔ ایسی حالت میں نبی صلہ اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ منہ پر نہ مارا جائے، بے رحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیز سے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے ( تفہیم القرآن، جلد اوّل صفحہ 350)
امین احسن اصلاحی "تدبّر القرآن" کی جلد دوم کے صفحہ 293 میں تشریح کرتے ہوئے یوں بیان کرتے ہیں،" ۔ ۔ ۔ ۔ اگر معاملہ اس سے بھی بنتا نظر نہ آئے تو آخری درجے میں مرد کو جسمانی سزا دینے کا بھی اختیار ہے لیکن یہ صرف اس حد تک ہونی چاہیے جس حد تک ایک معلم و مودب اپنے کسی زیر تربیت شاگرد کو دے سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘غیر مبرح‘ کے الفاظ سے اس کی حد واضح فرما دی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سزا ایسی نہ ہو کہ وہ کوئی پائدار اثر چھوڑ جائے"۔
آپ نے غور فرمایا کہ بعض "پٹے بغیر درست نہیں ہوتیں" یا "سزا پائدار اثر نہ چھوڑ جائے" نیل پائدار نہیں ہوتے چند دنوں یا ہفتوں میں محو ہو جاتے ہیں۔ زخم بھی ایسے مندمل ہو سکتے ہیں کہ نشان تک باقی نہ رہے۔ اوپر سے حکم قرآن کا اور وضاحت نبی صلعم کی ان پر معترض ہونے سے پہلے زبان اپنے ہی دانتوں تلے آ کر کٹ نہ جائے۔
مولوی تو مولوی ہیں۔ ان کی تو روزی روٹی، احترام و سیاست سب کچھ دین اور توضیح دین کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ اس ضمن میں دانتا کل کل کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ماروی سرمد جیسی خواتین ایسے لوگوں کے ساتھ بے سود مکالمہ کرکے بھلا کتنے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا سکیں گی۔ چند روز پہلے کی بات ہے کہ ملتان کے ایک نوجوان بلاگر عبدالرؤف نے "پردے کا پردہ فاش" کے عنوان سے ایک بلاگ لکھا جو "ہم سب" میں شائع ہونے سے پہلے "ڈان ڈاٹ کام" میں چھپا تھا۔ اس بلاگ میں بہت سادہ سے سوال اور ان کے وہ جوابات ہیں جو عبدالرؤف کے نزدیک درست ہیں۔ ساتھ ہی ایک خانے میں درج تھا "آیا آپ ان باتوں سے متفق ہیں، ہاں یا نہیں میں جواب دیں" پھر لکھا تھا "نتائج دیکھیے" جب میں نے نتیجہ دیکھا تھا تو مخالفین کی شرح 79 فیصد تھی اور حمایتیوں کی 21 فیصد یعنی تقریبا" اسی فیصد وہ لوگ ہیں جو عقل پر مبنی آراّ سے اختلاف کرتے ہیں اور جذبات سے کام لینے کو درست۔
عورت کی تو ہمارے معاشرے میں اوقات ہی کیا کہ وہ اپنی کہی منوا سکے۔ سرائیکی کی ایک کہاوت ہے "گڈاں دی کیا مجال جو بیڑی تے نہ چڑھے" یعنی "گدھی کی کیا مجال کہ کشتی پر سوار نہ ہو" یہ کشتی مردوں کی ملکیت ہے، یقین جانیں یہ بات پورے معاشرے میں درست ہے، کوئی مانے چاہے نہ مانے۔ اس کہاوت کا جواب یہ کہہ کر دیا جاتا ہے "گدھی کو کشتی پر سوار کرایا جا سکتا ہے مگر پانی پینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا" کون چاہتا ہے کہ وہ پانی پیے، وہ پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کے جان مر جائے تو بھی کیا، ہم مردوں کی بلا سے۔
مردوں پر ہی کیا بس کرنا اب تو ایسی ماں بھی سامنے ا گئی ہے جس نے پتہ نہیں کیسے اپنی 17 برس کی جوان بیٹی کو، جس نے مرضی سے شادی کر لی تھی، قابو کرکے چارپائی کے ساتھ باندھ دیا۔ یہ کام تو اکیلا مرد بھی بہت مشکل سے کر سکتا ہے اور پھر پٹرول ڈال کر ماچس جلا کر زندہ جلا ڈالا اوپر سے کہتی ہے "ماچس اس نے (بندھی ہوئی نے) گرا دی، میں نے پیر سے جلا لی (پتہ نہیں کیسے) اور جلا ڈالا۔ مجھے ماشہ (ذرہ بھر) بھی افسوس نہیں۔ جو (عزت) اتار کر رکھ دیں، ان کے ساتھ ایسے ہی کرنا چاہیے"۔
پتھروں سے سر ٹکرانے سے فائدہ۔ ایسے غیر انسانی اعمال سے نمٹنا حکومتوں کا کام ہوتا ہے اور کون نہیں جانتا کہ حکومتوں میں کون لوگ ہیں۔ آخر میں ہمارے دوست شمعون سلیم کی ایک نظم پڑھ لیں:
تم یوں کرو
******
توے پہ پُھلکےکا کنارہ پھٹ جانے کی بھاپ سے انگلی جلے
تو چیخ پڑتی ہوں
تیل کی بو نتھنوں میں چبھتی ہے
تو چھینک پڑتی ہوں
لیکن تیل بدن پر چھڑکا ہو
اور تیلی کی نوک کے
ماچس کی فاسفورس سے ٹکرانے کی آواز آئے
اور تیلی پکڑنے والی انگلیاں اس ہاتھ کی ہوں
جسے بچپن سے تھامے کھیلتی رہی ہوں
اور جس کے کانوں پر
میری چیخوں کے لئے اک مہر لگ گئی ہو
کھلونے تھمانے والا ہاتھ
تیزاب کی بوتل چھڑکنے والا ہو
اور کبھی شفیق رہی ہوئ نرم آنکھیں
خشگمیں نفرت سے پتھرا گئی ہوں
تو جلد کے جھلس جانے سے پہلے
میں اندر سے شق ہو کر
پہلے مر گئی ہوتی
تم یوں کرو،
اپنے رب سے کہو
مری تخلیق کو منسوخ کر دے
اور تمہیں اپنے بطن سے از سرِ نو کُن کرے ■
(شمعون سلیم : ۱۰ جون، ۲۰۱۶ء)
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1425760020783437
“