ہمارے وکیل صاحب نے کیس دائر کرتے وقت اپنی فیس کے علاوہ کورٹ فیس کے نام پر 45 ہزار روپے لئے ہیں۔انہوں نے اس کا ہمیں کوئی ثبوت نہیں دیا۔
جواب: کورٹ فیس کے نام پر لوگوں کو اکثر بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
ایک بالکل سادہ سی بات یاد رکھ لیجیے کہ دیوانی دعویٰ دائر کرتے وقت کورٹ فیس زیادہ سے زیادہ 15 ہزار روپے مقرر ہے۔یہ کم تو ہو سکتی ہے زیادہ ایک روپیہ بھی نہیں۔ چاہے آپ کا معاملہ اربوں روپے کا ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن رکیے۔
کیا ہر دیوانی دعویٰ پر کورٹ فیس لگے گی؟
نہیں۔
کورٹ فیس صرف ان معاملات میں لگے گی جن میں آپ نے ریلیف پیسوں کی صورت میں مانگا ہے۔ آپ کا پیسوں کی ریکوری کا دعویٰ ہے، تعمیل مختص کا دعویٰ ہے۔ قرض کی واپسی کا دعویٰ ہے۔ہرجانے کا دعویٰ ہے تو تب کورٹ فیس لگے گی۔
25 ہزار روپے تک کے کلیم پر کورٹ فیس بالکل نہیں لگے گی۔
25 ہزار سے اوپر کے کلیم پر کورٹ فیس دعویٰ کی گئی رقم کے ساڑھے 7 فیصد کے حساب سے لگے گی۔
مثلا آپ کا کسی سے ایک لاکھ کا تقاضا ہے تو اس پر ساڑھے 7 ہزار کورٹ فیس لگے گی۔ 2 لاکھ کے دعوے پر 15 ہزار۔ اور 2 لاکھ سے زیادہ جتنی مرضی رقم کا دعویٰ ہو، کورٹ فیس یہی 15 ہزار لگے گی۔اس سے ایک روپیہ بھی زیادہ نہیں ہوگی۔ کورٹ فیس کے نام پر جو 50 ہزار اور اور لاکھ روپیہ نکلوایا جاتا ہے۔ کہ پراپرٹی یا دعویٰ کروڑوں کا ہے تو کورٹ فیس بھی اس حساب سے لگے گی،فراڈ اور جھوٹ ہے۔ ہمارے علم میں ایسے بھی کیسز ہیں جن میں زمین کا کیس تھا اور زمین کی مالیت کے حساب سے لاکھوں میں کورٹ فیس نکلوائی گئی۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ کورٹ فیس صرف دیوانی کیسز میں لگتی ہے۔ یعنی وہ کیسز جن میں پیسوں،پراپرٹی وغیرہ کا دعویٰ کیا گیا ہو۔ فوجداری مقدمات میں کورٹ فیس نہیں لگتی۔ صرف چند روپے کے ٹکٹس۔ یا رٹ پٹیشن میں 500 روپے کا اسٹامپ پیپر۔
اپنے حقوق سے متعلق آگاہی رکھیے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...