عدل کے روحانی تقاضے ۔
امریکہ کی سپریم کورٹ کہ سینیر ترین جج اینتھونی کینیڈی نے ۸۱ سال کی عمر میں ہچھلے ہفتے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ۔ انہیں جج صدر ریگن نے لگایا تھا ، ویسے تو جج تاحیات رہ سکتا ہے ، جب تک کہ اس میں جسمانی اور زہنی صلاحیت قائم رہے ۔ کینیڈی کو غالبا امیگریشن کہ کیس میں سپریم کورٹ کہ فیصلہ پر بہت دُکھ تھا ۔ اس کہ خیال میں ایک خاص نسل کو نشانہ بنایا گیا ۔ اور اس کا Liberty کا فلسفہ شکست کھا گیا ۔
کینیڈی کی اصلی مشہوری بھی یہ فلسفہ ہے ۔ ۱۹۹۲ کہ ایک planned parenthood کہ فیصلہ میں اس نے اس فلسفہ کی وضاحت کی ۔ ایک کیس ریاست Pa vs Casey میں ہر دفعہ کی طرح ، abortion کا نازک مسئلہ اُٹھایا گیا تھا ۔ کینیڈی نے اس فیصلے میں عدل کو ایک نیا زاویہ دیا ، سوچنے کا ، فیصلہ کرنے کا اور انصاف کا ۔ انگریزی کہ ۲۸ لفظوں میں کینیڈی نے mystery of life کے نام سے زندگی کی تشریح کر کچھ یوں کی ۔
At the heart of liberty is the right to define one's own concept of existence, of meaning, of the universe, and of the
mystery of human life
اس پیراگراف نے پورے امریکہ میں تہلکہ مچا دیا کہ جج فلسفہ ، روحانیت اور اور metaphysics پر انحصار کر کہ فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ کینیڈی اور باقی کئ جج اکثر اپنے فیصلوں میں شاعری ، شیکسپیر اور شیلے کو تو quote کرتے تھے لیکن اتنی کھُل کر spinozian metaphysics پر بات نہیں کرتے تھے ۔
کینیڈی اس دن جیت گیا ، امریکہ جیت گیا اور آنے والی نسلیں جیت گئیں ۔ یہاں پاکستان میں طلعت حسین فرما رہے تھے کہ جج کا ادب اور فلسفہ سے کیا کام ۔ اور نواز شریف کی والدہ اگلے دن کہ رہی تھیں کہ جج نے کہا کِہ جرم تو ثابت نہیں ہوا تو سزا کیسی ؟ ہم اندھوں اور جاہلوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں باوجود اس ہستی ص کہ اُمتی ہوتے ہوئے ، جسے مغرب دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا lawgiver مانتی ہے ۔ اور انہی پر آیت نازل ہوتی ہے ۔
اعدلُ ھُوا اقربُ لِتقوی
جو لاہور ہائیکورٹ نے اپنے لوگو پر تو لگا لی سجا لی ، لیکن مجال ہے جج اس پر عمل کریں ۔
قانون کو موم کی ناک کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ
All Law is common sense
اس کی وجہ یہ ہے کہ فیصلہ کی بنیاد دراصل حقائق ، شواہد اور قانون ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک قدرت کا انسان میں inbuilt انصاف کا عنصر ہوتا ہے ، جسے ضمیر ، فلسفہ یا روحانیت یا جو سمجھ میں آئے کہ لیں ۔ یہ چوری پر چور کی بجائے خلیفہ کو غربت نہ ختم کرنے کہ الزام میں جیل ڈال دیتا ہے ۔ بی بی شریف کو کیا پتہ اس کہ بیٹے کی حکمرانی کہ گند کی وجہ سے کتنے لاکھوں کروڑوں لوگ بھوکے سوتے ہیں ۔
سپریم کورٹ کہ چیف جسٹس کا کام ڈیم کے لیے چندہ اکٹھا کرنا یا قرضہ اُتارنا نہیں بلکلہ معاشرہ کو بلا امتیاز انصاف فراہم کرنا ہے اور ان غنڈوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ۔ جنہوں نے ماں دھرتی کو بیچا ، لُوٹا اور رُسوا کیا ۔
چندہ خودبخود اکٹھا ہو جائے گا ۔ آپ جناب صرف صفائ ستھرائ کریں ۔جہاں بھی ڈکٹیٹر آئے ، مصر ، ترکی اور فلپائن ، سب سے پہلے ان ججوں سے جان چھڑوائ جو مکھی پر مکھی مار رہے تھے اور ملزم کو آخری حد تک قانون کی ڈارلنگ کہ کر بچا رہے تھے ۔ طالبان کیوں کامیاب ہوئے تھے ؟ ایک دفعہ میں فرانس سے سوات کہ والی کا انٹرویو سن رہا تھا وہ کہ رہا تھا کہ مُلا فضل انصاف کی بات کر رہا ہے ہم بھی جرگہ سے انصاف دیتے تھے ، لوگ تب پیار کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔
اسی لیے عمران نے ۱۹۹۶ میں اپنی جماعت کا نام تحریک انصاف رکھا ۔ کل مجھے Time میگزین میں اسے جسٹس پارٹی ترجمہ دیکھ کر خوشی ہوئ ۔ گو کہ میگزین کہ نزدیک سابقہ کرکٹ کا ہیرو اور پلے بوائے ، پاک فوج کی مدد سے ملک کا اگلا سربراہ بننے جا رہا ہے ۔ میرے خیال میں یہ قدرت کا تحفہ ہے کہ آخر فوج اس کو لانے میں مان گئ اور میگزین نے یہ بھی لکھا کہ اس کہ پاس volcano of supporters ہے سوشل میڈیا پر ، بہت اچھا ، خوشی ہوئ ۔ ڈٹرٹے کو بھی فیس بُک نے جتایا تھا ۔ کیا عمران پاکستان کا ڈُٹرٹے یا امریکہ کا ٹرمپ ثابت ہو گا ؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ لیکن اب اُس کو اقتدار میں آنے سے صرف مارشل لاء ہی روک سکتا ہے جو فلاسفر باجوہ کہ ہوتے ہوئے ناممکن نظر آ رہا ہے ۔
آؤ مل کر سرکشی کریں ۔ فلم زرقا کا ایک گانا یاد آتا ہے :
آج قاتل کی یہ مرضی ہے کہ سرکش لڑکی
سرِ مقتل تجھے کوڑوں سے نچایا جائے
موت کا رقص زمانے کو دکھایا جائے
اس طرح ظلم کو نذرانہ دیا جاتا ہے
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
دیکھ فریاد نہ کر، سر نہ جھکا، پائوں اُٹھا
کل کو جو لوگ کریں گے تو ابھی سے کر جا
ناچتے ناچتے آزادی کی خاطر مر جا
منزل ِعشق میں، مر مرکے جیاجاتا ہے
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
اور فلم امن میں مہدی حسن ۔
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے ؟ تم ہی کہو
اے شامِ غم بتا کہ سحر کتنی دورہے
آنسو نہیں جہاں، وہ نگری کتنی دور ہے
اور ملکہ ترنم نور جہاں ۔
کیوں کہیں یہ ستم، آسماں نے کئے
آسماں سے ہمیں کچھ شکایت نہیں
چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی
چھین لیتے ہیں جب چاہتے ہیں خوشی
ان لوگوں سے ہمارا مقابلہ ہے ، انصاف کا ، اپنے حقوق کا ، اپنی آزادی کا ، دھرتی کہ رقص کا اور ستاروں تک پہنچنے کا ۔ پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔