اداکارہ شبنم زیادتی کیس
صدر ضیاالحق کے زمانے مین اداکارہ شبنم کے گھر ڈکیتی کا بڑا مشہور واقعہ ہوا تھا جس میں بڑے بڑے جاگیرداروں زمینداروں کے بیٹے ملزم تھے انھوں نے شبنم کے شوہر روبن گھوش کو رسیوں سے باندھ کر اس کے سامنے "ڈکیتی "کی واردات کی تھی ۔ ملزمان کے اوپر مقدمہ چلایا گیا ان سب کو پھانسی کی سزا ہوئی کیونکہ وہ بڑے گھرانوں کے چشم و چراغ تھے ،ان پھانسی کی سزا پانے والوں میں آج PTI میں شامل ہونے والے فاروق بندیال بھی شامل تھے۔ کیونکہ سب بڑے گھرانوں کے بگڑے لاڈلے تھے اس لیے جنرل ضیاء پر بہت زبردست دباؤ ڈالا گیا کے ان کی رحم کی اپیل منظور کرلی جائے ضیاء صاحب نے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور یہ کہا کے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ اگر معاف کردے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔چنانچہ ان مجرمان کے گھر والوں نے اداکارہ شبنم سے رابطہ کیا اور ان کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ ان مجرموں کو معاف کردیں ،اداکارہ شبنم نے نہ صرف انھیں معاف کیا بلکہ یہ خبر میں نے خود پرانے اخبار مشرق میں پڑھی تھی انھوں نے تما م مجرمان کو تفہیم القران کے سیٹس تحفے میں بھیجے تھے ۔
لیکن اصل
تفصیلات کے مطابق 80 کی دھائی میں ایک رات اچانک مشہور فلم سٹار شبنم گھوش کے گھر شراب کے نشے میں چور کچھ بگڑے رئیس زادوں نے حملہ کر دیا. انہوں نے گھر میں گھس کر شبنم کے شوہر اور بیٹے کو باندھ دیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے شبنم کا گینگ ریپ کرنے کے بعد فرار ہو گئے۔ ان اوباش نوجوانوں میں بیوروکریٹس کی بگڑی ہوئی اولادوں کے علاوہ چیف سیکریٹری پنجاب, اے کے بندیال کا بھانجہ فاروق بندیال بھی شامل تھا.
کیونکہ بااثر شخصیات کی اولادیں اس جرم میں ملوث تھیں اس لیئے مارشل لاء کنٹرولڈ اخبارات کے زریعے خبر دبا لی گئی اور پولیس پر دباؤ ڈال کر ریپ کی بجائے ڈکیتی کا پرچہ کاٹا گیا۔
ایک دوست نے کمنٹس میں کچھ لکھا ہے جس کا اضافہ کر رہا ہوں۔
آپ نے شاید ضیا حکومت کے خاتمہ کے بعد اصل حقائق نہیں پڑھے کے شبنم صاحبہ کے بیٹے کو اغوا کر کے ان سے زبردستی صلح نامہ پر دستخط لیے گے
ورنہ شبنم اور روبن گھوش اگر اتنا ہی معافی پر راضی ہو جانے والے ہوتے تو یہ مقدمہ دبایا جا سکتا تھا انہوں نے با قاعدہ کیس رجسٹرڈ کروایا اور بعد میں انکو اتنا مجبور کیا گیا کے وہ معافی پر آمادہ ہو گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔