11فروری 1965 کو افروایشیائی سیمینار کے مندوبین کیلئے لاہور میں سرکاری طور پرایک ثقافتی شو کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے منتظم، اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نےنیلو کو شو میں رقص کرنے کیلئے کہا۔ اس نے انکار کیا تو گالیاں دیں اورڈرایا دھمکایا ۔ اس بے عزتی پر نیلو نے بڑی مقدار میں خواب آور گولیاں کھالیں۔ بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں ڈاکٹر کئی دن کی کوششوں سے نیلو کی جان بچانے میں کامیاب رہے ۔
فلمی صنعت نے اس واقعہ پر احتجاجاََ ایک دن کی ہڑتال کی۔ حبیب جالب نے نظم ’’نیلو‘‘ لکھی۔ جس کا پہلا بند یہ تھا ۔۔۔
توکہ ناواقفِ آدابِ شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھہ کو انکار کی جرأت ہوئی تو کیونکر
سایۂ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے؟
مشہور رائٹر، ڈائریکٹر اور فلم ساز ریاض شاہد نے نیلو کی جرأت اور عزتِ نفس کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا کہ اسے شادی کی پیشکش کر دی، اور وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
ریاض شاہد نے 1969 میں فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی پر اپنی مشہور فلم ’’زرقا‘‘ بنائی۔ زرقا کا مرکزی کردار نیلو نے ادا کیا۔
فلم کو فلسطینیوں کی تنظیم ’’الفتح‘‘ نے بہت سراہا۔ 21 اکتوبر 1969 کو کراچی میں ایک تقریب ہوئی، جس میں ’’الفتح‘‘ کے نمائیندےخالد الشیخ نے ریاض شاہد کو یہ فلم بنانے پرمبارکباد دی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔
ریاض شاہد نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کیلئےفلم کی نمائش کے حقوق الفتح کو دے دئیے اور کہا کہ اس کی آمدنی جدوجہدِ آزادی میں صرف کی جائے۔
اس موقع پر نیلو نےفلمی زندگی سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ زرقا ان کی زندگی کا عظیم ترین کردار تھا، اس کے بعد وہ عام فلمی کردار ادا کرنا پسند نہیں کریں گی۔
لیک ریاض شاہد کی موت کے بعد معاشی ضرورتوں نے انہیں اس عہد پر قائم نہ رہنے دیا،اور انہیں پھر کچھہ عرصے کیلئے فلموں میں آنا پڑا۔ (پاکستان کرونیکل)
“