ایسے تو بے شمار واقعات ہیں کہ کسی خاتون نے طلاق لینے کیلئے جو وکیل کیا ، مقدمہ جیت کر اسی سے شادی کرلی لیکن ایک اداکارہ نے فیصلہ دینے والے جج سے بھی شادی کی۔
یہ اداکارہ نمو تھی ۔ جج جاوید دستگیر مرزا ، نمو کے دُکھوں ( اور حُسن ) سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسے شادی کی پیشکش کردی، جو کافی غور کے بعد اس نے قبول کرلی اور پھر بہت کم فلموں میں آئی۔
نمو جس کا اصل نام نورین تھا، بھارتی اداکار ونود کھنہ اور پاکستانی اداکار عابد بٹ کی بہن تھی۔ اس کے والد اداکار اور مصنف شہزادہ محمود متحدہ ہندوستان میں راج پال کے نام سے جانے جاتے تھے ۔
انہوں نے پہلی شادی ایک ہندو عورت سے کی، جن کے بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا ونود کھنہ کے نام سے بڑا فلم اسٹار بنا۔ پاکستان بننے کے بعد شہزادہ محمود یہاں آگئے۔ کچھ عرصے بعدان کی بیوی ان کو چھوڑ کر بھارت چلی گئی ۔ لاہور میں انہوں نے دوسری شادی کی ، جس سے نِمو اور اس کے دو بھائی پیدا ہوئے۔ معروف ڈراما آرٹسٹ عابد بٹ نِمو کے بڑے بھائی تھے۔ نمو کی اپنے بھائی ونود کھنہ سے خط کتابت رہتی تھی۔ نِمو نے آئینہ، چاہت، ننھا فرشتہ، فرض اور مامتا، شیریں فرہاد، نیک پروین، موم کی گڑیا، انوکھی، سنگم، پیار کا وعدہ، دل کے داغ، آواز، قربانی، دو دل، آنگن، آب حیات، حشر نشر، کل کل میرا ناں، ڈنکا، دادا، انتقام دی اگ، خون دا دریا، شرابی، بابل صدقے تیرے، ہتھکڑی، بلونت کور، واردت، فراڈ، چور سپاہی، نظام ڈاکو، دو طوفان، دونشان، نوکرتے مالک، ماں پتر، پکار، پتر شاہیئے دا، میڈم باوری، اچھو 302، سمیت 113 فلموں میں کام کیا، 2003ء میں بننے والی فوجا امرتسریا اس کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ نِمو نے چند پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔
انہوں نے بتایا میرے والدین نے میری شادی ایک ایسے شخص سے کردی تھی، جس نے مجھے بہت تکلیفیں دیں، وہ ایک خود غرض، لالچی شخص تھا، جو فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو جاکر تنگ کرتا۔ ایک بار اس لالچی شخص نے 55 ہزار روپوں کی خاطر مجھے زہر دے کر مارنے کی بھی کوشش کی۔ جس پر بذریعہ عدالت طلاق حاصل کرنا پڑی۔ نمو نے 16؍ دسمبر 2010ء کو لاہور میں وفات پائی۔
ملک اسلم