ادکارہ میرا اور عمران خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا بھر کی فلم ٹی وی اور فیشن سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے کوئی نہ کوئی اسیکنڈل سامنے آتے رہتے ہیں ایلزبتھ ٹیلر ، نورجیاں ، صوفیہ لوریں ، رچرڈ برٹین ، اداکار شاہد ، ریکھا ، امیتابھہ بچن ،اور اس شعبہ سے تعلق رکھنے والی اور بہت سے شضصیات کا کوئی نہ کوئی اسیکنڈل اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں بعض کے مطعلق تو کتابیں تک لکھی گئی ہیں ،
ان اسیکنڈلوں کی زد میں آنے والے تو کچھ ایسے بھی ہیں جو خود ہی اپنے مطعلق اسکینڈل پیدا کرتے ہیں خاص طور جیسے ہی وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی فلمیں ناکام ہو رہیں اور وہ مارکیٹ سے دور ہو رہے ہیں تو وہ اپنے مطعلق کوئی نہ کوئی جھوٹی سچھی خبر اپن ے بھروسے کے صحا فیوں کے ذریعے خبر لیک کر کے اخبارات کی زینت بننے ریتے ہیں ۔
اصل میں پبلسیٹی ایک ایسا نشہ ہے کہ جس کو اس کی لت ہڑ جائے پھر وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔ ،جب لوگ چائے خانوں پبوں اور گھروں میں لحافوں میں بیٹھے ان شخصیات کے متعلق گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو ایک ان دیکھے راستوں سے یہ تمام گفتگو ان شخصیات تک پینچ رہی ہوتی ہیں اور ان کی روح اور ان کے جسموں کو ویسی ہی تسکیں ملتی ہے جیسے ایک نشیی کو نشہ کرنے سے ملتی ہے ، یہ ضروری نہیں کہ ان کو تسکیں صرف اسی صورت میں ملتی ہے جب لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں ۔۔ حتاکہ اگر کوئی ان کو اپنی گفتگو میں بُرے الفاظ حتاکہ گالیاں بھی استعمال کرے تو بھی ان پبلبسیٹی کی نشیوں کو تسکیں مل رہی ہوتی ہے ،، ان کا اصل مقصد کسی نہ کسی حوالےسے لوگوں میں خود کو زندہ رکھنا ہوتا ہے ۔ جب یہ اپنے فن کی بلدیوں پہ ہوتے تو اخبارات اور کیمرہ ان کے ایک ایک لمحے کو اپنے اندر قید کرکے لوگوں کو دیکھا رہا ہوتا ہے تو اسی دور میں نا محسوس طریقے سے یہ لوگ اس پبلسیٹی کے نشے میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتے ہیں ،، مگر جسے ہی اپنے کام کی وجہ سے یا مارکیٹ میں کسی نئے ستارے کے آنے کی وجہ کیمرہ کی آنکھ ان سے دور ہٹتی ہے تو ان کا بدن ٹوٹنے لگتا ہے خاص طور پہ ان کی شامیں اور راتیں جب بے رنگ ہونے لگتی ہیں تو یہ لوگ دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں ایسے ہی موقعوں پہ لوگ لوگوں میں خود کو زندہ رکھنے کے لیہے اپنے متعلق کوئی نہ کوئی جھوٹی سچھی خبر لیک کرے اخبارات اور ٹی وی کا پیٹ بھر کے اپنا نشہ پورا کرتے ہیں
موجودہ دور میں اداکارہ میرا کے بارے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خود ہی اپنے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل آحبارات اور ٹی وی والوں کو مہیا کرتی رہتی ہے تا کہ مارکیٹ میں زندہ رہے
پبلیٹی کےنشے میں صرف ٹی وی اور فلم سے وابستہ شخصیات ہی مبتلا نہیں ہیں ان میں سیاسی مذہبی اور بعض ادبی شخصیات بھی مبتلا ہیں
لائل پور شہر میں ایک سماجی کارکن مولوی فقیر حسین تھے جو ہر روز کسی نہ کسی مسئلے پہ اپنی ایک پریس رلیز بمع اپنی فوٹو کے شام کو آخبارات کے دفترلے کر آتے تھےاور اخبارات کے مالکان کو پیسے دے کراپنی پریس رلیز چھپواتے تھے ۔۔ مالکان کا حکم تھا کہ مولوی فقیر حسین کی خبر ضرور لگنی چاہیے جب ضیا آمر نے اخبارات پہ سنسر لگا دی تو مولوی فقیر حسین ایک دن ایک خبر لے کر میرے پاس آئے میں نے کہا جناب اخبارات پہ سنسر ہے پہلے یہ خبر فوجیوں کے پاس جائے گی اگر انھوں نے اوکے کر دیا تو آپ کی خبر لگ جائے گی وگرنہ نہیں۔۔۔ تو پتہ ہے انھوں نے کیا کہا ،، مسعود میری فوٹو اور میرا نام صبح کئے اخبار میں ضرور آنا چاہیے چاہے تم خبر کی بجائے یہ اشتہار میرے نام سے لگا دو کہ مجھے ایک بکرا ملا ہے جس کا ہو وہ شناخت بتا کر مولوٰی فقیر حسین سے آکر لے جائے،،
عمراں خان صاحب نے جب سے لاہور میں کامیاب جلسہ کیا اُس وقت سے لے کر آج تک کوئی ایسا دن اور رات نہیں جب وہ بمع اپنی فوٹو کے اخبارات اور ٹی وہ کے کیمروں کی زینت نہ بنے ہوں کیمروں نے اس وقت سے لے ان کے ہر ہر لمحے کو نشر کیا ہے چاہے یہ کنٹینر پہ تقریر کر رہے ہیں چاہے کنیٹینر کے اندر ناشتہ کر رہے ہوں کنٹینر کے اندر ، سو رہے ہوں یاکنٹینر سے چوری چوری گھر جا کر سو رہے ہوں ،اب وہ اس پبلسیٹی نشے کے عادی ہو چکے ہیں ۔۔ وہ ہر وقت ایک نشے کی کفیت میں مبتلا نظر آرہے ہیں ۔۔۔ وہ جب دیکھتےہیں کہ احبار یا کیمرہ ذرا ان کی طرف توجہ نہیں دے رہا تو وہ کوئی نہ کوئی ایسا اعلان یا کسی نئے اعلان کی تاریخ کی خبر دیتے ہیں کہ کیمرہ پھر ان کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔۔۔
سول نافرمانی کا اعلان ، پارلمینٹ کی طرف پیشقدمی اور ناکام ہوتے دھرنوں کے دیکھ کر شہر شہر جلسے کرنا بھی اصل میں اسی نشے کو پورا کرنے کا بہانہ تھا ، اس نشے کو پورا کرنے کے لیے کبھی بجلی کے بلوں کو آگ لگانا( گو اندر کھاتے بل ادا کر دئیے گے تھے ) اور کبھی کنٹینر پہ کھڑے ہو کےدوسری شادی کرنے کی خواہش کااظہار کرنا اصل میں اس پبلسیٹی کے نشے کو پورا کرنے کی کوشش ہے
سانحہ پشاور کے بعد عمراں خاں صاحب کے لیے دھرنہ جاری رکھنا مشکل ہو گیا تھا مگر جیسے ہی دھرنہ ختم ہوا تو عمراں خاں صاحب نے محسوس کیا یہ کیمرہ اور احبار اب ان کی طرف اُس طریعقے سے توجہ نہیں دے رہے جیسے پہلے دے رہا تھا عمراں خاں نے اپنے اس پبلسیٹی نشہ کو کیسے پورا کیا ملاحظہ فرمائیں
ہر انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ جس قسم کی زندگی گزارنا چاہے گزارے ، خان صاحب نے کنٹینر پہ دوسری شادی کر نے کی خواہش کرت دیا تو یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے کسی کو اس پہ اعتراض نہین ہونا چاہیے مگر یہ شادی بھی سکینڈل کی صورت سامنے آئی مگر عمران خان کیا کریں کیا کریں وہ اس پبلسیٹی کے نشے کے ہاتھوں خود ہی اس مسئلے کو اتنا اُلجھا دیا کہ پھر ہر وقت اس شادی کے بارے کوئی نہ کوئی متضاد خبریں سامنے آتی رہتی ہیں اور عمران خاں صاحب ان خبروں کو جاری رکھنے کے لیے یہ تو کسی خبر کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تردید۔۔۔ اخبارات کا پیٹ بھی بھر رہا ہے ٹی وی والے بھی مسالے بھر بھر کر نشر کر کے اپنے ناظریں کی تعداد میں اضافہ کرتے جاتے ہیں اور عمراں خاں ساحب کا بھی نشہ پورا ہوتا رہتا ہے
اب جیسے ہی لوگ نوز شریف کے جلسوں کی رونق میں بڑھاتے نظر آئے عمران خاں صاحب کی تیسری شادی کی خبر لیک ہو گئی ۔ اس دفعہ بھی وہ نہ انکار کر رہے ہیں ن ہ اقرار ،، نکاح خوان ب ھی وہی ہے دوسری شادی کے نکاح کے متعلق نہ انکار رہا ہے نہ اقرار ، مگر اس دفعہ پارٹی کو مداخلت کرنی پڑی اور پارٹی لیٹر پیڈ پہ لکھ کر وضاحت کی ابھی شادی ہوئی نہیں اب ھی پیخا م بیھجا ہے
عنران خان نے کہا تھا کہ وہ نئے پا کستان میں شادی کریں گئے مگر جیسا کہ وہ یو ٹرن لینے کے ماہر ہیں انھوں نے اس بات پہ بھی یو ٹرن لیتے ہوئے اسی پرانے پاکستان میں تیسری شادی کرنے اعلان کر دیا ہے ۔ پبلسیٹی کا نشہ حاصل کرنے میں اداکاراہ میرا اور عمران خاں صاحب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں
بہر حال میری خواہش ہےعمراں خان صاحب کو یہ نئی شادی ان کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔