اداکارندیم اور شبنم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ یادیں کچھ باتیں :
چند دن قبل اداکارندیم اورشبنم کی گروپ پکچر دیکھی تو دل دھک سے رہ گیا ۔ وقت کتنا سنگدل ہے۔ کتنی بے رحمی سے دونوں کے چہروں پر اپنے سفاک نشان ثبت کرگیا۔ جب میں سکول میں تھا پھر کالج یونیورسٹی کے دور تک ان کی فلمیں چل رہی تھیں ۔ اگرچہ یہ فلم انڈسٹری میں ان کا آخری آخر ی دور تھا لیکن اس وقت یہ دونوں سٹارز جوان و خوبصورت تھے۔ قدرتی طور پر میرے زہن میں ان کا اب تک وہی امیج برقرار تھا جو نئی تصویردیکھ کر ریزہ ریزہ ہوگیا ۔
میں نے سکول ٹائم میں شبنم ندیم کی فلم آئینہ تین چار بار دیکھی تھی۔ دور ہی ایسا تھا ، ٹین ایجر جوتھا۔ کراچی مین بمبینو سینما ہی میں لیرک سینما بھی ہے جہاں چار سال تک فلم آئینہ زیرنمایش رہی ۔ بمبینو وہی سینما ہے جو زرداری خاندان کی ملکیت تھا لیکن اب کسی اور کی ملکیت ہے ۔ حاکم علی زرداری کو یہ سینما جہیز میں ملا تھا جو ان کی نئی بیگم آفندی فیملی سے ساتھ لائی تھی۔
اس زمانے میں مجھے انگلش ناول اور گانوں کا بہت شوقین تھا ۔ اداکارہ بروک شیلڈ میری پسندیدہ تھی۔ ہیرلڈ رابنز کے ناول Never love a stranger نے مجھے بہت متاثر کیا اور پھر میں نے اس کے تمام ناول پڑھ ڈالے اور فلمیں بھی دیکھ ڈالیں ۔
میں نے میٹرک کے زمانے ہی میں انگلش ناول پڑھنے شروع کردیئے تھے۔ موپساں ، سمرسٹ ماہم ، او ہنری، اگاتھا کرسٹی ۔ شرلاک ہومزاور دیگر اسی زمانے کے پڑھے ہوئے ہیں ۔
اداکارہ بروک شیلڈز کا پوسٹر میں نے اپنے کمرے کے دروازے پر لگا رکھا تھا ۔ ایک پاکستانی ماڈل ہوتی تھی انیتا ایوب ۔ اس کا ہر طرف شہرہ تھا۔ میں بھی شام کو پڑھائی سے فارغ ہوکرسب کی طرح پی ٹی وی دیکھا کرتا تھا ۔ ایک پروگرام میں انیتاایوب کو مدعو کیا گیا ( شاید طارق عزیز تھا ) سوال تھا لوگ آپ کو بروک شیلڈ سے تشبیہہ دیتے ہیں تو انیتا ایوب نے جاہلانہ دیسی انداز سے جواب دیا ۔
ارے وہ بے چاری میری کیا مقابلہ کرے گی بس اس دن کے بعد سے مجھے انیتا ایوب سے نفرت ہوگئی۔
فرسٹ ائیر کے زمانے میں ہم چار دوست قریبی تھے ، ایک اسماعیلی ، ایک میمن اور ایک اردو سپیکنگ تھا۔ ہم چاروں نایاب سینما ناظم آباد کراچی میں ایک انگلش ویسٹرن ( کاؤ بوائے ) فلم دیکھنے گئے ۔ نام تھا اس کا بلائنڈ مین blind man ۔ بہت پرانی فلم تھی لیکن دوبارہ لگائی گئی تھی ، مجھے انگلش فلموں کا شوق تھا ۔ اس فلم کے ہیرو کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اندھا ہونے کے باوجود صرف آواز پر فائر کرتا تھا اور دشمن کو ہلاک کردیتا تھا۔ اکیلا بلائنڈ مین وایلڈ امریکن ویسٹ میں پورے گروہ سے ٹکرا جاتا ہے ۔
ایک ویران ٹاؤن کی سرائے میں بلاینڈ مین اکیلا ٹھہرا ہوتا ہے تو ایک عورت اس کے کمرے میں آتی ہے ۔ اس کو نہہں پتہ ہوتا کہ ہیرو اندھا ہے وہ الف ننگی ہوجاتی ہے۔ اس کا بھرپور بدن دیکھ کر ہماری سانسیں رک جاتی ہیں ، مجھے یوں لگا کہ میرے جسم پر چیونٹیاں دوڑ رہی ہوں ، پورا ہال ساکت تھا۔ میرا کوئی دوست کافی دیر تک نہ بول سکا،سب کی سانسیں رکی ہوئی تھیں ۔
پاکستان میں میرے کالچ کے دور میں ہر طرف کرکٹ کا کریز تھا ۔ سارا دن لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ۔ مجھے کرکٹ کا کبھی شوق نہہں رہا بلکہ مجھے کبھی اس کی سمجھ بھی نہیں آئی ۔ میرے دوست کے گھر عمران خا ن کا ایک بڑا پورٹریٹ لگا ہواتھا ۔ میں نے اس سے پوچھا ۔ یہ کون ہے ؟
اس نے بتایا کہ یہ عمران خان ہے ۔ کرکٹر ہے۔
میری چاچی میرے بارے مین کہا کرتی تھیں کہ ، ایہ منڈا گلھاں روس امریکا دیاں کردا ہے اور سامنے دی گلھ دا ایس نوں پتہ نہیں ہندا کہ کتھے جانا ہے ۔
میری نوجوانی مین کتنی ہی دنیا مجھ میں دلچسپی رکھتی تھی ۔ متاثر تھی ۔ کتنی ہی شرمیلی نگاہیں تھیں جو میری طرف اٹھتی تھیں اور جھک جاتی تھیں لیکن میں اپنے ہی نظریات کی دنیا میں گم رہا ۔
گولڈ لیف کے سگریٹ کے کش ، انگلش ناول پڑھنا اور ایک زمانے کو اپنے سے متاثر کرنا سب یاد آتا ہے ۔
اس وقت پنکج ادھاس اور جگجیت سنگھ کی غزلیں بہت اچھی لگتی تھیں ۔ جگجیت کی ایک غزل بہت مشہور تھی۔
میرا گیت امر کردو ، سنگیت امر کردو
یاد ہے کہ میں نے کیسٹ پر خاص طور پر یہ ریکارڈ کروائی تھی اور خاص بات یہ کہ کیسٹ شروع ہوتو یہ غزل جب ختم ہو تو یہ غزل جب سائڈ پلٹٰی جائے تو یہ غزل اور جب آخر ہو تو یہ غزل ۔
اس وقت یوں لگتا تھا کہ ہر چیز یوں ہی رہے گی ۔ میں یوں ہی ٹین ایجر رہوں گا۔ سب کچھ یوں ہی رہے گا ۔ یہی دوست ہوں گے۔ یہی لڑکپن ہوگا۔ یہی شہر ، گلیاں محلہ ، ماں باپ بہن بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وقت نے اب ہر چیز سے فاصلہ کردیا ہے ۔ ہر چیز پر اپنی مہر ثبت کردی ہے ۔ پچیس تیس سال بعد شاید ہم نہ بھی ہوں ۔
سب کہانی رہ جائے گی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔