فلمی دنیا میں اداکاروں کا اپنے پروڈکشن ہاﺅس بنانا کوئی نئی بات نہیں ۔ بالی ووڈ کی بات کریں تو راج کپور کی ’ آر کے فلمز ‘ ، ششی کپور کی ’فلم والاز ‘،عامر خان کی ’ اے کے پروڈکشنز ‘ اور راکیش روشن کی ’ فلم کرافٹ پروڈکشنز‘ ایسے ہی چند نام ہیں ۔ شاہ رخ خان نے بھی اپنا پروڈکشن ہاﺅس ' لال مرچی انٹر ٹینمنٹ ' (Red Chillies Entertainment) کے نام سے بنا رکھا ہے ۔ یہ 2002ء میں اس نے اپنی بیوی گوری خان کے ساتھ مل کر بنایا تھا ۔ یہ ’ ڈریمز اَن لمیٹڈ ‘ کے نام سے پہلے موجود کمپنی کی نئی شکل ہے جو 1980 کی دہائی کے اوائل سے ہی موجود تھی اور جس کی پہلی فلم ’ ارجن ‘ 1985ء میں سامنے آئی تھی ۔ ’ لال مرچی انٹر ٹینمنٹ ‘ کے نام سے البتہ اس پروڈکشن کمپنی کی پہلی فلم ’ میں ہوں نا ‘ تھی جسے فارہ خان کُنڈر نے ڈائریکٹ کیا تھا اور گوری خان اس کی پروڈیوسر تھی ۔ تب سے 2016 ء تک اس بینر تلے چودہ فلمیں سامنے آ چکی ہیں ۔ ان میں سے گیارہ میں شاہ رخ خان نے خود اداکاری کی تھی ۔2017ء میں ’ لال مرچی انٹرٹینمنٹ ‘ نے ’ ایکسل انٹرٹینمنٹ‘ کے ساتھ مل کر ’ رئیس‘ کو 25 جنوری کو ریلیز کیا ہے ۔ اسی روز
’ فلم کرافٹ پروڈکشنز‘ کی فلم ’ قابل‘ بھی سینماﺅں کی زینت بنی ۔
’ قابل‘ کو راکیش روشن نے پروڈیوس کیا ہے اور اسے سنجے مسوم اور وجے کمار مشرا نے لکھا ہے ۔ سنجے گپتا کی ہدایت کاری میں اس کے مرکزی کردا ر رہتک روشن اور یمی گوتم نے ادا کئے ہیں ۔ فلم کی موسیقی راجیش روش کی ہے جبکہ فلم کے گیت ناصر فراز کے علاوہ اور بھی لوگوں کے لکھے ہوئے ہیں ۔ سینماٹوگرافی ’ سندیپ ‘ اور ’ آیانانکا بوس ‘ کی ہے جبکہ تدوین کار’ آکیو علی‘ ہے ۔ یہ فلم 35 کروڑ انڈین روپے سے تیار ہوئی ۔ ’ دل سب دیکھتا ہے ‘ کے نعرے کے ساتھ بنی یہ فلم ایک بینائی سے معذور لڑکے کی ایک اندھی لڑکی سے محبت کے موضوع پر بنائی گئی ہے ۔ ٹائمز آف انڈیا کی ’ مینا آئر‘ کے مطابق یہ فلم ہالی ووڈ کی 1989 ء کی فلم ’ Blind Fury ' اور 2014ء کی کورین فلم ’ Broken ‘ سے ماخوذ ہے ۔
’رئیس ‘ میں شاہ رخ خان ، مائرہ خان اور نواز الدین صدیقی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ اس کی ہدایت کاری کے فرائض ’ راہول ڈھولاکیا ‘ نے انجام دئیے ہیں اور فلم کے پروڈیوسروں میں’ رتیش سدھوانی‘ ،’ فرہان اختر‘ اور ’گوری خان‘ ہیں ۔ اس کی کہانی ، سکرپٹ اور مکالمے راہول ڈھولاکیا کے علاوہ ہرت مہتا ، اشیش واشی اور نیراج شکلا کی مشترکہ کاوش ہے ۔ اس کی موسیقی ’ ریم سیمپت‘ نے ترتیب دی ہے جبکہ گیت کاری میں جاوید اختر کے علاوہ امیتابھ بھٹاچاریہ ، مایور پوری ، منوج یادیو ، ہیرل برہم بھاٹ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ اندیور کے ایک گیت اورایک لوک گیت سے بھی استفادہ حاصل کیا گیا ہے ۔ فلم کی عکاسی ’ کے۔ یو موہنن ‘ اور تدوین ’ دیپا بھاٹیہ‘ نے کی ہے ۔ رئیس 65 کروڑ انڈین روپے کی لاگت سے بنی اور میرے یہ لکھنے کے وقت تک یہ سو کروڑ کا بزنس کر چکی ہے ۔
جو لوگ انڈیا میں ’ شراب ‘ پر پابندی کی تاریخ سے وقف ہیں انہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ انڈیا کے آئین کی شق نمبر 47 کے تحت صوبے/ ریاستیں ایسے اقدامات کرنے کی پابند ہیں جن سے طبی مقاصد کے علاوہ نشہ آور مائع جات اور ادویات جو مضر صحت ہوں ، کی روک تھام کی جا سکے ۔ اسی کے تحت آج کے انڈیا کی ریاستوں منی پور ، ناگا لینڈ ، بہار ، کیرالا اور گجرات میں شراب پر پابندی ہے جبکہ دیگر ریاستوں / صوبوں میں ایسا نہیں ہے ۔ تاریخ میں انڈیا کی آزادی کے اولین سالوں کی طرف نظر ڈالیں تو’ بمبئی پریذیڈنسی ‘ ( جس میں برودا ، مغربی انڈیا اور گجرات شامل تھے ) میں ’ بمبئی پروہیبیشن ایکٹ 1949ء (The Bombay Prohibition Act, 1949) لاگو تھا ۔ 1960ء میں جب یہ پریذیڈنسی مہاراشٹر اورگجرات میں تقسیم ہوئی تو یہ قانون دونوں ریاستوں میں لاگو رہا ۔ مہاراشٹر میں البتہ شراب کے لائسنس جاری کرنے میں اِس کی حکومتیں خاصی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی رہیں ہیں ۔ اس کے برعکس گجرات میں اس قانون کو گجرات ترمیمی بل 2009ء کے تحت اور سخت کر دیا گیا تھا اور زہریلی شراب تیار کرنے والوں کو موت کی سزا کا حقدار ٹہرا دیا گیا تھا ۔ اس کی وجہ سیدھی تھی کہ گجرات میں ایسی شراب پینے سے اموات کی شرح بہت زیادہ تھی ۔ اتنی سختی کے باوجود گجرات ، جسے سرکار ’ خشک ریاست (Dry State) کا نام دیتی ہے ، میں شراب کی سمگلنگ اور غیر قانونی فروخت ہمیشہ جاری رہی اور جاری ہے اور وہاں شراب کی سپلائی کا دھندہ کرنے والے اسے آپ کے گھر تک پہنچانے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں ۔ غیر ملکی اور بدیس میں رہنے والے بھارتی البتہ’ پروہیبیشن‘ کے اس قانون سے مستتسنیٰ ہیں اور وہ تیس دن کے لئے کارآمد پرمٹ حاصل کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پراس کی تجدید بھی کروا سکتے ہیں ۔
اس پس منظر میں گجرات میں شراب کا ترسیل کا دھندہ کرنے والا (bootleggerr) ایک نامی شخص بھی گزرا ہے ۔ اس کا نام ’ عبدلالطیف ‘ تھا ۔ سرکار کے ریکارڈ میں اس کی تاریخ پیدائش موجود نہیں صرف سال 1951ء درج ہے ۔ وہ اپنے ماں باپ کے سات بچوں میں سے ایک تھا جو غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکا تھا اور والد کے ساتھ پان بیڑی بیچتا بیچتا ، جوان ہونے پر ’ اللہ رکھا‘ نامی شراب کی ترسیل کادھندہ کرنے والے کے ساتھ جُڑ گیا تھا ۔ بعد ازاں اس نے اپنا دھندہ شروع کیا اور انڈر ورلڈ میں اپنا ’ گینگ‘ بنانے کے ساتھ ساتھ صوبے کی سیاست میں بھی آگے بڑھا ۔ 1986 ۔1987 کے بلدیاتی انتخابات میں جیل میں ہونے کے باوجود اس نے احمدآباد کی پانچ میونسپل کونسلز کا انتخاب بھی جیتا ۔ ممبئی کے ڈان داﺅد ابراہم کے ساتھ اس کی دشمنی خاصی اہم رہی اور ان دونوں کی آپسی لڑائی (Gang War) میں AK- 47 جیسے آٹو میٹک ہتھیار بھی استعمال ہوتے رہے ۔ 1992 ء میں کسی وقت اس نے داﺅد نے ملاپ کر لیا ۔ 1993ء میں ہوئے ممبئی دھماکوں کے ہونے تک وہ قتل ، بھتہ وصولی ، دنگا فساد ، اغوا برائے تاوان ، سمگلنگ اور شراب کی ترسیل کے سو سے زائد مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھا ۔ دھماکوں کے بعد اس کو اِن دھماکوں کے حوالے سے بھی ملوث کر لیا گیا ۔ اس پر الزام تھا کہ ان دھماکوں میں استعمال ہونے والا بارود ( RDX ) اسی نے مہیا کیا تھا ۔ 1995ء میں ’ بی جے پی‘ نے گجرات میں اپنی حکومت بنائی اور اس برس کے ختم ہونے سے پہلے ہی اس کے ’ انٹی دہشتگرد سکواڈ ‘ نے کافی تگ و دو کے بعد اسے دہلی سے گرفتار کیا اور احمد آباد لا کر جیل میں بند کر دیا ۔ اس وقت لطیف اور اس کے ساتھیوں پرڈھائی سو مقدمات تھے جن میں ساٹھ سے زائد قتل،دس کے لگ بھگ اغواء کی وارداتیں اور شراب کی سپلائی کے سو مقدمات جبکہ باقی ’ ٹاڈا ‘ ( TADA ) کے تحت بنائے گئے مقدمے شامل تھے۔ لطیف پر مقدمات چلتے رہے لیکن گجرات سرکار اور پولیس کو اس کے خلاف گواہیاں حاصل کرنے میں خاصی ناکامی رہی ۔ اِس کا کارن یہ تھا کہ لطیف اپنے علاقے کا ’ جگا ‘ تھا اور اسی کے سٹائل پر کام کرتا تھا اور اپنی آمدن کا بھاری حصہ اپنے علاقے کے غریب لوگوں پر بھی خرچ کرتا تھا ۔ آخر گجرات سرکار اور پولیس نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ یو ں لطیف 29 نومبر 1997ء کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا ۔
’ لال مرچی انٹرٹینمنٹ ‘ کی پیش کردہ ’ رئیس‘ کتنےبہت سے حوالوں سے تکرار کا باعث بنی ۔ یہ تکرارالگ قصہ ہے جس کی گہرائی میں جائیں تو ’ بی جے پی‘ اور ہندو انتہا پسندی کا تعصب ہی نمایاں نظر آتا ہے اور کچھ نہیں ۔ میری دلچسپی ماخذ کے حوالے سے ہے جس کے بارے میں شاہ رخ خان اور اس کی ساری ٹیم نے فلم کی پروموشن مہم کے دوران بارہا یہ کہا تھا کہ یہ فلم’ لطیف ‘ کی زندگی پر نہیں بنائی گئی ۔ فلم کے آغاز میں بھی اسے فِکشنل کرداروں پر مبنی فلم کہا گیا ہے ۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گا ۔ میں نے اوپر گجرات میں ’ پروہیبیشن ‘ کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے اور لطیف کی زندگی کا جو مختصر خاکہ پیش کیا ہے آپ اسے ذہن میں رکھ کر فلم کو دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ اس فلم کا تابانا ’ لطیف ‘ کی زندگی کے دھاگوں سے بُنا گیا ہے یا نہیں ۔
رہا سوال کہ فلم کیسی ہے تو یہ دھیان رہے کہ ’ قابل‘ اور ’ رئیس‘ جیسی کمرشل فلمیں ایک سی ہوتی ہیں انیس بیس کے فرق کے ساتھ ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10154024064806895