::: "ادبی یا قلمی دہشت گردی : ایک اظہاریہ ":::
ادبی یا قلمی دہشت گردی سیاسی اور ثقافتی ڈھانچے اور اسٹبلشمنٹ سے سے نجات ٍحاصل کرنے کے لیے جنگ ، جدوجہد ، مزاحمت یا احتجاج کے صورت میں ہوتی ھے ان کے افکار و خیالات، قاری و سامع کو ہلا دینے والے اسلوب اور لہجے کی گھن گرج سے دنیائے ادب ھی نہیں معاشرہ بھی متاثر ھوتا ہے۔ ردو لغت میں دہشت گردی کے جو معنیٰ ہیں اس سے ہم سب واقف ہیں لیکن میرے نزدیک دہشت گردی کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنے وجود کو شد و مد کے ساتھ منوانا ہوتا ہے۔ ’دہشت گردی‘ کو مختلف خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جیسے سیاسی دہشت گردی، سماجی دہشت گردی، معاشی دہشت گردی، اخلاقی دہشت گردی، مذہبی دہشت گردی، ریاستی دہشت گردی، ادبی دہشت گردی، تاریخی دہشت گردی، صحافتی دہشت گردی وغیرہ وغیرہ۔ ٹالسٹائے کے ناول ’اینا کرینا‘ کے بارے میں جب ڈی ایچ لارنس یہ فیصلہ صادر کرتا ہے کہ ”ٹالسٹائے کو یہ ناول نہیں لکھنا چاہیے تھا“ تو وہ بھی نظریاتی دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے۔ جس ملک میں جبراور گھٹن ہوتی ھے وہاں دہشت، زیادہ اور زبان و قلم پر پابندی لگادی جائے تو وہاں احتجاج اور مقاومت کا ادب بھی زیادہ کارگر، مؤثر اور معیاری ہوتا ہے۔اُردو ادب کی یہ نظریاتی دہشت گردی ہی تو تھی، جس نے ’ادبی دہشت گردوں‘ کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والے اور سند یافتہ اردو ادیبوں کے ذریعے ’غیر سند یافتہ نقاد‘ کہے جانے والے ایک شخص کو یہ الفاظ تحریر کرنے پر مجبور کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اردو میں ترقی پسند رویوں نے اردو ادب کو دہشت گردی سے قریب کردیا تھا۔ کیون کہ ترقی پسندوں کے یہاں انقلاب کاتصور درمیانہ طبقت کا رومانی تصور تھا۔ اور اس رجحاں کے تحت جو ادب و شاعری خلق ہوئی۔ اس کے بارے میں ۱۹۳۹ میں سجاد ظہیر نے کہا تھا ۔۔۔" یہ ایک طرح کی دہشت انگیزی ہے جو ایک ذہنی اورجذباتی بلوہ ہے جو ایک درمیانی طبقے کے انقلاب پرست کے لیئے ابتدا میں تو شاید جائیز ہو لیکن ایک اشتراکی شاعر کو اس سے دور رہنا چاہیے" ( حوالہ : خلیل الرحمن اعظمی، " اردو میں ترقی پسند تحریک " ، انجمن ترقی اردو ہند ، ۱۹۷۲ صفحہ ۳۵۱، بحوالہ، سجاد ظہیر " اردو کی جدید انقلابی شاعری، 'نیا ادب' ۱۹۳۹ ) ماضی میں شعرا اور ادبا رومانوی موضوعات اور دیگر معاشرتی مسائل پر شعر و شاعری کرتے تھے مگر اب دہشت گردی کی نہ ختم ہونے والی لہر نے ادبی میدان کو بھی کافی حد تک تبدیل کر دیا ہے ۔ جس میں معروضی دہشت گردی سے زیادہ ادب کو لکھنے والون کی موضوعی دہشت کردی بھی نظر آتی ہے۔ ۔شاعری میں جعفر زٹلی،اقبال جوش، وامق جون پوری، حبیب جالب وغیرہ اور کیا تنقید کے اردو متنوں میں کلیم الدین احمد، وارث علوی، باقر مہدی اور سلیم احمد نے اور تاریخی حوالے سے سبط حسن اور مبارک علی فکری دہشت گردی کا الزام لگایا جاسکتا ہے؟ کبیر علی نے اپنے ایک مضمون "اشفاق احمد اور ادبی دہشت گردی -" کے عنوان سے لکھا ہے جو "دلیل " کی انٹرنیٹ کی سائٹ پر مل جائے گا۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔