(Last Updated On: )
صالحہ رشید کی رپورٹ
پریاگ راج ۹؍ نومبر ، پریس ریلیز
ادبی تنظیم بزم یاراں کے زیر اہتمام یوم اردو کی مناسبت سے ادب گھر کریلی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ اس کی نشست اول میں اردو کے فروغ اور جد وجہد کے موضوع پر مذاکرہ اور دوسری نشست میں محب اردو سلمان احمد خان مرحوم کی یاد میں مشاعرہ ہوا۔پروگرام کی صدارت بزم یاراں کے صدر معروف ادیب جناب کاظم عابدی صاحب نے فرمائی اور بزرگ ترقی پسند نقاد پروفیسر علی حیدر رضوی نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔اس کے علاوہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود جناب فرمان احمد نقوی ، سینئر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی ، بطور مہمان اعزازی شرکت کر رہے جناب احسان اللہ انصاری بانی تعلیم گھر و محمد جلال الدین حیدر ، سابق انتظامی افسر محکمہ تعلیمات نے اس مذاکرہ میں حصہ لیا ۔ ان تمام حضرات نے مادری زبان اردو کی صورت حال پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ نظامت کے فرائض ایڈووکیٹ بختیار یوسف نے بحسن و خوبی انجام دئے۔ اس موقع پر مہمانان کی شال پوشی بھی کی گئی۔ادب گھر کے سرپرست مشہور شاعر جناب فرمود الہ آبادی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔مختلف شعرا کے چنندہ اشعار پیش خدمت ہیں ؎
آپ کو لگ نہ جائے نظر آپ کی
آئینہ دیکھنے سے بچا کیجئے
جو مقدر میں تھا ملا آپ کو
ای سلال اب نہ شکوہ گلہ کیجئے
(سلال الہ آبادی)
’غ ‘ کو شامل کیا اور ’ز‘ ملایا ’ل‘ سے
ہو گئی پھر اس طرح پوری غزل آرام سے
(ذی شان فتحپوری)
اپنے حالات سنا دوں تو زمانہ رو دے
تم مجھے چھو لو تو مرا زخم پرانا رو دے
(اسلم نیازی)
کبھی تھی محفلوں کی شان اردو
مگر اب ہو گئی ہے مہمان اردو
(اسعد غازی پوری)
یہ نہیں ٹھیک کہ یہ بھی ٹھیک اور وہ بھی ٹھیک
حق پرستی ہے تو تھوڑا اختلاف بھی کیجئے
(طارق جعفر)
جنون شوق نے ہر شے سے بے نیاز کیا
وفا کی آس میں ظالم سے ساز باز کیا
بند تھے گیسو تو جلوے اسیر تھے کتنے
ستارے چھپ گئے زلفوں کو جب دراز کیا
(صغیر صدیقی)
نفرت کی شب ہے بغض کے بادل چھائے ہیں
ہم لے کے لالٹین محبت کی آئے ہیں
(مجاہد لالٹین)
وہ میرے گھر میں جو مہمان بن کے ٹھہرے تھے
نہ جانے کتنی نگاہوں کے مجھ پے پہرے تھے
(بختیار یوسف)
گل ہیں لاکھوں گلاب ہے اردو
واقعی لاجواب ہے اردو
(فرمود الہ آبادی)
بجھ نہ جائے کہیں تہذیب و تمدن کا چراغ
درس بچوں کو اب اردو کا دلایا جائے
(احمد الہ آبادی)
طوق و سلاسل سے دار و رسن تک
’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘
ٍ تم ہی راہ میں رک گئے ورنہ اختر ؔ
’ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں‘
(اختر مہدی رضوی)
جناب واقف انصاری کا بالکل نیا انداز ملاحظہ فرمائیں ؎
اب کہاں کوئی ہیزیٹیشن ہے
پیار میں خوب کنٹریبیوشن ہے
اس طریقے کا کلٹیویشن ہے
یا اومیشن ہے یا ڈلیشن ہے
اس کی ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات مِس نیریشن ہے
کیا ضرورت ہے سب بتانے کی
کب کہاں کس سے کیا کنکشن ہے
مہر و الفت کہیں نظر میں نہیں
کیسا یہ پکچرائیزیشن ہے
آخری سانس ہے تبی جب تک
درد کا ایک وینٹیلیشن ہے
پارسا اتنا ہے کہ اس کا بیان
ایک اک لفظ انسٹی گیشن ہے
حد سے آگے گذر گئی دنیا
اس لئے اربنائزیشن ہے
جانتا ہوں مگر کہوں کیسے
کس جگہ کتنا ایجیٹیشن ہے
(واقف انصاری)