ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری منفرد پروگرام نمبر 176 بعنوان ادبی تنقید کے اہداف بروز ہفتہ شام سات بجے منعقد ہوا یہ پروگرام کئی وجہ سے یادگار پروگرام رہا ایک تو ابھی تک ادارے کے سارے پروگرام برائے تنقید ہوا کرتے تھے اور یہ پروگرام خود تنقید کے عنوان پر منعقد جسکو خاکسار شمس الحق لکھنوی نے آرگنائز کیا اور نظامت کے فرائض ضیا شادانی بھارت نے انجام دیے پروگرام کا آغاز صابر جاذب لیہ پاکستان کی خوبصورت نعت پاک سے ہوا
بلکتے اشک نہیں ہیں فضول آنکھوں میں
مہک رہے ہیں عقیدت کے پھول آنکھوں میں
اسکے بعد پروگرام اپنے مقصد اصلی کی جانب گامزن ہوا جہاں پر تنقید سے متعلق علمی سوال اور جواب دیے گئے سوال نامہ جناب ارشاد خان ممبرا نے تیار کیا جسکے جواب ادارے کے معتبر شاعر ادیب جنکی شاعری میں اقبالی استدلال اور الفاظ میں غالبیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے جو فن پر زبردست قدرت کے ساتھ لغت کے بھی ماہر ہیں یعنی غلام مصطفیٰ اعوان دائم صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ نے دیے جن پر کچھ تبصرے بھی ہوئے اور بیچ میں بھی کئی جزئی سوالات کیے گئے ہر ایک کا تحقیقی تفصیلی جواب دیا قارئین کی علمی بصریت کو قوی تر کرنے کے لیے تمام سوالات کے جوابات بالترتیب قلمبند کیے گئے ہیں جو ذیل میں آ رہے ہیں
سوال نمبر 1
تنقید کیا ہے؟
جواب = تنقید کا لغوی معنیٰ پرکھنا یا کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا ہے، اور ادب میں تنقید کا لفظ انگلش کے Criticism سے ماخوذ ہے، Criticism کی تعریف یہ ہے کہ :
Disapproval expressed by pointing out faults or shortcomings
یعنی : اغلاط و تسامحات کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنا تردیدی اظہاریہ کریٹیسزم کہلاتا ہے
اس تعریف میں چونکہ مکمل تردیدی جذبات کا اعلانیہ ہے اس لیے کہ درست نہیں، عربی میں بھی یہی معنی مراد لیے جاتے ہیں، اس کے لیے مناسب لفظ انتقاد یا نقد ہے، جو ادب میں تنقید کے مفہوم پر درست طور پر منطبق آ سکتا ہے، معجم الرائد میں ہے کہ :
إنتقد الكلام أو العمل : أظهر حسنه أو قبيحه
یعنی : انتقاد کا معنیٰ ہے کہ کلام یا عَمَل کے محاسن و قبائح کو ظاہر کیا جائے
سید عابد علی عابد کی بھی ایک کتاب انتقاد کے نام سے موجود ہے. حامد اللہ خان افسر لکھتے ہیں کہ:
لفظِ تنقید عربی صرف و نحو کے اعتبار سے درست نہیں، اس کی جگہ نقد یا انتقاد ہونا چاہیے، لیکن اردو میں یہ لفظ اب اتنا مشہور ہو گیا ہے کہ اس کی جگہ دوسرے لفظ کا استعمال مناسب نہیں سمجھا جاتا، ہاں اردو زبان میں اسے درست سمجھنا چاہیے
بحوالہ : کشاف تنقیدی اصطلاحات، صفحہ نمبر 50
تنقید سے مراد وہ طرزِ تفہیم، جس میں کسی فن پارے کے حسن و قبح پر فنی اصول و ضوابط کی روشنی میں اظہار کیا گیا ہو۔
آسان الفاظ میں تنقید کا کام ادبی تقویم و توضیح و تفہیم ہے، وہ نہ صرف ادبی تحریر کو غیر ادبی تحریر سے ممیز کرتی ہے بلکہ ادبی تحریر کی ساخت، مزاج اور معیار کا تجزیہ بھی کرتی ہے، اس حوالے سے دو نظریے ادب پر تشریحی و توضیح بحث کرتے ہیں، ایک معروضی اندازِ نقد و نظر اور دوسرا موضوعی طرزِ انتقاد، ان کی تفصیل کا یہاں ابھی محل نہیں
اس جواب پر جناب ارشاد خان صاحب کا تبصرہ تھا کہ عمدہ وااہ ہر ہر زاویہ سے تنقید کی فہمائش کی گئی مبارکباد
سوال نمبر 2
تنقید کے مثبت اور منفی پہلو؟
جواب = کسی شاعر کے کلام کا تجزیہ اس کے فکر و فن کی کسوٹی پر کیا جاتا ہے، فکر سے مراد شاعر کا حسنِ خیال ہے جبکہ فن اس کا اسلوب… یوں کہہ لہجیے کہ فکر شعر کی روح ہے اور فن اس کا جسم، دونوں کا شعر میں ہونا ضروری ہے، جس طرح روح کے بغیر جسم مردہ ہوتا ہے، اور جسم کے بغیر روح آسیب بن جاتی ہے، اسی طرح فکر و فن کے توازن اور اس کے علم کے بغیر اچھے شعر کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا
تنقید کا مثبت پہلو تو یہی ہے کہ وہ روایت کی پاسداری کیساتھ تخلیق کی تفہیم میں اپنا کردار ادا کرے، تنقید کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ تفہیم سے زیادہ تنقیص کا لبادہ اوڑھ لے، معائبِ خفیفہ کو طشت از بام یوں کرے کہ محسنات پر مکمل چادر تان لی جائے، ناقد تخلیق پر اسی وقت انتقاد کا حق ادا کر سکتا ہے، جب وہ مطلوبہ ہدف تک رسائی کے لیے مناسب وسائل استعمال کر سکنے پر قادر ہو، قاری ناقد نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے تئیں جو رائے اور تبصرہ محفوظ رکھتا ہے، وہ اس کی ذہنی اپج کا احساس ہوتا ہے، وہ دراصل انتقاد کی خشتِ اولیں ہوتی ہے، قاری کا مطلب قرأت سے یے اور ناقد کارِ نہاں نُمائی سرانجام دیتا ہے، مثبت طریقۂ تنقید وہی ہے جو اصولِ انتقاد سے ماخوذ و مستنبط ہو، ورنہ وجدان کا تفحص اور ادراک کی تلاش محض کارِ عَبَث ہو کر رہ جاتی
جواب نمبر دو پر جناب ارشاد خان ممبرا کا تبصرہ
بالکل صحیح ،
نقاد فن کی گہرائی میں غوطہ زن ہوکر آبدار موتی لاتا ہے جبکہ قاری سطح آب پھر تیر خس وخاشاک و جھاگ لیے مانند جھاگ اوجھل ہوجاتا ہے ۔۔روایت وحالات حاضرہ پر نقاد کی نظر ہوتی ہے ۔ وہ فن پارے میں نئے مفاہیم تلاشنے میں دراک ہوتا اور اس کی نظر قبیح سے زیادہ حسن پر ہوتی ہے ۔۔نقاط کی کسوٹی سے گزر وہ فن پارہ درخشندہ ہوتا ہے ۔ منفی تنقید فنکار کے حوصلے پست کردیتی ہے اس سے اس کا تخلیقی صلاحیت پھر ضرب کاری پڑتی ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 اردو ادب میں تنقید کی ابتدا کب ہوئی اور کسنے کی
سوال نمبر تین کا اجمالی جواب :
دراصل کسی بھی ادب پارے کے تخلیقی عَمَل کے ساتھ ہی تنقیدی عمل کی بھی ابتداء ہو جاتی ہے، جب تخلیق کار کے ذہن میں کسی خاص موضوع کی داغ بیل پڑتی ہے تو وہاں سے اُس کے ذہن میں تنقیدی عمل بھی شروع ہوجاتا ہے، کوئی شاعر نظم یا غزل لکھنے کا ارادہ کرے تو اس کا تنقیدی شعور اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور وہ اشعار یا نثری تحریر کو کانٹ چھانٹ کے اور اُس کے نوک پلک درست کرکے تسلی بخش انداز میں تخلیق کرتا ہے۔ غرض یہ کہ جب کوئی فن پارہ فنکار کے ذہن میں جنم لینے لگتا ہے تو یہیں سے تنقید اپنا کام شروع کردیتی ہے ۔ اور ایک لحاظ سے تخلیق سے پہلے تنقیدی عمل شروع ہوجاتا ہے.
اردو ادب کا اولین نقاد مولانا باقر آگاہ ویلوری جبکہ مولانا الطاف حسین حالی کو اردو کا پہلا باقاعدہ نقاد تصور کیا جاتا ہے۔
باقی بہت تفصیل ہے.
سوال نمبر 4
اردو ادب کے اکابر نقاد
جواب = اردو ادب میں کی تاریخ میں تنقید کا موضوع بہت پہنائی کا حامل ہے، اس میدان میں سرگردانی کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں، ہر دور نیا طرز جنم دیتا ہے، نئے تخلیق کار پیدا کرتا ہے، نئا اسلوب وضع کرتا ہے اور جدت اور مابعد جدیدیت کی کیفیات کا اعلانیہ ہوتا ہے
اردو ادب کا اولین نقاد مولانا باقر آگاہ ویلوری جبکہ مولانا الطاف حسین حالی کو اردو کا پہلا باقاعدہ نقاد تصور کیا جاتا ہے۔
اردو ادب کی تاریخ میں مولوی عبد الحق، مولانا حسرت موہانی، سید علی حیدر نظم طباطبائی، جگن ناتھ آزاد، ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر موجودہ دور کے شمس الرحمٰن فاروقی اور رفیع الدین ہاشمی تک بے شمار نقاد ملتے ہیں، ان سب کے نظریات کبھی متوازی نظر آتے ہیں اور کبھی مساوی، یہاں سب کے سب حیطۂ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے
لطاف حسین حالیؔ مقدمہ شعر و شاعری میں پیش کردہ اپنے تنقیدی خیالات کے سبب جدید اُردو تنقید نگاری کے بانی قرار پائے۔ حالیؔ نے تنقید کی جو راہ نکالی اس پر آگے چل کر اُردو تنقید نے طویل فاصلہ طے کیا۔ حالیؔ کے بعد اُردو کے نقادوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ جن میں اہم نام شبلیؔ، عبدالحق، نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، کلیم الدین احمد، محمد حسن عسکری، خورشید الاسلام، محمد حسن، احسن فاروقی، وزیر آغا، قمر رئیس، سلیم احمد، مغنی تبسم، سلیمان، اطہر جاوید وغیرہ شامل ہیں.
پھر تنقید کی اقسام ہیں اور ہر قسم میں مختلف نقاد ہیں اور ان کی خدمات…
ناقدین کی اقسام :
تنقید دراصل کلاس نوٹس کی طرح سے ہے، جس کا بنیادی مادہ تو تقریباً ایک رہتا ہے مگر مثالیں بدلتی رہتی ہیں۔اس لحاظ سے ناقدین کو بھی مخلف اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
آر کی ٹائپ ادب کا نقاد
نفسیاتی ادب کا ناقد
استقرائی ادب کا ناقد
تجزیاتی ادب کا ناقد
رومانی ادب کا ناقد
سائنٹفک ادب کا ناقد
عمرانی ادب کا ناقد
مارکسی ادب کا ناقد
نظریاتی ادب کا ناقد
عملی ادب کا ناقد
ہیئت ادب کا ناقد
یاد رہے کہ یہ اصل میں تنقید کی تقسیم تھی، لیکن ناقدین کو اس تقسیم میں پیوست کرنے کا مقصد یہی ہے کہ تاکہ اس حوالے بھی دیکھا جائے تو کئی در وا ہو سکتے ہیکیا
سوال نمبر 5
کہا جاتا ہے کہ ایک کامیاب نقاد ناکامیاب شاعر یا ادیب ہوتا یے
میں اس سے بالکل متفق نہیں، کیوں کہ اگر ایک اچھا شاعر جو فنی باریکیوں سے آشنا ہو، وہی نقد و نظر کا اہل ہو سکتا ہے بشرطیکہ تنقید کسی شعری تخلیق پر کرنی مقصود ہو، اگر تخلیق نثری ہو تو اس کے لیے کامیاب شاعر ہونا تو شرط بالکل نہیں، ہاں کامیاب ادیب ہونا ضروری ہے… ایک ناقد اپنے منقود کو زندہ کرنے والا ہوتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ وہ اس کے فَن کی رگِ حیات کا محل و مکان جانتا ہو، اس لحاظ سے میں ایک مغربی مفکر T. S Elliot سے بہت متاثر ہوں
اس کا کہنا ہے کہ تنقید کا منصب شعراء و ادباء کو زندہ رکھنا ہے، تنقید کا ایک منصب ان شاعروں اور ادیبوں کو زندہ کرنا بھی بتایا ہے جو عرصہ دراز سے گوشہ گمنامی میں ہوں، بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی شاعر اور ادیب کی شہرت اس کی چند ایک نظموں یا تحریروں کی وجہ سے ہوتی ہے یا ان کی تخلیقات میں فن کی بلندی کہیں کہیں نظر آتی ہے، جو ان کی شہرتِ دوام کا موجب نہیں بن سکتی. ایلیٹ لکھتا ہے کہ تنقید کا یہ کام بھی ہے کہ وہ ان شاعروں اور ادیبوں کو از سرِ نو زندہ کرے۔ ان کے کلام میں جتنے بھی محاسن موجود ہیں انہیں عوام کے سامنے پیش کرے، ہو سکتا ہے کہ ان کی تخلیقات میں سے بعض ایسی چیزیں مل جائیں جن کا موجودہ زمانے کو علم نہ ہو۔
ایلیٹ کے ان خیالات سے میں مکمل طور پر متفق تو نہیں ہوں کیونکہ گمنامی کا جو تصور اس نے پیش کیا وہ موضوعی ہے اور اس پر سوائے ایلیٹ کے شاید ہی کسی نے بات کی ہو..
لیکن اس قدر ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایک ناکام ادیب کبھی بھی کامیاب ناقد نہیں بن سکتا، یہ اصول اگرچہ ایلیٹ کے ہاں صاف نظر نہیں آتا، لیکن ان کے نظریات سے ضمنی طور پر ماخوذ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ میں نے اخذ کیا اور استنباط کیا
اس پر خاکسار شمس الحق کا تبصرہ تھا کہ
بالکل متفق ۔۔۔ جب آدمی ادب سے خارج ہوتا ہے کم علمی کی بنیاد پر تو وہ بے جا نقد شروع کرتا اسکا مقصد محض علمی دھاک جمانا ہوتا جس میں وہ لا علم لوگوں میں تو عارضی واہ واہی حاصل کرتا لیکن بہت جلد اسکی علمی قلعی واشگاف ہو جاتی ہے ۔۔۔ اور یہ کیفیت مسلسل نہ سیکھنے کی وجہ ہوتی ہے یا ہمچوں دیگرِ نیست والی بات
سوال نمبر 6
مختلف ناقدین کے نظریہ ہائے تنقید سے کس قدر متفق ہیں؟؟
سب کا اپنا اپنا رنگ ہے، اردو ادب میں کی تاریخ میں تنقید کا موضوع بہت پہنائی کا حامل ہے، اس میدان میں سرگردانی کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں، ہر دور نیا طرز جنم دیتا ہے، نئے تخلیق کار پیدا کرتا ہے، نئا اسلوب وضع کرتا ہے اور جدت اور مابعد جدیدیت کی کیفیات کا اعلانیہ ہوتا ہے
تذکرہ نگاری
شعرائے اردو کے تذکرے ادبی تاریخ کو مرتب کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتے ہیں۔ زبان کی ادبی تاریخ جاننے کے لیے تذکروں کا مطالعہ کرنا ناگزیر ہے۔ تذکرہ نگاری کا فنعرب سے شروع ہوا اور ایران پہنچا۔ بھارت میں بھی اس روایت کی پاس داری میں تذکرے لکھے گئے۔ ابتدائی زمانے میں فارسی درباروں کی زبان تھی اور علمی کاموں کے لیے بھی اسی زبان کا استعمال ہوتا تھا۔ اسی لیے اردو شعراءکے تذکرے فارسی میں تحریر کیے گئے۔ اردو شعرا کے تذکروں میں اب تک کی تحقیق کے مطابق میرؔ کو اولیت حاصل ہے، جنہوں نے ’’نکات الشعرا‘‘ تحریر کیا۔
تبصرہ نگاری
جدید مطبوعات پر تبصرہ وتعارف کی باقاعدہ روایت قائم ہوئی ہے اور یوں تبصرہ نگاری نے ایک مستقل فن اور صنف کی شکل اختیار کرلی ہے۔
کسی بھی کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے کتاب کے موضوع سے مکمل آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔تبصرے سے پہلے کتاب، مصنف اور کتاب کے موضوع سے واقفیت حاصل کرنا ، بلکہ مکمل کتاب کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ اگر مکمل کتاب کا حرف حرف مطالعہ کرنا مشکل ہو تو کم ازکم کتاب کی فہرست، تمہید، پیش لفظ، تقریظ اور تعارف ومقدمہ کا مطالعہ کرنا از بس ضروری ہے۔ اس کے ساتھ فہرست میں اہم اور چیدہ چیدہ مقامات کو منتخب کرکے ان مقامات کا بغور مطالعہ کرنا اور ان سے متعلق اپنی رائے کو تبصرے میں شامل کرنا بھی ضروری ہے۔
کتاب پر تبصرہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
تعارف. مرکزی حصہ، اختتام
سوال نمبر 7
انگریزی نقاد اور دیگر نقاد ہم پلہ ہی؟
جواب.. میں اس سے مکمل تو نہیں کہ دونوں ہم پلہ ہیں، مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ طرز اور اسلوب کی ہم آہنگی اور پرکھ کا طریقہ اپنا اپنا ہے سب کا، مولانا حالی کی کتاب مقدمۂ شعر و شاعری اور مولانا شبلی نعمانی کی شعر العجم میں مغربی ناقدین کی محولہ عبارات بھری پڑی ہے، کہیں بطورِ اشتشہاد اور کہیں بطورِ نظیر، اس سے انگریز ناقدین کی برتری واضح ہوتی ہے،
سوال نمبر 8
ڈاکٹر زور کی خدمات
ڈاکٹر زور ایک شاعر، افسانہ نگار، نقاد، محقق ہی نہیں بلکہ عالم ، لسانی تنقیدی نظریہ دان ادبی مورخ ، تاریخ دان اور معاشرتی اصلاح کار بھی تھے
ابتدئی تعلیم مدرسہ دارلعلوم سٹی اسکول میں ھوئی۔ پھر1927 میں عثمانیہ کالج سے ” لسانی سائنس” میں ایم ۔اے کی سند حاصل کی۔ ان کی ادبی اور علمی زہانت کو دیکھتے ھوئے حیدرآباد کے فرمانروا نے انھیں وظیفہ دے کر 1929 میں لندن یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرنے کے لیے بھجوایا۔ جہان انھوں نے ” آریائی زبانوں” پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ یہاں انھیں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے ماہر لسانیات کی سرپرستی نصیب ہوئی۔ اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز لندن کے پروفیسر آر۔ایل۔ٹرنر اور ہندوستانی زبان کے ماہر گراہم بیلی نے زور صاحب کی علمی اور تحقیقی فطانت کو دیکھتے ھوئے۔ان کی تربیت کی اور مفید مشورے دئیے۔
ڈاکٹر گیان چند جین نے اسی بنا پر زور صاحب کو صرف اردو ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی جملہ زبانوں میں علم زبان کے قافلے کے سالاروں میں شمار کیا۔
اردو تنقید کے ابتدائی دور میں ایک معتبر نام ہمیں ڈاکٹر زور کا ملتا ہے۔ جن کی تنقید نگاری پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر زور بنیادی طور پر سائنٹفک دبستان تنقید سے وابستہ تھے۔ڈاکٹر زورؔ ایک مایہ ناز محقق، تجربہ کار مدون تھے۔ ان کی تحقیقی اور تدوینی کام کی وجہ سے کئی شاعر گوشۂ گم نامی سے نکل کر شہرت کے بام عروج پر پہنچے۔ تحقیق ایک صبرآزما اور مشکل کام ہے اس میں جذبے کی لطافت، ذہنی یکسوئی خیال کی ہم آہنگی کا ہونا نہایت لازمی ہے، تحقیق اپنے موضوع کے ساتھ انصاف چاہتی ہے۔ وہ مواد کو سلیقے سے اکٹھا کرنا، اس کی صحیح جانچ پڑتال، چھان بین، تقابل، رد و قدح جیسے مراحل میں باریک بینی و حساسیت چاہتی ہے۔ یہ تمام اوصاف ڈاکٹر زور میں بہ درجہ اتم پائی جاتی تھیں۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کے تنقیدی دبستان کے مسلک کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر زور نے تنقید کے لیے جن اصولوں کو ضروری قرار دیا ہے وہ بڑی حد تک سائنٹفک ہیں۔ اگر ان کو سامنے رکھ کر تنقید کی جائے تو زیر نظر تصنیف کے تمام پہلو پڑھنے والے کے سامنے آسکتے ہیں۔ ان کی عملی تنقید میں یہ خصوصیت سب سے زیادہ نمایاں ہے۔‘‘
زورصاحب نے نواب رفعت یار جنگ کی صاحب زادی تحینت النساء سے شادی کی۔ جو اردو کی باقاعدہ پہلی صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔
سوال نمبر 9
غالب اور اقبال پر تنقید
ہر باکمال پر تنقید ہوتی ہے اور تنقید اصل میں اونچے قد کی غمازی ہوتی ہے، اس پر لکھنے بیٹھ جاؤں تو دفتر کے دفتر درکار ہیں، المختصر کہ کہ ان پر جتنی تنقید کی گئی اس قدر کسی اور پر نہیں کی گئی، لیکن آج تک یہ سب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں، اور ان کی عظمتوں کے عَلَم آج بھی سرنگوں نہیں ہوئے بلکہ ہر مذہب کے لوگ انھیں پڑھ کر ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں
سوال نمبر 10
حالی نہ ہوتے تو غالب نہ ہوتے.. اتفاق یا عدم اتفاق
مرزا غالب کے حالاتِ زندگی اور اُن کی شخصیت کے تعلق سے جو بنیادی معلومات مولانا حالی نے جمع کر دی ہیں ، اُن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص ’یادگارِ غالب‘ کے دو تہائی سے زیادہ حصّے میں جہاں حالیِ نکتہ داں نے غالب کے اردو اور فارسی کلام کی تشریح کے ذریعے غالب فہمی کی مشعل روشن کر رکھی ہے، ایک زمانے سے شارحینِ غالب اپنی فکر و نظر کے چراغ جلاتے آئے ہیں۔ بلاشبہ آج غالبیات کی تحقیق و تشریح نے حالی کی ’یادگارِ غالب‘ سے لے کر نارنگ کی ’غالب، معنی آفرینی۔ ۔ ۔ ۔ ‘ (2) تک ایک بہت بڑا فاصلہ طے کر لیا ہے اور اب یہ راہ پُر خار نہیں رہی۔ یہ تو پہلا قدم ہے جس کا اُٹھانا دشوار ہوا کرتا ہے اور وہ بلا حالی نے سرکر لی تھی۔
نہ جانے کیوں محققینِ غالب نے حالی اور غالب کے تعلقات پر زیادہ توجہ نہیں کی۔ ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ 1854ء میں بعمر سترہ سال اپنی شادی کے بعد اس اطمینان پر کہ بیوی کا میکہ آسودہ حا ل ہے، حالی حصولِ علم کی غرض سے دلّی چلے آئے تھے۔ یہاں 1854-55ء میں اُن کا کوئی ڈیڑھ سال قیام رہا تھا۔ اُسی دور میں اُنھوں نے قلعۂ معلّا کے مشاعرے میں غالب کو اپنا اردو اور فارسی کلام پڑھتے ہوئے سُنا تھا، لیکن اُن سے حالی کی ملاقات کے شواہد نہیں ملتے۔ یہ بات بھی قیاس میں نہیں آتی کہ ان کی اس عمر کی شعر گوئی نے غالب سے داد پائی ہو۔ جن محققوں نے حالی کے اُسی دورے میں اُن کی غالب سے ملاقات کرا دی ہے، انھوں نے عجلت پسندی سے کام لیا ہے۔ دراصل حالی کے خود نوشتہ ’ترجمۂ حالی ‘میں ان کے طرزِ بیاں کے ابہام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ غدر کے بعد پانی پت میں بیکاری کے چارسال گزارکربعمرچوبیس سال دوبارہ دلّی آئے تھے۔ (3) اس بار وہ 1861ء تا 1863ء کے درمیان دو برس تک غالب سے اُن کی اردو اور فارسی غزلوں اور قصیدوں کا درس لیتے رہے تھے اور اپنے کلام پر اصلاح بھی۔ قرائن کہتے ہیں کہ اسی زمانے میں غالب نے حالی کی شاعری کے تعلق سے اپنی یہ مشہور رائے ظاہر کی تھی کہ ’اگرچہ میں کسی کو فکرِ شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا، لیکن تمھاری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔
ان تمام معلومات کی روشنی میں یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ حالی کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن غالب کی عظمت کسی اور کی محتاج نہ تھی اور نہ ہے، انھوں نے اپنا آپ خود ہی منوایا ہے
سوال نمبر 11
ادبی تنقید کے اصول، نیز تنقید و تنقیص میں فرق
تنقیص کے اصول :
جب تخلیق کار اظہار کے لئے کسی خاص صنف کو استعمال کرتا ہے تو پہلے اس کے اصول و ضوابط کا درس نہیں لیتا اور نہ ہی سبق کی مانند انہیں یاد کرتا ہے۔ وہ آمد، کیفیت، وجدان، الہام، جذب و جذبہ (جو لفظ بھی چاہیں استعمال کرسکتا ہے) کے زیرِ اثر مائل تخلیق ہوتا ہے اور بس۔ تخلیق کی تکمیل کے بعد نقاد کا کام شروع ہوتا ہے۔
شعر ہو یا نثر، دونوں میں فصیح و أفصح، درست و نا درست، بہتر و بہترین اور حسن قبح میں تمیز کرنا ناقد کا اولین فرض ہے، جس طرح ایک اچھا فنکار شاعر اپنی شاعری میں منتخب الفاظ کو استعمال کرکے انھیں ایک تازہ لسانی اورجمالیاتی تناظر فراہم کردیتا ہے، لفظوں کو نئے نئے اور تازہ بہ تازہ تناظر فراہم کر کے اس کی معنویت میں اضافہ کرکے معنی آفرینی کی فضا ہموار کرتا ہے، لفظوں کے افقی اور عمودی دونوں طرح کے انتخاب سے کام لیتا ہے، عمودی انتخاب کا مطلب ذہن میں موجود مختلف الفاظ میں کسی ایک موزوں لفظ کا استعمال اور افقی انتخاب کا مطلب لفظوں کے درمیان باہمی مناسبت اور رشتہ داری، ان کی باہمی نشست ترتیب اور کیمیائی ترکیب ہے جن کے ذریعہ احساسات ، جذبات ، تجربات ، تخیلات اور تعقلات کو ایک نیا جمالیاتی تناظر فراہم کیا جاتا ہے، ایک اچھا ناقد انھی سے شاعر کے فن اور کرافٹ کو سمجھتا ہے
اور یاد رہے کہ شعر پر تنقید صرف لفظوں کی ترتیب و تزئین ، آہنگ کی موسیقیت، ترنُّم کی آمیزش اور عروض کی پابندی سے ترتیب پانے والے عملِ شعریّت پر بحث نہیں کرتی بلکہ ایسے بہت سے عوامل پر تجزیہ کرتی ہے کہ انہیں الگ الگ دیکھنا محال ہے، چند ایسے عوامل اور محرکات درجِ ذیل ہیں جو ناقد کی حسِّ ادراک سے صریرِ خامہ تک زقند بھرتے ہیں اور تفہیم میں ممد ثابت ہوتے ہیں :
👈اظہارِ ذات کے جذبے تک رسائی اور اس کا داخلی و خارجی تجزیہ کرتی یے
👈الہامی کیفیت اور تحریک کا ادراک کرکے اس سے پردہ کشائی کرتی ہے
👈معاشرتی نفسیات کے رچاؤ کی تفہیم اس کا کام ہے
👈ثقافتی مظاہر اور اقدار کا بیان اس کا حُسن ہے
👈مشاہدہ کی علامتی اور فکری سطح کی توضیح کرتی ہے
👈تخیل اور تجزیہ کی آنکھ مچولی کا پہرہ دیتی ہے
👈ادیب کی استعداد اور معاشرے میں اس کے مقام پر گفتگو کرتی ہے
👈طبعی رجحان اور شخصی نظریات کا خارجی تجزیہ لگاتی ہے
👈زبان اور بیان کے تقاضوں پر عَمَلی تبصرہ کرتی ہے
👈شعری وجدان اور خدا داد صلاحیت پر تحسین بھی کرتی ہے
اسی طرح جب نثر انتقاد عَمَل ہو تو اس میں ناقد کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اولاً تفہیم کرے اور پھر اس کے مندرجات کی پرکھ درست و نادرست ہونے کے اعتبار سے کرے، چونکہ فصیح و أفصح کا مرحلہ بہر طور درست و نا درست کے بعد ہی آتا ہے، اس لیے اس عَمَل کی درجہ بندی بھی ضروری ہے
تنقید اگر حق بجانب یا غیر معیاری یا تعصبانہ ہو تو یہ تنقید برائے تنقید رہ جاتی ہے، اس ترکیب میں پہلا لفظِ تنقید اسی معنیٰ کا حامل ہے جو اوپر فَقَط معائب و قبائح کو مشتمل، عربی صرف و نحو کے حوالے سے گزر چکا یے، اس کے نقصانات ادیب یا شاعر کو بالکل بھی نہیں بلکہ اس کے اثرات براہِ راست ادب پر مرتب ہوتے ہی تنقید کا منصب جہاں فن پاروں کی تشریح و توضیح ہے وہاں فن کی تحسین، تخلیق کے قریب چیز بھی ہے۔ تحسین کا کام چیزوں کو اجاگر اور روشن کرنا، تحریک دینا اور استحسان کے لئے ہماری ذہانت کو جلا بخشنا ہے
ایک مغربی نقاد ایڈسن کے خیال میں :
”ایک سچا نقاد کسی ادیب یاکسی ادب پارے کی خامیوں پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا کہ اس کی خوبیوں پر۔“
ہڈسن مزید لکھتا ہے کہ :
_”اگر ادب مختلف صورتوں میں تشریحِ حیات ہے تو تنقید ادب کی اس تشریح کی تشریح ہے۔“
ان نقادوں کی آراء سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ نقاد کا کام صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہے اور اسے اس کی خامیوں کی نشاندہی نہیں کرنی چاہیے، حالانکہ تحریر کے عیوب اور اظہار و بیان کے انداز کے معائب بے نقاب کئے بغیر محاسن کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکتا، اس لئے تنقید کا منصب صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے معائب کو بھی قارئین کے سامنے لانا ہے۔ کیونکہ محاسن و معائب کے ایک ساتھ بیان سے نقاد فن کار کی رہنمائی کرتا ہے اور فن کی ترقی کے لئے راہیں کھولتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ نقاد کا ایسا بے لاگ اور متوازن بیان عام قارئین کے ذوق ادب میں اضافہ اور اصلاح کا باعث بنتا ہے۔
یہ تو تیار کردہ مستقل سوالات کے جوابات تھے اب آتے ہیں دوارنِ پروگرام کیے گئے کچھ جزئی مگر علمی سوالات کے جواب کی جانب ان میں اکثر سوالات صابر جاذب پاکستان کے تھے
کیا تنقید محض سطحی ہے ۔ اس کا تعلق زبان ‘ محاورہ اور عروض سے ہے؟
جواب۔۔ تنقید بالکل سطحی نہی ہے بلکہ یہ مکمل لائحۂ عَمَل کا نام ہے
زبان و محاورہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو تنقید اصول کی پابندی بھی کرتی ہے اور بعض دفعہ اصول وضع بھی کرتی ہے، اصول کی گھڑت شعری کائنات میں تفہیم و توضیح کے نئے در وا کرتی ہے، ماضی میں تخلیقات پر تنقید کا اثر مستقبل یا حال پر مرتب ہوتا ہے اور اس کے مماثلاتی اثرات نئی تخلیق پر لاگو بھی کیے جاتے ہیں اور فن کار کا فَن اپنی جدت برقرار رکھنے کیساتھ ساتھ روایت کی چاشنی سے بھی ہم آہنگ ہو جاتا ہے
نکھار لانا تنقید کا کام نہیں، لیکن یہ اسے متضمن ضرور ہے، تنقید برائے اصلاح کی اصطلاح اسی معنیٰ کی طرف اشارہ کرتی ہے، ادب میں اس طرح کی تنقید کی بہت سی امثلہ تاریخِ ادبِ عالَم میں محفوظ ہیں
غلام مصطفیٰ اعوان دائم
بالکل ،
صحت زبان اولین شرط ہے ۔۔۔با محاورہ ۔۔سلیس اور شستہ زبان کو اہميت دی جاتی ہے ۔۔۔اقبال کے استعارے برتنے کے انداز نے انہیں جاوداں کردیا ۔۔
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
اور اسی قسم کے
صنعت کو استعمال ۔۔نے انیس کو صف اول میں لا کھڑا کیا
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا جو گرتا تھا دانا زمین پر
حالی نے ،آزاد نے ، سرسید وغیرہم نے نثر میں بامحاورہ زبان استعمال کی ہے
ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا
سوال۔۔کیا تنقید کا کام محض شعر و ادب کی اقداری معنویت متعین کرنا ہے؟
تنقید کو صرف اقداری معنویت متعین مطلوب نہیں ہوتا، بلکہ تنقید کا اولین مقصد اور غرضِ سامی تفہیم ہوتی ہے
غلام مصطفیٰ اعوان دائم
اور اس سوال کے جواب میں مزید ارشاد فرمایا کہ
اس کی اگر درجہ بندی کروں تو… تنقید کے مقاصد کو آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ :
پہلی کڑی. قرات
دوسری کڑی. تفہیم
تیسری کڑی. داخلی عوامل کا جائزہ
چوتھی کڑی. داخلی عوامل کے انحصاری پہلو
پانچویں کڑی. خارجی عوامل
چھٹی کڑی. خارجی عوامل کے اوصاف، چاہے عادی ہوں یا غیر عادی
ساتویں کڑی. محاسن کا تعین
آٹھویں کڑی. معائب کا تعین
نویں کڑی. ممکنہ انطباق
سوال ایک نقاد کس نظریے کی بنیاد پر اپنی تنقید کی عمارت کھڑی کرتا ہے؟
نقاد کا نظریہ جن اجزاء سے مل کر اپنی عمارت بناتا ہے… ضروری ہے کہ ان اجزاء کا مطالعہ کیا جائے….
ایک نقاد کا مطمع نظر صرف سیکھنا اور سکھانا ہوتا ہے، اگر وہ تنقید برائے تنقید ہو تو اس کے مضمرات بہت ہیں……
جس نظریے پر ایک ناقد اپنی تنقید کی عمارت تعمیر کرتا ہے، وہ نظریۂ تفہیم ہے…….
غلام مصطفیٰ اعوان دائم
ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا نے اس جواب سے اتفاق کیا
اس پر دائم صاحب نے مزید ارشاد فرمایا کہ
اس بارے میں ٹی ایس ایلیٹ کی کتاب سے مستفاد چند چیزیں ملاحظہ ہوں کہ :
ایک نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ نہ صرف نئے اقدار کا تعین کرے بلکہ قدیم فن پاروں کی حسنِ ترتیب کو تازہ علم کے ذریعے بدل ڈالے اس کے خیال میں تقریباً ایک صدی کے بعد ایسے نقاد کی ضرورت ہے۔ جو ماضی کے ادب کا ازسرنو جائزہ لے۔ ماضی کے شعراءاور عظیم فن پاروں کو نئے ترتیب کے ساتھ پیش کرے اس طرح جدید فن پاروں کا قدیم سے موازنہ بھی ہو جاتا ہے اور کئی گمنام شاعروں کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔ نقاد کا کام یہ بھی ہے کہ ادب کے وہ گوشے جو مکمل طور پر سامنے نہ آئے ہوں انھیں پیش کر دے خواہ وہ قلیل ہی کیوں نہ ہو اور اس میں پرانے شاعروں کے کلام کی ازسرنو تشریح بھی شامل ہے۔ کسی نئے اور اہم فن پارے کی تخلیق پرانی ترتیب کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ اور نقاد اسے تنظیم نو سے نوازتا ہے۔ ایلیٹ اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب کوئی فن پارہ تخلیق پاتاہے تو اس کا اثر ان فن پاروں پر بھی پڑتا ہے جو اس سے پہلے تخلیق ہو چکے ہیں۔ نئے فن پارے کی تخلیق سے پہلی ترتیب اور پہلا نظام بگڑ جاتا ہے اور نقاد کو نئے فن پارے کے لیے اس مثالی نظام کو ازسرنو تشکیل دیناپڑتا ہے۔
سوال ۔ ایک نقاد میں اپنی پسند،نا پسند کا کس حد تک عمل دخل ہوتا ہے؟
ایک ناقد کا اولین فرض تو یہ ہے کہ وہ تعصب کی آلائش سے اپنے نظریات کو پاک کر کے دلیل کی بنیاد پر بات کرے، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ ناقد تو ہوگا، لیکن بزعمِ خویش…
ادب میں اس کا مرتبہ گر جائے گا
غلام مصطفیٰ اعوان دائم
ٹی ایس ایلیٹ مشرقی فلسفے سے زیادہ دل چسپی رکھتا تھا یا دیگر فلسفوں سے؟
اگر چہ مغربی فلسفہ بھی مضبوط تھا. مگر اس میں سطحیت زیادہ تھی،
ایلیٹ کی تنقید میں اتنی گہرائی اور معنویت ہء کہ اسے مغربی نقد نگاروں نے نھی تسلیم کیا
غلام مصطفیٰ اعوان دائم
حالانکہ افریقی ہونے کے ناطے اپنی روایات سے جڑا ہوا ہونا چاہیے تھااپنی کتاب :افٹر سڑینج گارڈ: میں زیادہ تر افریقی فلسفے سے مرغوب دکھائی دیتا ہے؟
ضروری نہیں کہ جو کہاں کی. نسبتِ مکانی رکھتا ہو وہ اسی سے متاثر ہو، اس کی تاریخ میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں، تجدیدِ فلسفہ ایک الگ ٹاپک ہءے، اس پر کبھی بات کریں تو میں تفصیلی موقف بیان کر سکوں
غلام مصطفیٰ اعوان دائم
متھیو آرنلڈ انیسویں صدی کا مشہور نقاد ھے۔اسکے تنقیدی اصولوں کو درست مانا جاتا ھے یا ٹی۔ایس۔ایلٹ کے ؟
ماننے والے دونوں طرف ہیں، میتھیو آرنلڈ کے پیروکار زیادہ ہیں.. لیکن نظریات میں رسوخ ایلیٹ کے زیادہ ملتا ہے……
غلام مصطفیٰ اعوان دائم
انگریزی تنیقد نے مشرقی تنقید پر کتنا اثر ڈالا
کیا مشرقی انداز تنیقد مغربی انداز تنقید کا ہی رنگ ہے
فارسی و عربی میں تنقید کا اثر کس حد تک ہوا؟
انگریزی تنقید نے اسلوب اور داخلی اعتبار سے اثر ضرور چھوڑا ہے، اس کی مثالیں ہماری جدید نقد نگاری میں بہ کثرت مل جائیں گی،
جہاں تک عربی کے اثر کی بات ہے تو عربی میں نقد نگاری نہ ہونے کے برابر ہے
غلام مصطفیٰ اعوان دائم
نیز فرمایا کہ اور عربی کی اثر پذیری 10%” سے بھی کَم ہے، مشرقی شعریات اور اصولِ انتقاد کے اپنا نظام بہت منضبط ہے، جو کسر رہ گئی تھی، وہ مغربی طرزِ انتقاد کے استفادے سے پورا ہو گیا….. عربی نقد نگاری کا زیادہ حصہ اصول حدیث کیساتھ خاص ہے، باقی بہت ہی کم
فارسی میں تنقید کے تعلق سے عرض کیا کہ فارسی نقد نگاری ظنیات پر مبنی کہوں تو بے جا نہ ہوگا….
تہران یونیورسٹی ایران میں البتہ اصولیات پڑھائی جاتی ہیں، اور نقد نگاری کے اصول مرتب ہو رہے ہیں، پڑھائے بھی جاتے ہیں،…
پاکستان اور دیگر ممالک میں فارسی کا اثر بہت کم ہے، لیکن عربی سے زیادہ فارسی اصولیات اور استشہادات سے ہماری مشرقی نقد نگاری ماخوذ ہے….
لیکن یہ بھی 12% سے زیادہ نہیں
سوال ۔حالی کے مقدمہ شعر و شاعری سے پہلے تنقید کا رنگ و روپ مشرقی تھا یا کوئی اور رنگ؟
حالی سے پہلے برصغیر میں تنقیدی رنگ خالص مشرقی تھا، حالی نے اسے توسیع بخشی ہے
غلام مصطفیٰ اعوان دائم
میرے اپنے مطالعے کی بنیاد پر تبصرہ نگاری تک محدود تھا ۔۔محمد حسین آزاد نے آب حیات میں تبصرہ مع تذکرہ کیا ہے ۔۔حالی نے مقدمہ شعر وشاعری لکھ تنقید کی بنیاد ڈالی خصوصاً باب غزل کے محاسن لکھ ۔۔۔مگر یادگار غالب میں انہوں نے تنقید کے ساتھ غالب فہمی کی بنا ڈالی ۔۔
ضروری نہیں میری آراء سے اتفاق کریں ۔۔۔
ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا
یہ ان سوالات کے جوابات تھے جو دوارانِ پروگرام میں کیے گئے تھے آخر میں دو لوگوں کے تآثرت پیش کرتا ہوں
تآثر 1 شماد سرائی پاکستان
آج کا یہ منفرد اور بامقصد پروگرام تنقید جیسے complicated موضوع پر اپنی نوعیت کا خاص پروگرام تھا۔جسمیں کافی نئی ناتیں سامنے آئی ھیں۔ میں مجموعی طور پر ایک اچھا پروگرام پیش کرنے پر محترم توصیف ترنل صاحب اور انکے معاونین کو مبارکباد پیش کرتا ھوں۔اور امید کرتا ھوں کہ مستقبل قریب میں ایسے ھی معلوماتی اور با مقصد مزید پروگرام پیش کیے جائیں گے۔
شمشاد سرائی چیئرمین ادبی قبیلہ انٹرنیشنل لیہ (پاکپاکستان
تآثر 2 صابر جاذب
آج کا یہ پروگرام تنقید جیسے خشک موضوع پر انتہائی خاص پروگرام تھا۔جس میں کافی ساری معلومات سامنے آئی ھیں۔ ایسا معلوماتی پروگرام پیش کرنے پر محترم توصیف ترنل صاحب اور انکے معاونین کو مبارکباد پیش کرتا ھوں۔
خصوصی طور جناب غلام مصطفی دائم صاحب کا تازیست ممنون رہوں گا جنہوں نے میری معلومات میں حسین اضافہ فرمایا
صابر جاذب لیہ پاکستان
اس طرح سے یہ پروگرام اب تک کے کامیاب ترین پروگرام میں ایک کامیاب علمی پروگرام ہوا جسکے لیے ادارے کے چیرمین توصیف ترنل اور تمام احباب کا عموماً اور غلام مصطفیٰ اعوان دائم بھائی کا خصوصاً شکریہ ادا کیا جاتا ہے والسلام