’عالمی ادب میں تنقید کی اولین مثال‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ ارسطو سے بھی ڈیڑھ ہزار برس قبل جس ادبی تخلیق سے تنقیدی شعور کی نشان دہی ہوتی ہے اس کا خالق خاخپ ادر اسنوب تھا۔ بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خاخپ ادر اسنوب کی یہ تصنیف فراعنہ مصر کے بارھویں خاندان کے زمانے میں تخلیق کی گئی۔
اردو میں جدید تنقید کا آغاز حالی کے مقدمہ شعروشاعری (1893ء) سے کیا جاتا ہے۔
ان کے بعد فراق گورکھپوری، آل احد سرور، مجنون گورکھپوری، احتشام حسین، علی سردار جعفری، عزیز احمد، محمد حسن عسکری، سلیم احمد، عابد علی عابد، محمد احسن فاروقی ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے نقاد بھی ہیں۔ اسی طرح فیض، انتظار حسین، شمس الرحمان فاروقی، ساقی فاروقی،آغا سہیل، جیلانی کامران، انیس ناگی، سجاد باقر رضوی، عرش صدیقی، احمد ندیم قاسمی، وحید قریشی، مشفق خواجہ اور سید قدرت نقوی ادیب، شاعر اور نقاد ہیں۔
اگر چہ اقبال نے تنقید پر باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن ان کی شاعری، خطوط اور مقالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اعلی تنقیدی شعور کے مالک تھے۔
تصورات نقد کی شیرازہ بندی مختلف وجوہات کی بنا پر کی جاتی ہے۔ کسی نظام فکر سے وابستہ افراد اور ان کی ذہنی کاوشوں کو “دبستان” کہتے ہیں۔ دبستان کی تشکیل کے دو اسباب بہت اہم ہیں۔ اول کسی علمی نظریہ کا اثر، دوسرے کسی مسلم ادبی نظریہ یا ادبی تحریک کے خلاف رد عمل کا اظہار، جو انفرادی سطح سے بلند ہو کر بعد ازاں باقاعدہ نظریہ یا تحریک کا روپ دھار لیتا ہے۔
تنقید کے مندرجہ ذیل اسالیب اور اقسام ہیں
تشریعی تنقید Judicial criticism
یہ معیار پرستی پر مبنی معیار نقد ہوتی ہے ملکہ ایلزبتھ کے عہد کے بیشتر نقاد اسی انداز کے حامل تھے۔ اردو میں حالی سے پہلے کے نقاد عام طور پر اس قسم کی تنقید کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ تنقید کا قدیم ترین دبستان یعنی کلاسیکی تنقید بلحاظ نوعیت تشریعی ہی تھی۔ بعض لوگوں نے اسے اخلاقی تنقید کے مترادف قرار دیا ہے۔ تشریعی تنقید کی مثالوں میں آزاد کی ’’آب حیات‘‘ کی بعض آراء پیش کی جا سکتی ہے۔ آزاد نے بہادرشاہ ظفر کا سارا کلام ذوق کے کھاتہ میں ڈال دیا تھا۔ اسی طرح شبلی نے ’’موازنہ دبیر‘‘ میں دبیر کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔
سائنٹفک تنقید Scientific Criticism
یہ اصل میں کڑی معیار پرستی کے خلاف ردعمل ہے۔ اس میں تجزیاتی اور استقرائی تنقید شامل ہیں۔ تجزیاتی تنقید کا پیش رو ولیم ایمپسن تھا۔
استقرائی تنقیدی دبستان کا بانی رچرڈ مولٹن تھا۔
سائنسی تنقید کو ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ اقبال کا شعر ہے:
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں!
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں!
ہمالہ کی چوٹی کی صحیح پیمائش بتانے کے بعد سائنس دان کا کام ختم ہوجاتا ہے مگر شاعر کا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر کو چوٹی کی بلندی کی درست پیمائش سے دلچسپی نہیں۔ شاعر تو قاری میں ہمالہ کی بلندی کا احساس جذباتی تلامذوں اور احساساتی تمثالوں سے ابھارتا ہے۔
اسی طرح سائنسی تنقید حسن تعلیل کی صحیح توجیہ نہیں کرسکتی مثلا غالب کہتے ہیں:
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
سائنسی معیارات پر شاعری کو نہیں پرکھا جا سکتا۔
اسی وجہ سے ٹی ایس ایلیٹ کہتے ہیں ’’تنقید نہ تو سائنس ہے اور نہ ہی وہ سائنس بن سکتی ہے‘‘۔
تقابلی تنقید Comparative Criticism
یہ ادبی تخلیقات کی میزان کی حیثیت رکھتی ہے۔ قدیم تذکروں میں اس قسم کی تنقید ملتی ہے۔ اردو کے تقریبا سبھی قابل ذکر نقاد مختلف صورتوں میں تقابلی تنقید سے کام لیتے رہے ہیں۔ جس کا معروف انداز غیر ملکی ادیبوں سے تقابل کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلا ڈاکٹر عبدالرحمان بجنوری نے گوئٹے، ورڈزورتھ، بادلیر اور ملارمے سے غالب کا تقابل کیا ہے۔ اس طرح آغا حشر کو انڈین شیکیسپئر اور اختر شیرانی کو اردو کا کیٹس قرار دیا گیا ہے۔
رومانی تنقید Romantic Criticism
یہ نقد و شعر میں الہامی سر چشموں کی تلاش ہے۔ رومانیت کی تعریف میں شدید اختلاف ہے۔ سب سے پہلے 1781ء میں وارٹن اور ہرڈر نے لفظ رومانیت استعمال کیا۔ اس کے بعد گوئٹے اور شلر نے 1802ء میں ادبیات کے سلسلہ میں اس کا اطلاق کرنا شروع کیا لیکن شلیگل اور مادام ڈی اسٹائل نے اسے ایک اصطلاح کی شکل میں رائج کیا۔ ورڈز ورتھ اور کولرج نے اسے بطور شاعرانہ مسلک اور تصور نقد مقبول بنا کر پیش کیا۔ رومانیت کلاسیکت کی رد عمل کے طور پر سامنے آئی ۔غالبا سب سے پہلے گوئٹے نے رومانیت بمقابلہ کلاسیکیت قسم کی بحث کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بقول ’’رومانیت مرض ہے جبکہ کلاسیکیت صحت‘‘۔
کیا اردو میں رومانی تنقید ہے؟ عام طور پر مہدی افادی، امداد امام اثر، عبدالرحمان بجنوری اور آل احمد سرور کو رومانی نقاد کہا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر سلیم اختر کے نزدیک ان میں سے کوئی بھی رومانی نقاد نہیں۔ محمد حسین آزاد کی ’’آب حیات‘‘ میں رومانیت کے کچھ عناصر ملتے ہیں۔ شبلی نے بھی رومانی نقاد کولرج کا مطالعہ کیا تھا لیکن ان کی کتاب ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ تقابلی تنقید کی کتاب ہے نہ کہ رومانی تنقید کی۔ نیاز فتح پوری بھی رومانی سے زیادہ تاثراتی تنقید کے طرف مائل ہیں۔ مجنون گورکھپوری بھی رومانی نہیں مارکسی نقاد ہیں۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ’’رومانی تنقید‘‘ پر 24 صفحات کے مقالہ میں اردو کے ایک بھی رومانی نقاد کا نام درج نہیں کیا۔
جمالیاتی تنقید Aesthetical Criticism
یہ تخلیق میں حسن اور اسلوب میں حسن کاری کا مطالعہ ہے. ایک جرمن فلاسفر بام گارٹن نے سب سے پہلے 1737ء میں جمالیات کی اصطلاح وضع کی تھی۔ جمالیاتی تنقید کی اساس ان مظاہر حسن کے ادراک پر استوار سمجھی جانی چاہئے. جن کا ادبیات میں کسی نہ کسی ذریعہ سے اظہار کیا جاتا ہے اور جمالیاتی نقاد کے بموجب جن کی پرکھ میں ہی اصل فن پارہ کی شناخت مضمر ہے۔ تخلیق کار کی شعوری کاوش سے جب حسن کی صورت پذیری ہو، کسی مخصوص انداز سے اس کا اظہار ہو تو یہ جمالیاتی تخلیق ہوگی۔ والٹر پیٹر جمالیاتی تنقید کا اہم ترین علمبردار ہیں۔ اس کے بعد کروچے ہیں۔
جمالیاتی تنقید، تنقید کے دیگر دبستانوں سے اس بنا پر ممتاز ہوجاتی ہے کہ اس میں حسن اور حسن کاری کے مطالعہ کو تنقید کی اساس ہی نہیں تصور کیا جاتا بلکہ ان کے علاوہ اور کسی چیز کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اسی لئے تو جمالیاتی نقاد ادبی تخلیقات میں حسن اور دلکشی پیدا کرنے والے خصائص کے تجزیہ اور مطالعہ کو اولین اور اساسی اہمیت دیتا ہے۔
جمالیاتی تنقید، تنقید کے دیگر دبستانوں سے بعض اساسی نوعیت کے اختلافات کی بنا پر یوں ممتاز ہوجاتی ہے کہ ایک تو اس میں تجزیاتی طریق کار کو بروئے کار نہیں لایا جاتا،اور دوسرے یہ فیصلہ تو صادر کرتی ہے لیکن یہ فیصلہ کسی اصول، لسانی قانون یا فنی ضابطہ پر استوار کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ نیاز فتح پوری کی تنقید کو اردو میں جمالیاتی تنقید کا سب سے اچھا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عابد علی عابد بھی جمالیاتی تنقید کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
تاثراتی تنقید Impressionistic Criticism
یہ اصول نقد میں تاثرات کی تخلیق نو ہے۔ والٹر پیٹر کے نزدیک تاثراتی تنقید کو جمالیاتی تنقید کی غلو پسندی نے جنم دیا۔ اس کو امریکی نقاد جویل سپنگاراں نے جداگانہ دبستان کی شکل میں مشہور کرایا۔ بس جس نظم نے کسی نقاد کو متاثر کیا تو اس کے نزدیک وہ بہترین نظم ہے۔ اس تنقید کا خاصا یہ ہے کہ نقاد تاثرات اخذ کرتا ہے اور پھر ان تاثرات کو بیان کرتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر تاثراتی اور جمالیاتی تنقید کو مترادف سمجھا جاتا ہے حالانکہ دائرہ کار کے لحاظ سے جمالیاتی کے مقابلہ میں تاثراتی تنقید خاصی محدود ہے کہ اس میں صرف اور صرف تاثرات سے سروکار رکھا جا تا ہے جبکہ جمالیاتی تنقید کی اساس ایک باضابطہ فلسفیانہ نظام فکر پر استوار ہے۔
بحیثیت مجموعی تاثراتی تنقید کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں ادبی تنقید کے بنیادی مقصد یعنی ادب میں تعین قدر کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
اردو میں تاثراتی تنقید کے ضمن میں فراق گورکھپوری کی ’’اندازے‘‘ سب سے معروف تنقیدی کتاب ہے۔ اسی طرح محمد حسن عسکری بھی ’’انسان اور آدمی‘‘ میں تاثراتی تنقید کے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ ن۔ م۔ راشد بھی تاثراتی ذہن رکھتے ہیں۔
کلیم الدین احمد کہتے ہیں:
’’جو تاثراتی تنقید کو تنقید سمجھتا ہے وہ صحیح معنوں میں نقاد نہیں ہو سکتا‘‘
تاریخی تنقید Historical Criticism
یہ تخلیقات میں تاریخی عمل کی نشاندہی کرتی ہے۔ 1675ء میں نیپلز کے فلسفی ویچو نے ایک رسالہ میں غالباً پہلی مرتبہ ادب کی سماجی تعبیر کرنے کی کوشش کی۔ زمانی و مکانی بعد کے باوجود جانسن نے بھی یہ کہا :
’’کسی تخلیق کے بارے میں صحیح فیصلہ کرنے کے لئے ہمیں خود کو اسی عہد میں سانس لیتا ہوا محسوس کرنا ہوگا اور اسی طرح سے اس امر کا تعین کرنا ہوگا کہ ادیب کے ہمعصروں کے کیا کیا تقاضے تھے اور اس نے ان تقاضوں کی بجا آوری کے لئے کیا کیا ذرائع استعمال کئے‘‘۔
تاریخی تنقید کا باقاعدہ آغاز فرانسیسی نقاد ایڈمنڈ شیرر سے سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ’’تین‘‘ جو کہ فرانسیسی تھے، ایک فارمولا پیش کرتے ہیں۔ اس کے مطابق نسل، ماحول اور لمحہ تخلیق تاریخی تنقید کے لئے ضروری ہیں۔
تاریخی تنقید میں ادیب اپنی انفرادیت اور شعور و وجدان گنوا کر اور اس نظریہ کی رو سے محض ایک خاص نسل اور ماحول کا نمونہ بلکہ ضمنی پیداوار بن کر رہ جاتا ہے۔
عمرانی تنقید Sociological Criticism
تخلیقات میں عصری، شعور اور سماجی محرکات کی تلاش عمرانی تنقید کا کام ہے۔ ولبر سکاٹ کے مطابق ویچو عمرانی تنقید کی اولین مثال کے طور پرلیا جاتا ہے۔ اردو میں مولانا حالی پہلے نقاد ہیں جس نے ادب اور سوسائٹی کے تعلق پر بحث کی ہے۔ عصری رجحانات کے مطالعہ کے لئے اردو میں دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں کی مثال بے حد نمایاں ہے۔ ان دونوں دبستانوں کے مخصوص رجحانات ان میں قطبین کا بعد پیدا کردیتی ہیں۔
آل احمد سرور ’’حالی کے بعد اردو میں کوئی ایسا نقاد نہیں ہے جو ٹی ایس ایلیٹ کے الفاظ میں آفاقی ذہن رکھتا ہو‘‘۔
عمرانی نقاد کے دو اہم فریضے ہیں۔ وہ ایک مخصوص سماج اور معاشرہ سے وابستہ رجحانات کے تجزیہ سے ایک خاص عہد کے ذہنی پس منظر کا تعین کرتا ہے۔ پھر ان کی روشنی میں شاعر کے کلام کا جائزہ لے کر اس امر کا تعین کرنا ہوگا کہ ان سماجی عناصر نے اس کے کلام میں کہاں تک فروغ پایا ہے۔
اردو میں ابن الوقت ، امراؤ جان ادا، ٹیڑھی لکیر، اداس نسلیں، آنگن، زمین، بستی، تذکرہ، آگے سمندر ہے وغیرہ ناول وسیع تر عمرانی تناظر کے ناول ہیں۔
نفسیاتی تنقید Psychological Criticism
اس کو آپ تخلیق اور لاشعوری محرکات کی طلسم کاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ نفسیاتی تنقید کی اساس فرائڈ کا نظریہ لا شعور بنا پھر اس میں ایڈلر اور ژنگ کی تعلیمات سے مزید گہرائی پیدا کی گئی۔ اس تنقید میں اصناف ادب کے نفسیاتی محرکات کا سراغ، تخلیق کار کی شخصیت کی نفسی اساس کی دریافت اور نفسیاتی اصولوں کے سیاق وسباق میں مخصوص تخلیقی کاوشوں کی تشریح و توضیح اور پھر ان کے ادبی مرتبہ کا تعین شامل ہیں۔ ایچ سمرول نے ’’میڈنیس ان شیکیسپئر ٹریجڈی‘‘ میں شیکسپیئر کی یوں تشخیص کی کہ وہ مینک ڈیپریسیو تھا۔ یہ نیم دیوانگی کی وہ قسم ہے جس میں مریض پر خوشی اور پژمردگی کے دورے سے پڑتے ہیں۔ ایک وقت ضرورت سے زیادہ خوش تو دوسرے وقت غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ملتا ہے۔ بہت سے شعراء یوں غم اور خوشی کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتے رہتے ہیں۔ اس نے سوال کیا کہ ’’کیا شیکسپیئر بھی ایسی ہی کیفیات سے دوچار تھا؟‘‘ اور اپنے استدلال سے اس بات کا جواب بھی دیا کہ جب ہم فلسٹاف اور میکبتھ کا مطالعہ کریں تو اس ضمن میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں رہتا‘‘۔
اس تنقید نے تو بڑے بڑے تخلیق کاروں کی ابنارملٹی، جنسی بے راہ روی، خانگی ناچاقی، نشہ، جرم، ہم جنس پرستی، ذہنی امراض، افیونی ہونے وغیرہ کو بھی چھیڑا ہے اور اس سے نتائج برآمد کئے ہیں۔ مرزا ہادی رسوا اردو کا پہلا نفسیاتی نقاد ہے۔ جس نے ایک طوائف پر ناول ’’امراو جان ادا‘‘ لکھی ہے مرزا نے امریکہ سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی اس تنقید کے مطابق کسی تخلیق کار کے ذاتی خطوط سے بھی اس کے لاشعور کو جانچا جا سکتا ہے جیسے شبلی کے خطوط عطیہ بیگم کے نام یا ’’شبلی کی حیات معاشقہ‘‘ سے شبلی کے جذباتی کشمکش کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر کے ’’اسی طرح اقبال نے عطیہ بیگم کو جو خطوط لکھے، ان میں بھی اس جذباتی کشمکش کا بین السطور مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ (مزید تفصیلات کے لیے راقم کی کتاب ’’اقبال کا نفسیاتی مطالعہ‘‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے‘‘۔
مارکسی تنقید Marxist Criticism
یہ تخلیقات اور جدلیاتی معیار کی بحث ہوتی ہے۔ یہ کارل مارکس کی طرف منسوب ہے۔ اس تحریک کا آغاز خالصتاً ادبی مقاصد کے لئے نہ تھا اس لحاظ سے یہ کسی حد تک نفسیاتی تنقید کے قریب ہوجاتی ہے۔ مارکسی تنقید میں نقاد ادب زندگی اور معاشرہ کے مادی ارتقاء میں شریک کار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ارتقاء کے مختلف مدارج کا عکس بھی پیش کرتا ہے۔ یعنی ادب کو امیر و غریب، حکمران و محکوم، سرمایہ دار و مزدور، کسان و زمیندار کی صورت میں پائی جانے والی طبقاتی کشمکش میں غریب اور پسے ہوئے پرولتاری طبقہ کا ساتھ دینا چاہئے۔ میکسم گورکی کے خیال میں:
’’ہماری تمام تصنیفات کا ہیرو مزدور ہونا چاہئے بالفاظ دیگر محنت کے عمل سے جنم لینے والا …… انسان‘‘۔ اس تنقید کے اہم نقاد، لینن، ماوزے تنگ، میکسم گورکی، فیض، احمد ندیم قاسمی، عزیز احمد وغیرہ ہیں۔
ہیتی تنقید Formalist Criticism
یہ تخلیق کی صورت پذیری کا تجزیاتی مطالعہ ہے۔ اس تنقید کی ابتداء کو ارسطو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا بڑا نام یوجینی زمیتن کا ہے۔ اس تنقید میں فن پارے کی ہیت اور فریم پر بحث کی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر فن پارے کی دو ہیتیں ہوتی ہیں ایک تو خارجی اور ایک داخلی۔ اردو میں شمس الرحمان فاروقی نے اس بارے میں کافی کام کیا ہے۔ اس بارے میں اقبال سوال اٹھاتے ہیں:
آیا کہاں سے نالہ نے میں سرور مے
اصل اس کا نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے
یعنی شعرکی ہیت کے علاوہ اصل چیز نے نواز کا دل ہے۔ چوب نے اصل نہیں ہے۔
تو حرف و معنی کا ارتباط ضروری ہے۔ اس ارتباط سے اعلی فن پارہ بنتا ہے بقول اقبال
ارتباط حرف و معنی، اختلاط جان و تن
جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے
اسلوبیاتی تنقید Stylistic Criticism
یہ اسلوب کی مرصع سازی کا تجزیاتی مطالعہ ہے۔ اردو میں آتش کے ایک شعر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسلوبیاتی تنقید کا پیش رو ہے۔ وہ کہتے ہیں
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
اسی طرح میر، غالب اور سیف الدین سیف بھی اسی انداز اسلوب پر ناز کرتے تھے۔ اسلوبیات میں تشبیہ ، استعارہ، اور صنعتوں سے متعلق اصطلاحات کے برعکس صوتیات کی معروف اصطلاحات کا سکہ چلتا ہے جسے مصوتہ، مصمتہ، دوہرا مصوتہ، انفی مصمتہ، انفیا مصوتہ، ھکاری آواز، کوزی آوازاور صفیری آوازیں وغیرہ۔ لسانیات اور صوتیات پر بھارت میں پاکستان سے زیادہ کام ہوا ہے کیونکہ یہ ان کی جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔
اسلوبیاتی نقاد کو الفاظ کی اصوات سے اساسی دلچسپی ہوتی ہے۔ اسلوبیاتی تنقید میں اسلوب قائم بالذات ہے۔
اسلوبیات کے بارے میں اردو کے سب سے بڑے اسلوب گر شاعر اقبال کہتے ہیں:
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
ساختیاتی تنقید Structural Criticism
یہ تخلیق میں زبان کے داخلی نظام کا مطالعہ ہے۔ اگر چہ اردو تنقید کی ساری بہار مغرب کی مرہون منت ہے لیکن ساختیاتی تنقید کے بارے میں اردو میں کسی نے کچھ نہیں لکھا۔ ہاں ایک امریکی خاتون لینڈا ونٹنگ نے انور سجاد کے افسانہ ’’خوشبوؤں کا باغ‘‘ کا ساختیاتی تنقید کی روشنی میں مطالعہ کرکے اس موضوع پر ایک مقالہ لکھا جو بقول ڈاکٹر سلیم اختر کے اردو میں ساختیاتی تنقید پر پہلا مقالہ ہے۔ اس بارے میں روس میں بہت کام ہوا۔ روس میں شکلووسکی اس کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ اس کے بعد 1928ء میں چیکو سلواکیہ میں لسانیات کا بین الاقوامی کانگرس کا انعقاد ہوا جس نے ہیت پسندوں کے دبستان کو اساس مہیا کی۔ اس بارے میں رومن جیکب سن نے بہت کام کیا۔ اس نے روس، چیکوسلواکیہ، امریکہ اور فرانس میں ساختیت کے فلسفہ کی ترویج کی۔
لیوی سٹراس نے اس دبستان کو آگے بڑھایا۔ وہ کہتا ہے کہ شاعری کی صورت میں زبان کے جو ساختیاتی پیکر بنتے ہیں وہ بے لچک ہوتے ہیں اور ان کی تمام تر اثر اندازی ان لسانیاتی پیکروں سے مشروط ہوتی ہے۔ لیکن ترجمہ کی صورت میں جب ان ساختیاتی پیکروں کا انہدام عمل میں آتا ہے تو شاعری کا حسن اور تاثیر مجروح ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ حسن، حسن ادا کا دوسرا نام ہے اور تاثیر ساختیاتی پیکروں سے جنم لیتی ہے، اسی لئے ترجمہ تو کیا صرف ایک لفظ آگے پیچھے کر دینے سے شعر کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ ساختیاتی نقادوں کو ’’لیموں نچوڑوں کا دبستان نقد‘‘ قرار دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا ساختیاتی مطالعہ امریکی ڈاکٹر باربراڈی میٹکاف نے بہت خوب کیا ہے۔ انھوں نے 1977ء کی بین الاقوامی اقبال کانفرنس میں اس نظم پر مقالہ ’’ریفلیکشن آن اقبالس ماسک‘‘ لکھا تھا۔ وہ کہتی ہے کہ اقبال نے اس نظم میں اشعار کی صورت میں خود بھی ایک مسجد تعمیر کی ہے۔
پاکستان میں ڈاکٹر فہیم اعظمی کا ماہنامہ ’’صریر‘‘ اور قمر جمیل کا ’’دریافت‘‘ ساخیات کے فروغ کے لئے وقف ہیں۔
ساختیات میں رولاں بارت کے اس قول کی بہت اہمیت ہے:
’’تحریر خود لکھتی ہے مصنف نہیں لکھتا‘‘ اور یہ کہ ’’لکھنے کے بعد مصنف کی وفات ہوجاتی ہے اور اس کی تحریر پر محض اس کے دستخط ہوتے ہیں‘‘۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...