کرپشن کوئی نیا نام نہیں ہے بلکہ تخلیق آدم کے ساتھ ہی یہ لفظ مختلف صورتوں میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنا وجود بناءے رکھا ہے. عام طور پہ رشوت ستانی اس لین دین کو کہتے ہیں جو کسی جائز یا نا جائز کام کو جائزو ناجائز طریقے سے سرانجام دینے میں درمیانہ داری نبھاتا ہے. اسطرح کا کاروبار زیادہ تر سرکاری اداروں اور دفتروں میں نپٹایا جاتا ہے.اور اب یہ اتنا عام اور مانوس ہوچکا ہے کہ اسے جرم یا گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا ہے. کرپشن پہ نظر گزر رکھنے کے لئے محکمہ جات بھی ہیں اور قوانین بھی مگر سب لاحاصل. کیونکہ جب یہی محکمہ جات ان قوانین کی دھجیاں اڑانے لگیں تو عام آدمی کو بچ نکلنے کے لئے کئی راستے مل جاتے ہیں.
خیر چھوڑئے….آج میں اس موضوع کو ایک اور پہلو کی طرف لے جانے کی سعی کرتا ہوں جسے میں ادبی کرپشن کا نام دینے کی جسارت کرتا ہوں.
ادبی کرپشن بھی زیادہ نیا نہیں ہے مگر حالیہ دہائیوں میں اس نے جو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی اس پہ بڑے بڑے ادبی نظر باز بھی حیران و پریشان ہیں.
اس کا سب سے نمایاں وہ پہلو ہے جہاں سے ادبی ایوارڑ لینے دینے کی کھڑکی کھل جاتی ہے.جہاں آج کل متعدد. خود ساختہ ادیب ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لئے ہر گلی میں اور ہر نکڑ پہ فرضی محفلیں سجا کر مصنوعی پھول مالائیں پہناکر سو دو سو کا شال شانوں پہ رکھ کر ساٹھ ستر رائج الوقت روپیہ کا مومنٹو پیش کرتے ہیں..اکثر ان تقاریب کا خرچہ وہی ادیب برداشت کرتے ہیں جن کو ایوارڑ سے نوازا جا نا ہوتا ہے.پھر شام تک میڈیا میں لمبی چوڑی خبریں اچھال دی جاتی ہیں.اس قسم کے کرپشن میں بہت سے میڈیا والے بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں.
سرکاری/ غیر سرکاری ایوارڑز کا حال بھی اس کرپشن سے پاک نہیں ہے. ایوارڑ کا مستحق کون ہے یہ بات بہت کم معنی رکھتی ہے مگر ایوارڑ دینا کس کو ہے اس چیز پہ دھیان مرکوز رکھا یا رکھوایا جاتا ہے. یوں بہت سے غیر میعاری ادب پارے آج تک بڑے بڑے ایوارڑ پانے میں کامیاب ہو گئے ہیں..ایوارڑ میں ملنے والی رقم کی بندر بانٹ پہ بھی سمجھوتہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں.وللہ اعلم بالثواب.
جہاں جس شخص کی ضرورت ہو اسے ہی ایوارڑ کمیٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے جس میں کبھی کبھی غیر ادبی یا سیاسی شخصیات کا ہونا بھی نظر آتا ہے.
ہر ملک میں زبان و ادب کو فروغ دینے کے لئے وزارتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی اور مقامی سطح پہ کثیر ادارے کام کرتے ہیں جن کے پاس اخراجات کے لئے بجٹ کا زر کثیر ہوتا ہے.مگر دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ اس رقم کا اکثر حصہ یا تو غیر میعاری کتابوں کی اشاعت و معاونت پہ صرف ہوتا ہے یا ان اداروں سے وابسط افراد کے ذاتی اخراجات پر.
تحقیقی مقالات کی خریدوفروخت بڑھے زوروں سے چل رہی ہے. کتابوں کے پیش لفظ لکھوانے کے لئے نقدو جنس کی ادائگی ہوتی رہتی ہے. یہاں تک کہ بعض ادیب اپنے اور اپنے ادبی مال متاع کے حق میں توصیفی مضامین لکھوانے کے لئے دوسروں سے معاوضے کے عوض رجوع کرنے میں عار نہیں سمجھتے ہیں. نتیجہ سامنے ہے کہ اب ادب کی مقدار جتنی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اتنی تیزی سے اس کا میعار بھی گرتا جا رہا ہے.
سوشل میڈیا نے تو الگ ہی کہرام مچا دیا ہے.مضامین کی چوری اپنی جگہ ' متعدد خود ساختہ متشاعر سرقہ بازی میں بازی مار لینے میں مصروف و سرگرداں رہتے ہیں.دوسروں کا کلام کچھ کاٹ چھانٹ کرکے یا من وعن اپنے کھاتے میں ڈالکر مشاعروں میں خوب واہ واہ لوٹ لیتے ہیں.حتا کہ بعض اوقات ادبی رسالوں جریدوں اور اخباروں کی زینت بھی بنواتے ہیں..نثری فن پاروں کابھی یہی حال ہے. نشاندہی کے لئے ان گنت مثالیں موجود ہیں مگر یہاں نام لیکر کسی کی دل آزاری کرنا مقصد نہیں ہے.ادبی کرپشن کے وسیع تناظر میں اسے بھی جگہ دیں تو بے جا نہ ہوگا.
ادبی حلقے اب ٹولیوں میں بٹتے جارہے ہیں. یوں ہر کوئی ٹولہ اپنے ہم.نوا ادیبوں کے کلام پہ آنکھیں بند کرکے واہ واہ کی گل افشانی کرتے کرتے تھکتے نہیں..جیسے کسی دوسرے کا قرضہ اتارنے میں پہل کرتے ہیں. تنقید نگاری بھی اب یہی روش پکڑ کے چلتی ہے. ہر ٹولے کا اپنا مخصوص تنقید نگار مقرر ہے جو حسب فرمائش نوازتا رہتا ہے..یوں سمجھئے کہ نہ بے لاگ نقدونظر ہے نہ قلم کاروں میں تنقید سننے اور سہنے کی طاقت باقی رہی ہے..
لگتا ہے وہ وقت دھیرے دھیرے کھسک رہا ہے جب ادیبوں اور شاعروں کو لوگ عزت و احترام کے ساتھ سنتے اور پرکھتے تھے. تب شاعروں اور ادیبوں کا سماج میں ایک بلند مقام ہوتا تھا..مگر ادبی کرپشن نے اس صاف و پاک شعبے کو بھی اپنی لپیٹ میں لیکر داغدار کرنا شروع کردیا ..
ہم سب کو ملکر اس ادبی کرپشن کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے. نہیں تو ایک دن وہ آئے گا کہ سچا ادب اور حقیقی ادیب دونوں نظروں سے اوجھل ہوجائینگے….
تلخ نوائی معاف
“