شاعری اور افسانے میں تخیل کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ تخیل کے بغیر کوئی بھی عظیم ادبی معرکہ سر نہیں کیا سکتا۔ جس ادبی تحریر میں تخیل کا عمل دخل نہ ہو اس کو ادبی عمل یا کم از کم عظیم ادبی عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تخیل کے زیرِ اثر لکھی گئی تحریر کو نہ صرف سچی اور حقیقی تحریروں پر فوقیت حاصل ہے بلکہ عقل اور دلیل کے حامل کام پر بھی برتری حاصل ہے۔
سمجھنے کے لیے ایک سادہ سی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اگر کوئی شاعر اپنے محبوب کے حسن کو اپنی غزل کی زینت بناتا ہے اور اس کی تصویر سامنے رکھ کر اشعار لکھتا ہے تو اس غزل میں کہیں کمی رہ سکتی ہے۔ کوئی بھی انسان کسی بھی لحاظ سے مکمل نہیں ہو سکتا ہے۔ شاعر کے محبوب کے حسن میں بھی کوئی کمی لازمی ہو گی چاہے وہ کمال کے حسن کا بھی حامل کیوں نہ ہو۔ اگر اس کی آنکھیں غزالی ہیں، زلفیں ناگن جیسی ہیں، رنگت نورانی اور قد مانند سرو ہے تو لازمی نہیں کہ اس کی گردن بھی صراحی کی طرح ہو۔ اس طرح اس غزل میں محبوب کے حسن کا ایک یا دو یا تین نمبر کٹ سکتے ہیں۔لیکن اگر یہی غزل تخیل اور تصور کے بل بوتے پر لکھی جائے گی تو اس میں محبوب کے حسن میں شاعر کوئی کمی نہیں چھوڑے گا کیونکہ وہ اس کو تصور کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ اس کی آنکھیں، ناک، رنگت، زلفیں اور قد سمیت تمام اعضا متناسب اور خوبصورت ہوں گے۔ بالکل یہی امر ایک افسانہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ نگار اور مصور کے ساتھ بھی ہوگا۔
سچے واقعات، کہانیاں اوراشعار کبھی بھی ادبِ عالیہ میں جگہ حاصل نہیں کر سکتے۔ تخلیق کار کا کمال اسی وقت سامنے آتا ہے جب وہ اپنی ذہنی استعداد کو بروئے کار لاکرفن کے دوسرے لوازمات کے ساتھ ساتھ تخیل ، سوچ اور تصور کے مصالحے بھی اپنی تخلیق کی ہنڈیا میں ڈالے گا۔تخلیق کار اس صلاحیت کے بل بوتے پر اپنے قاری کو بیٹھے بٹھائے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔ یہ تخیل ہی ہے جس نے عظیم رومانوی شاعر John Keats کو دوسرے رومانوی شاعروں کی طرح لافانی شہرت عطا کی۔ کِیٹس شاعرانہ تخیل کی پرواز کے ذریعے بلبل کی دکھوں سے پاک دنیا کی طرف پرواز کرتا ہے اور وقتی طور پر سر پر منڈلاتی موت کے خوف سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔ کالرج اسی پراسرار صلاحیت کے ذریعے سے ہوا میں محل تخلیق کر دیتا ہے۔یہ تخیل ہی ہے جو ٹامس ہارڈی جیسے ناول نگار سے TESS کی شکل میں ایسا لافانی کردار تخلیق کرواتا ہے جو عزت کے لٹ جانے کے باوجود پاکیزگی کی سند حاصل کر لیتی ہے۔ اسی قوت کے ذریعے سے بانو قدسیہ اپنے شاہکار ناول راجہ گدھ میں دنیا بھر کے پرندوں کا اجتماع منعقد کر لیتی ہے اور اے حمید جھلساتی ہوئے گرم موسم میں اپنے کچن کی چوکی پر بیٹھ کرسرد برفانی علاقوں کے خون جما دینے والے افسانے اور ناول لکھ لیتا ہے۔
تخیل کی پرواز کے بغیر ادب کی چاشنی کا حصول ممکن نہیں۔ اگرچہ اس صلاحیت پر رومانوی سکول کی اجارہ داری ہے لیکن عقلیت پسند اور حقیقت نگار بھی اس کو بروئے کار لا کر اپنی تحریروں کو جلا بخش سکتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...