دوستو ہم لوگ کتابوں اور ادب کے ہالے سے دور نکلتے جا رہے ہیں۔ جتنا دور جاتے ہیں اتنا اندھیروں اور تاریکیوں میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اب تو یہ بحث بھی چل نکلی ہے کہ آیا ہمارے لیئے ادب اور ادب کی تعلیم کسی اہمیت کی حامل بھی ہے یا نہیں۔یہ سوشا ان سائنسی اور دوسرے مالی، مادی اور افادی مضامین کے حامیوں کا چھوڑا ہوا ہے جو ہر چیز کو سود و زیاں کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک اصل چیز ہمارا مادی جسم ہی ہے اور جسم کے علاوہ اگر روح ہے بھی سہی تو اس کی اہمیت مادی وجود نہ ہونے کے باعث زیادہ نہیں۔ جس طرح موبائل میں دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر ۔ اس طرح انسان میں بھی دو چیزیں ہوتی ہیں یعنی جسم اور روح۔ موبائل کا سافٹ ویئر اُڑ جائے تو ہارڈ ویئر بھی فضول ہو جاتا ہے اسی طرح ہارڈ ویئر میں نقص آ جائے تو سافٹ ویئر بھی کسی کام کا نہیں رہتا۔ انسان بھی جسمانی اور روحانی امتزاج کے بغیرصفر ہے۔ ایسی کئی صفریں دوکانوں، دفتروں، ملوں، اسمبلیوں اور دوسرے تمام اداروں میں بکثرت دیکھی جا سکتی ہیں۔
ہماری تمام تر توجہ جسمانی خوبصورتی کی طرف ہے، روحانی حسن ہماری توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ زرق برق اور چمکتے ہوئے ملبوس میں بدبودار روحیں رہائش پزیر ہیں۔ معروف ماڈرن انگریزی کے شاعر ٹی ایس ایلیٹ نے ایسے لوگوں کو بھس بھرے لوگ Stuffed Men کہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بولیں تو کبھی کام کی بات نہیں نکلتی۔ نے ایسے کھوکھلے لوگوں کے بارے میں خوب کہا تھا
ملبوس خوشنما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دوکان پر
ایسے لوگ جن کی سانسیں تو چل رہی ہوں لیکن روحانی او ر ادبی طور پر وہ بے جان ہوں تو وہ دوسروں کے لیئے نہیں بلکہ اپنے لیئے ہی زندگی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو حفیظ جالندھری تو زندہ بھی نہیں سمجھتا
چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں ہیں
زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہے
دوستو آپ نے بہت کم دیکھا ہوگا کہ کسی ادیب یا ادب دوست نے کوئی جرم کیاہو۔ اگر معاشرے سے جرائم کو ختم کرنا ہے اور اس کو جنت کا نمونہ بنانا ہے تو ادب کو فروغ دیں۔ اس سلسلے میں ہمارے اساتذہ کو ادب دوست بننا ہو گا جو نئی نسل کو ادب سے روشناس کرا کر ہمارے دیس کو جنتِ ارضی بنا سکتے ہیں۔