بیسویں صدی تاریخ کی سب سے زیادہ پُر تشدد صدی تھی۔ اکیسویں صدی کے شانوں پر اسی روایت کا بوجھ ہے۔ جسمانی تشدد سے قطع نظر، بیسویں صدی نے انسان کو تشدد کے نت نئے راستوں پر لگا دیا۔ تہذیبی، لسانی، سیاسی، جذباتی تشدد کے کیسے کیسے مظہر اس صدی کی تہہ سے نمودار ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ اس صدی کی اجتماعی زندگی کے عام اسالیب تک تشدد کی گرفت سے بچ نہ سکے۔ اس عہد کی رفتار، اس کی آواز، اس کے آہنگ اور فکر، ہر سطح پر تشدد کے آثار نمایاں ہیں۔ میلان کنڈیرا کا خیال ہے کہ یہ صدی دھیمے پن (Slowness) کا جادو سرے سے گنوا بیٹھی ہے۔
آرٹ اور ادب کا انکھوا خاموشی اور تنہائی اور دھیمے پن کی شاخِ زرّیں سے پھوٹتا ہے اور ہر بڑی تخلیقی روایت کا ظہور فن کا رانہ ضبط اور ٹھہراؤ اور تحمل کی تہہ سے ہوتا ہے۔ ایک بے قابو اور بے لگام معاشرے میں جو اپنی رفتار، اپنی آواز، اپنے اعصاب اور حواس کو سنبھالنے کی طاقت سے محروم ہوچکا ہو، آرٹ اور ادب ایک طرح کے دفاعی مورچے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس مذاکرے کا موضوع، اپنے آپ میں، ہمارے زمانے، ہماری اجتماعی زندگی کے لیے ایک سوالیہ نشان اور ایک سندیسے کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس Hyper-mercantile عہد میں آرٹ اور ادب اور فلسفہ تاریخ کے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔ تخلیقی سرگرمی ایک فالتو یا بے ضرر اور بے اثر سرگرمی بن چکی ہے، کہیں ادب میں انسان دوستی کا تصور صرف ایک آزمایشی تصور تو نہیں ہے؟
لیکن اس موضوع کے ساتھ، کچھ اور سوچنے سے پہلے، میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کی کوئی ادبی روایت انسان دشمن بھی ہوسکتی ہے؟ اور کسی بھی زمانے یا زبان کا ادیب، انسان دوستی کے ایک گہرے احساس کے بغیر کیا اپنے حقیقی منصب کی ادائیگی کرسکتا ہے؟
آندرے مالرو نے کہا تھا، اگر ہمیں فکر کا ایک گہرا، بامعنی، مثبت اور انسانی زاویہ اختیار کرنا ہے تو لامحالہ ہمیں دو باتوں پر انحصار کرنا ہوگا ایک تو یہ کہ زندگی بالآخر ہمارے اندر ایک طرح کا المیاتی احساس پیدا کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی تمام فکری اور مادّی کامرانیوں کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ دسرے یہ کہ ہمیں بہرحال انسان دوستی کے تصور کا سہارا لینا ہوگا کیونکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا تھا اور ہم بالآخر کہاں پہنچنا چاہتے ہیں۔ گویا کہ انسان دوستی کا احساس تخلیقی تجربے کی بنیاد میں شامل ہے۔ خاص طور پر مشرق کی ادبی روایت تو اپنی تاریخ کے کسی دور میں صرف زبان و بیان کی خوبیوں کی پابند نہیں رہی۔ ہر زمانے میں یہاں بلند تہذیبی اور اخلاقی قدریں بڑی شاعری کے لیے ضروری سمجھی جاتی رہیں۔ مغربی تہذیب کی بنیادیں اور اس تہذیب کا پروردہ تصور حقیقت مختلف سہی لیکن مشرق و مغرب کی ادبی ثقافت میں بہت کچھ مشترق بھی ہے۔ فورسٹر نے ایک سیدھی سادی بات یہ کہی تھی کہ ادب اور آرٹ ہمیں جانوروں سے الگ کرتے ہیں اور طرح طرح کی مخلوقات سے بھری ہوئی اس دنیا میں ہمارے لیے ایک بنیادی وجہ امتیاز پیدا کرتے ہیں۔ یہی امتیاز ادب اور آرٹ کو اس لائق بناتا ہے کہ اسے اس کی خاطر پیدا کیا جائے۔ فورسٹر نے اسی ضمن میں یہ بھی کہا تھا کہ ایک ایسی دنیا جو ادب اور آرٹ سے خالی ہو میرے لیے ناقابل قبول ہے اور مجھے اس دنیا میں اپنے دن گزارنے کا کوئی طلب نہیں ہے۔ گویا کہ انسانی تعلقات کے احساس اور سروکاروں کے بغیر آرٹ، ادب اور زندگی سبھی بے معنی اور کھوکھلے ہوجاتے ہیں۔
سائنسی اور سماجی علوم کے برعکس، ادبی روایات کی پائداری اور استحکام کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسانی تجربے کے جن عناصر سے یہ روایتیں مالا مال ہوتی ہیں، وہ نئی دریافتوں اور نئے نظریات کے چلن کی وجہ سے کبھی ناکارہ نہیں ہونے پاتیں۔ بہت محدود سطح پر سہی لیکن ادب اور آرٹ کی روایتیں اجتماعی زندگی کے ارتقا میں اپنا رول ادا کرتی رہتی ہیں۔ بہ قول ایلیٹ، ایک انوکھا اتحاد انسانی تاریخ کے مختلف زمانوں سے تعلق رکھنے والی روحوں کو ایک صف میں یکجا کردیتا ہے۔ بظاہر اجنبی اور پرانی آوازوں میں نئے انسان کو اپنی روح کا نغمہ بھی سنائی دیتا ہے۔ رومی اور حافظ اور شیکسپیئر اور غالب اور اقبال اور ٹیگور ایک ساتھ صف بستہ ہوجاتے ہیں۔
لیکن یہاں تاریخی اعتبار سے ادب میں انسان دوستی کے تصور پر گفتگو سے پہلے ہمارے اپنے عہد کے سیاق میں انسان دوستی کے مضمرات پر کچھ معروضات پیش کرنا ضروری ہے۔ ہمارے دور میں بد قسمتی سے انسان دوستی نے ایک نعرے کی حیثیت بھی اختیار کرلی ہے۔ اقوام متحدہ کی عمارت کے باب داخلہ پر شیخ سعدی کا یہ مصرعہ کہ ’’بنی آدم اعضائے یکِ دیگر اند‘‘ اسے رویے کا پتا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے مقبول عام مفہوم اور مسلّمہ اوصاف کے باوجود انسان دوستی ہمارے زمانے میں خسارے کا سودا بھی بن چکی ہے۔ اور نوآبادیاتی (کولونیل) مقاصد میں یقین رکھنے والوں یا نسل پرستانہ عزائم اختیار کرنے والوں نے انسان دوستی کے تصور کو ایک سیاسی حربے، ایک آلہ کار کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ عراق، افغانستان اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اصل میں تاریخ کی ایک اپنی مابعد الطبیعیات بھی ہوتی ہے اور مختلف ادوار یا انسانی صورت حال کے مختلف دائروں میں معروف اصطلاحات کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ انسان دوستی کے تصور کی بھی کئی سطحیں ہیں، مذہبی، سماجی، سیاسی۔ ادب میں انسان دوستی کا تصور ان میں سے کسی بھی سطح کا تابع نہیں ہوسکتا۔ سیاسی، سماجی، مذہبی نظام کے تحت انسان دوستی کا تصور کسی نہ کسی مرحلے میں ایک طرح کی براہ راست یا بالواسطہ مصلحت کا شکار بھی ہوسکتا ہے جہاں اسے وہ آزادی، وہ کھلا پن ہر گز میسر نہ آسکے گا جس تک رسائی صرف ادب کے واسطے سے ممکن ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کولونیل عہد کی انسان دوستی اور پوسٹ کولونیل عہد کی انسان دوستی کا خمیر بھی یکساں نہیں ہوسکتا۔ ادب اور آرٹ کی دنیا میں انسان دوستی کی روایت بہرحال کچھ سیکولر قدروں کی ترجمان ہوتی ہے۔ ادب ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کی روحانی طلب صرف مرئی، ٹھوس اور مادّی چیزوں تک محدود نہیں ہوتی۔ ادب ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انسان ایسی چیزیں سمجھنا چاہتا ہے جو بہ ظاہر کام کی نہیں ہوتیں اور جن سے روز مرہ زندگی میں ہماری کسی ضرورت کی تکمیل ممکن نہیں، مثلاََ فلسفہ اور نفسیات۔ اور انسان اظہار کی ایسی ہیئتیں بھی وضع کرنا چاہتا ہے، ایسی ’’چیزیں‘‘ بنانا چاہتا ہے کو مبہم، مرموز اور منطق سے ماوارہوتی ہیں، مثلاََ ادب اور آرٹ۔ بجائے خود ادب ایک طرح کا باطنی اور روحانی تشدد بھی ہے جو بہ قول ویلیس اسٹیونس (Wallaes Stevenes) خارجی دنیا میں واقع ہونے والے تشدد سے مزاحم ہوتا ہے اور ہمیں اس کی گرفت سے بچائے رکھتا ہے۔ کامیو کے ایک سوانح نگار نے اسے انسان دوستی یا انسانی (ہمدردی) کے جذبوں کی سیاست سے تعبیر کیا ہے اور اس سلسلے میں کامیو کی ان تقریروں کا حوالہ دیا ہے جن میں کامیو نے ۱۹۵۷ء کے دوران اس واقعے پر بار بار زور دیا تھا کہ ہمارا عہد انقلابی قدروں کے انحطاط اور ابتذال کا عہد ہے۔ لیکن یہ انحطاط و ابتذال انقلابی قدروں کے بازیابی میں ہمارے یقین کو کمزور نہیں کرسکتا اور ہم ان اقدار سے بے نیازی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اپنے سوانح نگار فلپ تھوڈی (Philip Thody) کی اطلاع کے مطابق اس وقت کامیو کی تمام ذہنی سرگرمیوں کا نقطئہ ارتکازاس کا انسان دوستی کا تصور تھا اور انسانی المیوں اور اذیتوں کا شدید احساس۔ اس وقت کامیو نے کسی سیاسی تحریک میں شمولیت کے بغیر ادبی اور ادب کے انسانی سروکاروں پر جس طرح زور دیا تھا اس سے ایک سیاسی جہت بھی خود بخود نمودار ہوجاتی ہیں۔ کامیوں کی انسانی ہمدردیاں اور ترجیحات اس وقت بالکل واضح تھیں اور ان سے اس کے موقف کی صاف نشاندہی ہوتی تھی۔ کامیو ہر طرح کی نظریاتی اور فکری مطلقیت کا مخالف تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ مطلقیت یا منصوبہ بند اور متعین مقاصد جن انسانی آلام کو آسان کرنے کے مدعی ہیں ان میں کوئی بھی انسانی الم بجائے خود مطلقیت سے بڑا اور اس سے زیادہ مہلک نہیں ہے۔ یعنی کے ضابطہ بند عقیدے (مذہب)، نظریے (آئیڈیالوجی)، علوم (سائنس) کی روشنی میں مرتب کیا جانے والا انسان دوستی کا کوئی بھی تصور کامیو کے تصور سے مناسبت نہیں رکھتا اور ان میں سے کوئی بھی اس پر پیچ اور کشادہ انسانی احساس اور اس لازوال تجربے کی احاطہ بندی کا اہل نہیں ہے جس کی نمود ادب اور آرٹ کی زمین پر ہوتی ہے، اسی طرح جیسے آرٹ اور ادب کی خاموش سرگرمی سے پیدا ہونے والا اخلاق، رسمی اور روایتی اخلاق سے مختلف ہوتا ہے، بہ قول شخصے ادب بجائے خود اخلاق سے زیادہ با اخلاق شے ہے یا یہ کہ (More moral than morality itself) فراق نے کہا تھا،
خشک اعمال کے اوسر سے اگا کب اخلاق
یہ تو نخل لب دریائے معاصی ہے فراق
ایک ادیب اور آرٹسٹ جس انسانی سروکار اوراخلاقی ملال کے ساتھ اپنی تخلیقات وضع کرتا ہے، اس کا مفہوم صرف مروجہ سماجی ضابطوں اور معیاروں کی مدد ست متعین نہیں کیا جاسکتا۔ گہری انسانی دوستی کا تصور ادیب یا آرٹسٹ کی اپنی تخلیقی آزادی کے شعور سے پیدا ہوتا ہے ایسی صورت میں کہ اس کے دل و دماغ پر کسی بیرونی جبر کا دباؤ نہ ہو۔ وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنے آپ کو آزاد محسوس کرے، وہ اپنی بات کسی مصلحت، کسی خوف، اندیشے یا لالچ کہ بغیر کہہ سکے۔ کسی پارٹی لائن یا کسی منظم منصوبہ بند نظریے، کسی ادارے کے احکامات کی بجاآوری اور تخلیقی آزادی یاضمیر کی آزادی کا اظہار ایک ساتھ ہمیشہ ممکن نہیں ہوسکتا، تاوقتیکہ ادیب اپنی صلاحیتوں کو، احساسات کو اور اپنے ہی تصور کی طرح، انسانی ہمدردی کے تصور کو بھی دوسروں کا مطیع وماتحت نہ بنا دے۔ معاشرے میں ادیب اورآرٹسٹ کے رول کی وضاحت کرتے ہوئے کامیونے کہا تھا کہ صرف مزاحمت یا تصادم سے اعلاادب نہیں پیدا ہوتا۔ بلکہ اعلیٰ ادب ہمارے اندر مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے اور اقتدار سے دودوہاتھ کرنے کی استعداد پیدا کرتا ہے۔ ایڈورڈ سعید نے انسان دوستی کے تصور کی تشکیل اور تحفظ کے لیے ریڈیکل ازم (Radicalism) اور اقتدار کے تیئں آزادانہ تنقید کے رویے کو ناگزیر بتایا تھا۔ اور کامیو نے اپنی نوبیل انعام کی تقریر (1957ء) کے دوران کہا تھا،
’’بہ طور ایک فرد میں اپنے آرٹ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن میں نے کبھی بھی اپنے آرٹ کو زندگی کی دوسری تمام اشیا سے برتر نہیں سمجھا۔ اس کے برعکس، آرٹ میرے لیے اتنا ناگزیر اس لیے ہے کہ یہ مجھے کسی سے بھی الگ نہیں ہونے دیتا اور مجھ میں یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ اپنی بساط کے مطابق (اپنے آرٹ کی مدد سے) خود کو دوسروں کی سطح پرلاسکوں۔ میرے لیے آرٹ (کی تخلیق) تنہائی کا جشن نہیں ہے میرے لیے یہ انسانوں کی بڑی سے بڑی تعداد کے لیے، اپنے مشترکہ دکھ اور سکھ کی ایک استثنائی شبیہ کے واسطے سے، ان کے دلوں کو چھو لینے کا وسیلہ ہے۔‘‘
ادب اور آرٹ میں ایسی تمام استثنائی شبیہیں، ہجوم کے سُر میں سُر ملانے سے نہیں بلکہ تخلیق کرنے والی روح کے سناٹے، اس کی مقدس تنہائی اور خاموشی کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔ ادیب کے لیے اس کی وضع کردہ یہ شبیہیں، عام انسانی مقدرات کی نقاب کشائی کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔ وہ کسی طرح کے فکری، نظریاتی، سماجی، مذہبی جبر کی پرواہ کیے بغیر اپنے احساسات پروارد ہونے والی تخلیقی سچائیوں کو دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو عمومیت زدہ مسئلوں اور عامیانہ باتوں میں ضائع نہ کرے اور اپنی پوری توجہ ادب یا آرٹ پر مرکوز رکھے۔ اپنی تخلیقی سرگرمی کا سودا نہ کرے اور ہر قیمت پر فن کی حرمت اور فن کی تشکیل کے عمل کی حفاظت کرے۔ عام مقبولیت کے پھیر میں نہ پڑے۔ ایسی باتیں نہ کہے جن کا مقصد سب کوخوش کرناہو۔ اسے اپنی ترجیحات کاپتہ ہونا چاہیے۔ روزمرہ کی سیاست اور سمجھوتوں سے بچنا چاہیے اور اس وقت جب سچ کو خطرہ لاحق ہو، اس کی حفاظت کے لیے کھل کر سامنے آجانا چاہیے یا پھر اپنے اخلاقی ملال اور احتجاج کوسامنے لانے کا ایک طریقہ جو بظاہر تجریدی ہے، ایک لمبی گہری خاموشی کے طور پر رونما ہوتاہے۔ (بقول منیر نیازی)
’’اس ک بعد ایک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور!‘‘
ہماری اجتماعی تاریخ میں 1857ء کے ہنگاموں کے بعد کی فضا میں غالب کا شاعری سے تقریباَ دست کش ہوجانا اسی قسم کی ایک صورت حال کاپتہ دیتا ہے۔ 1857ء کے آس پاس کے ماحول میں تخلیقی اظہار سے زیادہ ایک واضح میلاں اور سطح رکھنے والی علمی اور کاروباری نثر، یا پھر صریحاََمقصدی اور افادی پہلو رکھنے والی جدید نظم سے بڑھتا ہوا عام شغف، انجمن پنجاب کا قیام، نئی نظم کا وہ منشور جو آزاد نے ایل کیکچر کے طور پر پیش کیا تھا (1874ء) یا پھر 1893ء میں مقدمہ شعری وشاعری کی اشاعت اور کلاسیکی ادبی اصناف کی کھلی ہوئی بے توقیری کا سلسلہ۔۔۔ یہ تمام واقعات ایسے ہی مقبول اور مروّج رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ غالب اس وقت ہماری مجموعی تخلیقی روایت کے اوصاف اور محاسن کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔ لیکن افادیت اور مقصد کے شور بے اماں میں ان کی شاعری اس دور میں پس پشت جا پڑی تھی۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی سیاسی اور سماجی نظام، اس نظام کی پروردہ کوئی بھی بوطیقا ہر شاعرکو تو غالب نہیں بنا سکتی۔ اسی طرح، جیسے کہ بہ قول پاؤنڈ، کوئی بھی بیرونی ہدایت ہر نقشہ نویس کو پکا سو کے اوصاف سے آراستہ نہیں کرسکتی۔ الجیریائی مسئلے کے حل کے لیے 1958ء کے دوران کامیو نے عملی سیاست سے اپنے آپ کو جو لا تعلق رکھا تو اسی لیے کہ اسے بہ حیثیت ادیب اپنے حدود کا اور اس دور کے ہنگامہ خیز ماحول میں ادیب کی خاموشی سے رونما ہونے والے موقف کا اندازہ اپنے سرگرم معاصرین کی بہ نسبت شاید زیادہ تھا۔ کامیو کی حادثاتی موت کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میں سار تر نے لکھا تھا۔۔۔ (1960ء)
’’بعد کے ان برسوں میں اس کی خاموشی کا بھی ایک مثبت پہلو تھا۔۔۔ ایک مہملیت زدہ (لغو) ماحول کے اس کارتیسی (Cartesian) نمائندے نے اپنی اخلاقیت کی مخصوص روش کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور ایک غیر یقینی راستے کو، جو علمی سرگرمی کا تقاضی تھا، ہر گز اختیار نہ کیا۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ (کامیو کے) اس رویے کا سبب ہم جانتے ہیں اور اس کشمکش کو بھی سمجھ سکتے ہیں جسے کامیو نے چھپا رکھاتھا۔ کیونکہ اگر ہم اخلاقیت اور صرف اخلاقیت کا تجزیہ کریں تو یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بیک وقت بغاوت کا مطالبہ بھی کرتی ہے اور اس کی (بے اثری کے باعث) مزمت بھی کرتی ہے۔‘‘
خود کامیو نے یہ بات کہی تھی کہ ’’معدودے چند لوگ اس سچائی کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ انکا ر کا ایک طریقہ وہ بھی ہوتا ہے جو ترک یا تیاگ کا مفہوم نہیں رکھتا۔‘‘ کامیو کے انتقال (1960ء) سے تقریباََ نو برس پہلے لکھے جانے والے مضمون میں (اشاعت نیویارک ٹائمز میگزین، 16دسمبر 1951ء) برٹرینڈرسل نے دس ایسے نکات کی نشاندہی کی تھی جنھیں انسانی سروکار پر مبنی ایک ذاتی منشور کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نے کہا تھا،
۱۔ کوئی بھی حقیقت مطلق نہیں ہے۔
۲۔ سچائی کو چھپانا نامناسب ہے کیونکہ سچائی بالآخر سامنے آہی جاتی ہے۔
۳۔ ہر مسئلے پر آزادانہ فکرضروری ہے اور صحیح نتیجے تک پہنچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
۴۔ اختلافات پر قابو پانے کے لیے زور زبردستی سے کام لینا غلط ہے۔ طاقت پر مبنی کامیابی موہوم ہوتی ہے۔
۵۔ کوئی بھی مرکز اقتدار اس لائق نہیں کہ اس کی پروا کی جائے۔
۶۔ کسی بھی زاویہ نظر کو پسپا کرنے کی جدوجہد فضول ہے اور اس معاملے میں طاقت کا استعمال یکسر غلط ہے۔
۷۔ اپنے خیالات اور راویوں کے منحرف المرکز ہونے یا سنکی کہے جانے سے نہ ڈرو۔ ہر خیال جسے اب قبول
کیا جا چکا ہے، کبھی غلط یا منحرف المرکز بھی سمجھا گیا تھا۔
۸۔ مجہول اقرار کی بہ نسبت سوچا سمجھا انکار زیادہ با معنی ہے۔
۹۔ سچائی کا راستہ چاہے جتنا دشوار ہو، اس کو ترک کرنا تکلیف اور شرمندگی کا باعث ہوگا۔
۱۰۔ ایسوں کی مسرت پرحسد نہ کرو جو احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ صرف احمق ہی یہ سمجھے گا کہ یہ دنیا یا دور ہمیں مسرت دے سکتا ہے۔
برٹر ینڈرسل نے ا پنے اس مضمون کو ’’اعادئیت کا بہترین جواب، رواداری‘‘ کا عنوان دیا تھا اور اسے انفرادیت کے تحفظ اور ذہنی آزادی کے ایک منشور کی سی شکل دی تھی۔ یہاں یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ ذہنی آزادی اور مزاحمت سے متعلق جو باتیں پچھلے چند صفحوں میں کہی گئی ہیں ان کا تعلق تخلیقی ادب یا آرٹ سے کم اور سماجی فکر یا موجودہ عہد میں دانشوری کے مضمرات سے زیادہ ہے۔ اس ضمن میرے معروضات مختصراََیہ ہیں کہ ایک تو کوئی بھی تخلیقی سرگرمی ایک فعال ذہنی عنصر اور دفاعی عمل کے بغیر نہ تو شروع ہوتی ہے نہ جاری رہ سکتی ہے۔ آرٹ اور ادب کا ایسا ایک بھی نمونہ پیدا کرنا یا ڈھونڈنکالنا مشکل ہے جس کو کسی نہ کسی تصور کی تائید حاصل نہ ہو، ٹرسٹن زارا کا وہ تاریخی مضمون جسے داداازم کے دستور العمل کی حیثیت حاصل ہے اور جسے ڈبلیو، وارین ویگرے نے بیسویں صدی کی انسانی صورت حال کے تناظر میں ’انسان‘ عقیدت اور سائنس‘‘ کی ایک سہ رخی اصولی اور نظریاتی کشمکش کے طور پر پیش کیا تھا، اس سے میرے اس معروضے کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہی واقعہ انیسویں صدی کے اوآخر سے لے کر ہمارے اپنے زمانے تک رونما ہونے والی تمام ادبی اور تخلیقی تھیوریز کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ رومانیت، اظہاریت، تاثریت، حقیقت پسندی، ماورائے حقیقت پسندی، مکعبیت، تجریدیت کے مظاہر ادب اور آرٹ کے تمام شعبوں میں اپنی اپنی مخصوص فکری اساس اور استدلال کے ساتھ رونما ہوئے۔
اس کے علاوہ دوسری اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ روشن خیالی اور عقلیت کی صدیوں کے ساتھ، جنھیں ہم ہندوستان کی تاریخ کے سیاق میں جدید نشاط ثانیہ کی تشکیل کا دور کہتے ہیں، آرٹ اور ادب کی سطح پر منظم سوش بچار کا ایک مستقل سلسلہ جاری رہا ہے، ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر۔ لہٰذا ادب اور آرٹ میں انسان دوستی کا تصور بھی چودھویں پندرہویں صدی کی اطالوی نشاۃ ثانیہ کے سایے میں ایک نئے فکری دستور العمل کے طور پر ظہور پذیر ہوا اور اس کے عالم گیر اثرات سے ادب اورآرٹ کی کوئی بھی روایت لا تعلق نہ رہ سکی۔ ایک تاریخی جائزے پر مبنی اطلاع کے مطابق انسان دوستی کی اصطلاح تو 1808ء میں ایک جرمن معلم (F.J Niethemmer) نے وضع کی تھی۔ اور اس کا مقصد ایک ایسے مطالعاتی پروگرام کی وضاحت اور منصوبہ بندی تھی جو سائنسی اور ٹیکنولوجیکل تعلیمی پروگراموں سے الگ اپنا تشخص قائم کر سکے۔ لیکن انسانی علوم کے سیاق میں اور اس طرح ادب اورآرٹ کے حوالے سے، انسان دوستی کا تصور چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی کے دوران با ضابطہ طور پر رواج پا چکا تھا اور علوم کے اس دائرے میں جسے Studia humanitatisیا انسانی مطالعات کا نام دیا گیا، یہ تصور نامانوس اور اجنبی نہیں تھا۔ دوسرے الفاظ ہم اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر علمی، ادبی، تہذیبی، تخلیقی روایت کے مرکز میں انسان دوستی کے عنصر کو ایک بنیادی محرک کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس تصور کو ایک تحریک کی شکل نشاۃ ثانیہ کی مغربی روایت نے دی۔ آرٹ، ادب اور علوم کی دنیا میں اس تحریک کا مقصد انسانی وقار کی بحالی اور عہد وسطیٰ کے ظلمت کدے سے انسانی شرف اور فضیلت کے تصور کو نجات دلانا بھی تھا۔ علاوہ ازیں، اس تحریک ایک اور مقصد کشف اور وجدان پر تعقل کی برتری کا اثبات بھی تھا۔ پرانے متون کی بحالی اور ایک نئے لسانی معیار کی تلاش بھی تھا۔ شاید اسی لیے ادب اور آرٹ کی دنیا میں کوری تعقل پسندی کے خلاف ردعمل کی صورتیں بھی بہت جلد نمودار ہوئیں اور انسان دوستی کے تصور کو ایک وسیع تر اور پیچیدہ تر سیاق میں دیکھا جانے لگا۔ ادب اور آرٹ کی دنیا میں یہ تصور ہمیں زیادہ لوچ دار، کشادہ اور بسیط اسی لیے دکھائی دیتا ہے کہ یہ ہر طرح کی مذہبی اور نظریاتی مطلقیت کے چنگل سے آزاد ہوتا ہے اور انسان کو اس کی ہستی کے تمام اسرار، اور تضادات اور حدود اور کمزوریوں اور طاقتوں کے ساتھ سمجھنے پر اصرار کرتا ہے۔
ایڈورڈ سعید نے اجتماعی زندگی میں دانشور کے رول اور تنقیدی شعور کی معنوعیت کا تجزیہ کرتے ہوئے (13 دسمبر 1997ء) جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری قبول کرتے وقت اپنے لیکچر میں بعض بنیادی امور کی طرف توجہ دلائی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ علم کی جستجو دراصل انسانی زندگی میں ایک لا مختم تلاش، ایک مستقل تشکیک کے احساس سے شخصی تعہد کا نام ہے۔ کوئی بھی تصور جو ہمیں اپنے ماضی سے ورثے میں ملا ہے یااپنی روایت اور ذہنی تربیت کے نتیجے میں جسے خود ہم نے خلق کیا ہے، اسے عبور کرنا اور اس سے آگے جانے کی ہمت پیدا کرنا ہی صحیح دانشور انہ اقدام ہے۔ یہ تو ایک کبھی نہ بجھنے والی پیاس ہے۔ جب تک ہماری جرات فکر، تصورات کی عام سطح میں ارتعاش پیدا نہیں کرتی، پہلے سے معلوم اور مانوس نتیجوں سے آگے نہیں جاتی، سوچتے رہنے کی اذیت نہیں جھیلتی، اور اپنی انفرادیت کے دفاع کی خاطر خطرے نہیں اٹھاتی، ہم سچی دانشوری کے رول کو ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔ آرٹ اور ادب کی تخلیق کرنے والا ہر شخص بھی بہ قول گرامچی، بنیادی طور پر ایک دانشور ہوتا ہے لیکن ہر دانشور معاشرے میں اپنی دانش کا رول نبھانے کی اہلیت نہیں رکھتا تا وقتیکہ وہ سوال پوچھتے رہنے پر قادریہ ہو، مسلمات سے انکار کا حوصلہ نہ رکھتا ہو، اپنی دنیا میں ایک بیگانے، ایکOutsiderکی زندگی گزارنے، اپنے ضمیر کو ہر طرح کے خوف، مصلحت اور ترغیب سے محفوظ رکھنے کا عادی ہو۔ ایڈورڈ سعید کا کہنا تھا کہ دانشور صرف ایک شخص نہیں ہوتا۔ اس کی حیثیت ایک اندازِ نظر، ایک رویے، اجتماعی زندگی میں طاقت اور توانائی کی ایک لہر کی بھی ہوتی ہے۔ روایت اور قومیت کے عامیانہ تصور کا بوجھ ذہنی تخلیقی آزادی اور دانشوری کے راسے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ روایت کو اس حق سے زیادہ دینا اپنی آزادی اور انفرادیت کا سودا کرنا ہے۔
اسی طرح کسی ادیب یا آرٹسٹ کے لیے اپنی سرگرمی کے دائرے کو محدود اور مختص کرلینا یا ادبی اور فنی اقدار کے نام پر ایک مجہول قسم کے جھوٹے پندار اور نخوت پر مبنی حدیں قائم کرلینا بھی اس کے سامنے کچھ مجبوریاں کھڑی کردیتا ہے، جو اس کی تخلیقی سرگرمی اور اس کے مجموعی شعور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایڈورڈ سعید نے اپنے لیکچر کے دوران، ویت نام کی جنگ کے زمانے میں اپنے ایک اہم عصر اور ہم پیشہ دوست سے مکالمے کا تذکرہ کیا۔ کسی طالب علم کے اس سوال پر کہ ایک ایسے وقت میں جب شمالی ویتنام، لاؤس اور کمبوڈیا کے بے قصورعوام پر ساٹھ ہزار فٹ کی بلندی سے بمباری ہورہی ہے، کیا وہ ایک احتجاج عرض داشت پر دستخط کرنا چاہیں گے، ان کا جواب یہ تھا کہ ’’جی نہیں! میں ادب کا پروفیسر ہوں، میں شیکسپیئر اور ملٹن کے بارے میں لکھتا ہوں، مجھے اس بمباری سے کیا لینا دینا، اور پھر میں اسے سمجھتا بھی نہیں۔‘‘
ایسا ایک واقعہ حلقۂ ارباب ذوق کے ایک ممتاز شاعر قیوم نظر کے ساتھ آیا تھا جو پیرس میں سارتر سے ملاقات کے متمنی ہوئے۔ سارتر کے اس سوال پر کہ الجزائر کے مسئلے پر ان کا موقف کیا ہے؟ ان کا جواب یہ تھا کہ ’’میں تو شاعر ہوں، اس مسئلے سے میرا کیا تعلق؟‘‘ ظاہر ہے کہ سارتر نے ان سے گفتگو اسی نقطے پر منقطع کردی۔
یہ مضحکہ خیز اختصاص جو شعور کے گرد سنگین فیصلیں کھڑی کردے، اجتماعی زندگی کے لیے کتنا مہلک ہوسکتا ہے اور اس سے انسان شناسی کی کس جہت کا اظہار ہوتا ہے، اس کی بابت کسی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ ایڈورڈ سعید کا خیال ہے کہ اس نوکی ذہنی لاتعلقی سے جبر اور استحصال اور بدی ہمنوائی کا ایک پہلو نکلتا ہے جو دانشورانہ طاقت اور دیانت داری کا دشمن ہے۔ گویا کہ انسان دشمن ہے۔
اسی لیے دانشورانہ جہت رکھنے والی کسی بھی ادیب یا آرٹسٹ کے لیے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ طاقت اور اقتدار کے مراکز سے اپنے آپ کو دور رکھ سکے۔ سیاسی مراتب اور مناصب کا طلب گار نہ ہو۔ اس طرح کے مناصب شعورکی آزادی کے حریف ہوتے ہیں۔ سعید کے یادگار لفظوں میں،
‘‘ I’m not saying that independence in itself is a virtue,because so many times you may be wrong, but if you are notindependent, you cannot even be wrong. ’’
سیاسی قدروں کے زوال نے ادب اور آرٹ کی دنیامیں بھی ایک ہولناک درباری کلچر کو فروغ دیا ہے اور ’’ادب اور آرٹ کی یخلیق کا جوکھم اٹھانے والوں‘‘ کے ضمیر کو داغدار کیا ہے۔ انعامات، اعزازات، مناصب، مراعات، ادب اور آرٹ کی ترقی اور نمائندگی کے لیے اوپر سے بجھائے ہوئے راستوں پر اور معینہ مقاصد کے ساتھ دور دراز ملکوں کے دورے، یہ تمام باتیں ادیب اور آرٹسٹ کی بصیرت کے گرد لکیریں کھینچنے والی ہیں، اس کے شعور کو محدود کرنے والی اور ادب یا آرٹ کے مقدس اور پاکیزہ مقاصد سے توجہ ہٹانے والی ہیں۔ اس قسم کی مراعات اور سہولتیں قبول کرنے میں ہمیشہ کسی جانے انجانے راستے سے ذہنی غلامی کے درآنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اور ذہنی غلامی چاہے کسی فرد کی ہو یا ادارے یا نظریے کی، انسانی ضمیر اور تخلیقی اظہار کو ہمیشہ راس نہیں آتی۔ آرٹ اور ادب کی دنیا میں اس طرح کے موسم اوع معاملات انسان دوستی کے اس عظیم تصور کو بھی راس نہیں آتے جس کی تعمیر اور ترویج کا قصہ، تہذیب و تاریخ کی کئی صدیوں سے پھیلا ہوا ہے۔ اپنے شعور اور حافظے کی جھٹلا کر ادب اور آرٹ کی بامعنی تخلیق ممکن نہیں اور یہ معنی بہرحال انسان شناسی اور انسان دوستی کے دائرے میں ہی گردش کرتے آئے ہیں۔
اب میں اس مضمون یا اپنی گفتگو کے اختتامی حصے کی طرف آتا ہوں جس کی اساس میں نے منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ پر قائم کی ہے اور جسے آپ ان معروضات کا حاشیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں میرا اشارہ منٹو کی ان تخلیقات کی طرف ہے جنھیں ہم اپنی اجتماعی زندگی کے ایک دلدوز واقعے اور چاہیں تو عام انسانی معاشرے میں اجتماعی دیوانگی کے ایک لمحے کا تخلیقی اشاریہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ اشاریہ ہمیں ادب اور آرٹ میں انسان دوستی کے تصور سے متعلق کچھ بنیادی سوالوں تک لے جاتا ہے۔ اس تصور کو ایک نئے مفہوم سے ہمکنار کرتا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کی بہ نسبت 1947ء کی تقسیم، پھر اس کے نتیجے میں واقع ہونے والی اور انسانی تاریخ کی سطح پر اپنے اجتماعی المیے اور اپنی تعداد کے لحاظ سے شاید سب سے بڑی اور وحشت آثار ہجرت کے تجربے، مزید برآں فسادات اور انسانی درندگی کے واقعات کا احاطہ اردو نظم ونثر، خاص کر فکشن میں، بہت غیر معمولی دکھائے دیتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں تقسیم، ہجرت اور فسادات کے پس منظر میں مقدار اور معیار، دونوں کے لحاظ سے اردو میں جو فکشن لکھا گیا، بے مثال ہے۔ فکشن کے اس ذخیرے میں اچھی بری ہر طرح کی چیزیں مل جاتی ہیں۔ اردو فکشن کی پہلی بڑی نقاد ممتاز شیریں نے فسادات کے ادب پر اپنے ایک معروف مضمون کا آغاز کرسٹو فراشیروڈ کے فکشن کی ایک مثال سے کیا ہے، جس میں ایک انگریز صحافی آسٹریا کے ایک کردار (برگ مین) سے، آسٹریا کی اجتماعی واردات کے سیاسی پہلو کی بات شروع کرتا ہے، تو اپنے ہم وطنوں کے غم میں کھویا ہوا’برگ مین‘ بے تاب ہوکر چیخ اٹھتاہے اور کہتاہے
’’اسے سیاست سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس کا تعلق انسانوں سے ہے، انسانوں سے، انسانی زندگی سے، زندہ حقیقی مردوں اور عورتوں سے، گوشت اور خون سے۔‘‘
منٹونے ہندوستان پاکستان کے بٹوارے اور فسادات کے حوالے سے تقریباََ بیس کہانیاں لکھیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت کھول دو، ٹھنڈاگوشت، موتری، ٹیٹوال کا کتّا، گورمکھ سنگھ کی وصیت، موذیل اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو ملی۔ ملکی اور غیر ملکی بہت سی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کچھ پر پاکستان کی عدالتوں میں مقدمے بھی چلے۔ ان حالات میں منٹو کے دل و دماغ پر جو کچھ گزرا اس کی تفصیل ہولناک ہے اور فرقہ وارانہ درندگی اور مذہبی جنون سے بوجھل فضا میں ایک انسان دوست ادیب کے موقف کی شاید سب سے انوکھی مثال ہے۔ اپنے ایک مضمون یار پورتاژ ’’زحمتِ مہرِدرخشاں‘‘ میں منٹو نے اپنی حالت کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے،
طبیعت میں اکساہٹ پیدا ہوئی کہ لکھوں۔ لیکن جب لکھنے بیٹھا تو دماغ کو منتشر پایا۔ کوشش کے باوجودہندوستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو ہندوستان سے علاحدہ نہ کرسکا۔ بار بار دماغ میں الجھن پیدا کرنے والا سوال گونجتا۔ کیا پاکستان کا ادب، علاحدہ ہوگا۔۔۔ ؟ اگر ہوگا تو کیسے ہوگا۔ وہ سب کچھ جو سالم ہندوستان میں لکھا گیا تھا، اس کا مالک کون ہے؟ کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا۔ کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں!
’’فضا پر مردنی طاری تھی۔ جس طرح گرمیوں کاآغاز میں آسمان پر بے مقصد اڑتی ہوئی چیلیوں کی چیخیں اداس ہوتی ہیں اسی طرح
’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’قاعد اعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے بھی کانوں کو اداس اداس لگتے تھے۔
میں اپنے عزیز دوست احمد ندیم قاسمی سے ملا۔ ساحر لدھیانوی سے ملا۔ ان کے علاوہ اور لوگوں سے ملا۔ سب میری طرح ذہنی طور پر مفلوج تھے۔ میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ جو اتنا زبردست بھونچال آیا ہے شاید اس کے کچھ جھٹکے آتش فشاں پہاڑ میں اٹکے ہوئے ہیں۔ باہر نکل آئیں تو فضا کی نوک پلک درست ہوگی۔ پھر صحیح طور پر معلوم ہوسکے گا کہ صورت حالات کیا ہے۔‘‘
چھوٹے چھوٹے وقوعوں (Happenings)، لطیفوں کی بیرونی پرت رکھنے والے افسانچوں پر مشتمل مجموعہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے نام سے اکتوبر 1948ء میں شائع ہوا تھا۔ پاکستان میں اقامت اختیار کرنے کے بعد منٹو نے جو پہلی کہانی لکھی ’ٹھنڈا گوشت‘تھی جس پر منٹو سے معاشرتی اور سرکاری دونوں سطحوں پر باز پرس کی گئی۔ پاکستان میں لکھا جانے والا دوسرا افسانہ ’کھول دو‘تھا۔ حکومت کے نزدیک یہ افسانہ امن عامہ کے مفاد کے منافی تھا لہٰذا اس کی اشاعت کے جرم میں نقوش کی اشاعت چھے مہینے کے لیے بند کر دی گئی۔ اس وقت تک فسادات ٹھنڈے پڑ چکے تھے اور پاکستانی معاشرے پر ذہنی اعتبار سے تعطل کی ایک کیفیت طاری تھی۔ منٹو نے فسادات پر مبنی یہ تمام تخلیقات باہر کی دنیا میں طاری تعطل کی اسی فضا میں وضع کی تھیں، جب وہ اس ساری واردات کو ذرا دور سے دیکھ سکتا تھا، کیونکہ طوفان سر سے گزر چکا تھا اور وہ قدرے غیر جذباتی انداز میں اپنے تجربے کا تجزیہ کرسکتا تھا۔ ان تحریروں جو سنگینی اور ایک گہری رچی ہوئی تخلیقی معروضیت کا عنصر ہے وہ اسی صورت حال کا پیدا کردہ ہے۔
’’سیاہ حاشیے‘‘ پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے محمّد حسن عسکری نے لکھا ہے کہ ’’ادب سے ہم اس قسم کے سچ جھوٹ کا مطالبہ نہیں کرتے جو ہم تاریخ، معاشیات یا سیاسیات کی کتابوں سے کرتے ہیں۔ ادیب سے ہم کسی نظریے یا خارجی دنیا کے بارے میں سچ بولنے کا اتنا مطالبہ نہیں کرتے جتنا اپنے بارے میں سچ بولنے کا۔ اپنے اندر جو سچ جھوٹ بھرا ہوا ہے اس سے چشم پوشی کرکے سچا ادب پیدا نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ اور یہ کہ ’’جب تک ہمیں کسی فعل کا انسانی پس منظر معلوم نہ ہو، محض خارجی عمل کا نظارہ ہمارے اندر کوئی دیرپا، ٹھوس اور گہرے معنویت رکھنے والا رد عمل پیدا نہیں کرسکتا۔‘‘ ہندوستان میں بھاگلپور کے فسادات کے دوران کہی جانے والی کچھ نظموں کی اپنی کتاب ایک شاعر نے مجھے اس وضاحت کے ساتھ بھیجی کہ ’’اس وقت جب شہر جل رہا تھا میں اپنے کمرے میں بیٹھا یہ نظمیں لکھ رہا تھا۔‘‘
ظاہر ہے کہ میرا پہلا ردعمل یہی تھا کہ آس پاس آگ لگی ہوتو نظمیں کہنے کے بجائے پہلے اس آگ کوبجھانے کی فکر کرنی چاہیے اور میں نے وہ کتاب بغیر پڑھے رکھ دی تھی۔ انسانی سروکاروں پر مبنی تجربے کا با معنی بیان، انتشار اور تشدد اور ابتری کے ماحول سے نکلنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ لہٰذا ادب میں انسان دوستی کے مضمرات کا جائزہ لیتے وقت صحافتی یا ہنگامی ادب اور مستحکم یا پائیدار قدروں کے حامل ادب میں فرق کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ جنگ کے زمانے کا ادب، بہ قول آرول، صحافت ہوتی ہے۔ آندرے ژید نے کہا تھا ’’ایسا آدمی جو اپنی شخصیت کی خاطر نوع انسانی کا تیاگ کرتا ہے بالآخرایک بوالعجب، اوٹ پٹانگ اور نامکمل آدمی بن کر رہ جاتا ہے۔‘‘ اور ظاہر ہے کہ نامکمل آدمی کسی آفاقی انسانیت صداقت تک نہیں پہنچ سکتا۔
منٹو کی یہ تخلیقات (ٹھنڈا گوشت، کھول دو، سیاہ حاشیے)، جن کا ذکر اوپر کیا گیا صرف فسادات کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے بارے میں ہیں۔ اس فرق کو سمجھنا یوں ضروری ہے کہ مثال کے طور پر نظریاتی یا مذہبی اساس رکھنے والی جنگیں، نظریوں اور مذاہب کے مابین ہوتی ہیں، انسانوں کے مابین نہیں ہوتیں کیونکہ بالعوم، مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے انسانوں کے مسئلے بیشتر مشترک ہوتے ہیں، ایک سے دکھ سکھ، ایک سی امیدیں اور مایوسیاں، ایک سے خواب اور ایک سی ہزیمتیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران کی ہندوستانی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے ممتاز شیریں نے لکھا ہے کہ اس وقت کچھ لوگوں نے ہمارے ادیبوں کی خاموشی اور جنگ سے لاتعلقی پر سوالیہ نشان تو قائم کیا لیکن یہ حقیقت بھلادی کہ ’’ہمارے ادیب خاموش صرف اس لیے نہیں تھے کہ ان کے ذہنوں میں شکوک اور الجھنیں تھیں بلکہ اس لیے کہ دوسری جنگ عظیم کرہ ٔ ارض میں لڑی جانے کے باوجود ہندوستان سے دور تھی اور ادیب کے ماڈل، یعنی انسانی زندگی۔۔۔ اپنے گردوپیش کی انسانی زندگی میں کوئی ہلچل تو کیا، ایک ہلکے سے تموج کی کیفیت بھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔‘‘
لیکن فسادات تو ہمارے آس پاس کی دنیا میں ہورہے تھے اور ہمارے ادیبوں کے لیے یہ موضوع اجنبی یا نا مانوس نہیں تھا۔ تقسیم کے المیے کا جو اثر عام انسانی زندگی پر پڑ رہا تھا اس کی آنچ ہم سب محسوس کر رہے تھے۔ اس میں عام اور خاص کا فرق نہ تھااور اس المیے کا بنیادی تقاضا یہ تھا کہ نظریاتی یا مذہبی پوزیشن لینے کے بجائے سیدھی سادی عام انسانی سطح پر اس کے بخشے ہوئے درد کا دراک کیا جائے۔ لیکن زیادہ تر افسانے عجلت میں لکھے گئے اور ان میں تخلیقی سطح پر کسی گہرے ردعمل سے زیادہ اظہار ایسے جذبوں کا ہو اجو ہنگامی اور صحافیانہ نوعیت کے حامل تھے۔ منٹو اور اس کے ہم عصروں کی کہانیاں ایک ساتھ سامنے رکھی جائیں تو ان کا فرق اور منٹو کا امتیاز سمجھ میں آتا ہے۔ اپنے معاصرین کے برعکس، منٹو نے فارمولا کہانی لکھنے سے گریز کیا۔ اس قسم کے مسئلے کہ انگریزی حکومت نے فسادات کا بیج بویا تھایا یہ کہ تقسیم اور ہجرت فسادات کی جڑ ہیں یا یہ کہ ہندو، سکھ، مسلمان، سب کے سب یکساں طور پر قصور وار ہیں اس لیے اس موضوع پر لکھتے وقت سب کا ساب برابر رکھنا چاہیے، یہ منٹو کے مسئلے نہیں تھے۔ منٹو نے تو اجتماعی وحشت اور دیوانگی کے اس ماحول میں ہندومسلمان سے بے نیاز ہوکر انسانوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تقسیم کے سانحے کا اثر براہ راست منٹو کی زندگی پر بھی گہرا پڑا، اس نے اپنی حالت اور اس فضا میں اپنے باطن کی زمین پر اٹھنے والے سوالوں کا احاطہ ان لفظوں میں کیا ہے،
’’اب میں سوچتا ہوں کہ میں کیا ہوں اس ملک میں جسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کہاجاتاہے، میرا کیا مقام ہے۔ میرا کیا مصروف ہے۔ آپ اسے افسانہ کہہ لیجئے۔ مگر میرے لیے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ میں ابھی تک خود کو اپنے ملک میں جسے پاکستان کہتے ہیں اور جو مجھے بہت عزیز ہے، اپنا صحیح مقام تلاش نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ میری روح بے چین رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کبھی پاگل خانے اور کبھی ہسپتال میں ہوتا ہوں۔‘‘
’’سیاہ حاشیے پر حاشیہ آرائی‘‘ کے عنوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے محمدحسن عسکری نے ایک بنیادی سچائی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ منٹو کو ان افسانوں کے اثرات کے بارے میں نہ غلط فہمیاں ہیں، نہ انھوں نے ایسی ذمے داری اپنے سرلی جو ادب پوری کرہی نہیں سکتا۔ انھوں نے ظالموں پر لعنت بھیجی نہ مظلوموں پر آنسو بہائے۔ انھوں نے تو یہ تک نہیں کہا کہ ظالم لوگ برے ہیں یا مظلوم اچھے ہیں۔‘‘
ان کا نقطہ نظر نہ سیاسی ہے، نہ عمرانی، نہ اخلاقی بلکہ ادبی اور تخلیقی۔ منٹو نے صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ظالم یا مظلوم کی شخصیت کے مختلف تقاضوں سے ظالمانہ فعل کا کیا تعلق ہے۔ ظلم کرنے کی خواہش کے علاوہ ظالم کے اندر اور کون کون سے میلانات کارفرما ہیں۔ انسانی دماغ میں ظلم کتنی جگہ گھیرتا ہے، زندگی کی دوسری دلچسپیاں باقی رہتی ہیں یا نہیں، منٹو نے نہ تو رحم کے جذبات بھڑکائے ہیں نہ غصے کے نہ نفرت کے وہ تو آپ کو صرف انسانی دماغ، انسانی کردار اور شخصیت پر ادبی اور تخلیقی انداز سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر کوئی جذبہ پیدا کرنے کی فکر میں ہیں تو صرف وہی جذبہ جو ایک فنکارکو جائز طور پر پیدا کرنا چاہیے۔۔۔ یعنی زندگی کے متعلق بے پایاں تحیر اور استعجاب۔ فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ افسانے ہیں۔
ادب میں انسان دوستی کے تصور کی سب سے گہری اور پائدار جہت دراصل اسی زاویے سے نکلتی ہے۔ رقت خیزی یا ترحم یا مثال پرستی کی سطح سے یہ سطح بالکل الگ ہے اور اپنے لازوال انسانی عنصر کے ساتھ ساتھ لکھنے والے کی اپنے حقیقی منصب (یعنی تخلیقی عمل) کے تیئں دیانت داری اور ذمے داری کے احساس کی گواہی بھی دیتی ہے۔ میرے خیال میں یہ مناسب ہوگا کہ اس گفتگو کو ختم منٹو کے سیاہ حاشیے کی دو ایک مثالوں کے ساتھ کیا جائے۔
’’چلتی گاڑی روک لی گئی۔ جو دوسرے مذہب کے تھے ان کو نکال نکال کر تلواروں اور گولیوں سے ہلاک کردیا گیا۔ اس سے فارغ ہوکر گاڑی کے باقی مسافروں کی حلوے دودھ اور پھلوں سے تواضع کی گئی۔ گاڑی چلنے سے پہلے تواضع کرنے والوں کے منتظم نے مسافروں کو مخاطب کرکے کہا، ’’بھائیواور بہنو! ہمیں گاڑی کی آمد کی اطلاع بہت دیر میں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جس طرح چاہتے تھے اس طرح آپ کی خدمت نہ کر سکے۔‘‘ (کسر نفسی، سیاہ حاشیے)
’’جب حملہ ہوا تو محلے میں سے اقلیت کے کچھ آدمی تو قتل ہوگئے۔ جو باقی تھے جانیں بچا کر بھاگ نکلے۔ ایک آدمی اور اس کی بیوی البتہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپ گئے۔ دو دن اور دو راتیں پناہ یافتہ میاں بیوی نے قاتلوں کی متوقع آمد میں گزاردیں۔ مگر کوئی نہ آیا۔ چار دن بیت گئے۔ میاں بیوی کو زندگی اور موت سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ وہ دونوں جائے پناہ سے باہر نکل آئے۔ خاوند نے بڑی نحیف آواز میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا ’’ہم دونوں اپنے آپ کوتمھارے حوالے کرتے ہیں۔ ہمیں مارڈالو۔ جن کو متوجہ کیا گیا تھا وہ سوچ میں پڑگئے ’’ہمارے دھرم میں تو جیوہیتا پاپ ہے۔‘‘ وہ سب جینی تھے لیکن انھوں نے آپس میں مشورہ کیا اور میاں بیوی کو مناسب کاروائی کے لیے دوسرے محلے کے آدمیوں کے سپرد کردیا۔‘‘ (مناسب کاروائی، سیاہ حاشیے)
گاڑی رکی ہوئی تھی۔ تین بندوقچی ایک ڈبے کے پاس آئے۔ کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انھوں نے مسافروں سے پوچھا ’’کیوں جناب! کوئی مرغا ہے۔‘‘ ایک مسافر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ باقیوں نے جواب دیا ’’جی نہیں۔‘‘ تھوڑی دیر بعد چار نیزہ بردار آئے۔ کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انھوں نے مسافروں سے پوچھا ’’کیوں جناب کوئی مرغا وُرغا ہے؟ اس مسافر نے جو پہلے کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔ جواب دیا ’’بھئی معلوم نہیں ہے! آپ اندر آکے سنڈاس میں دیکھ لیجئے۔‘‘ نیزہ بردار اندر داخل ہوئے۔ سنڈاس توڑا گیا تو اس میں سے ایک مرغا نکل آیا۔ ایک نیزہ بردار نے کہا ’’کردو حلال۔‘‘ دوسرے نے کہا ’’نہیں۔ یہاں نہیں! ڈبہ خراب ہوجائے گا۔۔۔ باہر لے چلو۔‘‘ (صفائی پسندی، سیاہ حاشیے)
یہاں ان کہانیوں کی تشریح یا ان تجربات کے سلسلے میں کسی طرح کی وضاحت غیر ضروری ہے۔ تاہم اس جملے کے ساتھ میں اب یہ گفتگو ختم کرتا ہوں کہ درداور دہشت سے بھرے ہوئے ان واقعات سے زیادہ درداور دہشت یہاں ’’مناسب کاروائی‘‘ یا ’’صفائی پسندی‘‘ اور کسر نفسی‘‘ کے ان تصورات میں چھپی ہوئی ہے، جن کا اظہار متعلقہ کرداروں کی طرف سے ہوا ہے۔ انسان دوستی کا زاویہ یہ بھی ہے اور اس زاویے تک رسائی کے لیے منٹو نے صرف اپنی بصیرت کو رونما بنایا ہے۔ ہتیا کو پاپ سمجھنے والے ’’مناسب کاروائی‘‘ کے لیے قاتلوں کا سہارا لے سکتے ہیں اور ایسے لوگ بھی قاتل ہوسکتے ہیں جن میں صفائی اور گندگی کی تمیز باقی ہو۔ منٹو نے اپنی انسان دوستی کا مواد، وجود کی اسی بھول بھلیاں میں سے ڈھونڈنکالاہے۔۔۔ کہ اس کی تلاش، بہرحال، ایک ادیب کی اور ایک تخلیقی آدمی کی تلاش تھی! یہ تلاش ہمیں بتاتی ہے کہ ادب کا مطالعہ پہلے سے طے شدہ کسی سیاسی، سماجی یا علمی دستاویز کا نعم البدل نہیں ہوتا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...