اگر ادبی تھیوری جیسی کوئی چیز موجود ہے تو ادب نامی چیز بھی ضرور موجود ہو گی جس کی یہ تھیوری ہے۔ چنانچہ ہم یہ سوال اٹھانے کے ساتھ ابتدا کر سکتے ہیں: ادب کیا ہے؟
ادب کی تعریف پیش کرنے کی کئی کوششیں ہوئی ہیں۔ مثلاً آپ اس کی تعریف فکشن کے معنوں میں ’تخیلاتی‘ (imaginative) تحریر کے طور پر کر سکتے ہیں – ایسی تحریر جو لفظی معنوں میں درست نہ ہو۔ لیکن لوگ عموماً ادب میں کیا کچھ شامل کرتے ہیں، اس پر مختصر سا غوروفکر بھی بتا دیتا ہے کہ یہ کارآمد نہیں۔ سترھویں صدی کے انگلش ادب میں شیکسپیئر، ویبسٹر، مارویل اور ملٹن شامل ہیں، لیکن بعد ازاں اس میں فرانسس بیکن کے مضامین، جان ڈن کے خطبات، بُنیان کی روحانی خود نوشت سوانح اور سر تھامس براؤن کی تحریریں بھی شامل ہو گئیں۔ اِس میں ہوبز کی لِیویاتھن یا کلیرنڈن کی ’History of the Rebellion‘ بھی شامل کی جا سکتی ہے۔ سترھویں صدی کے فرانسیسی ادب میں کارنیلی اور ریسین کے ساتھ ساتھ لا روش فوکو کے مقولے، بوسوئے کی جنازوں پر تقاریر، شاعری پر بوائلو کا مقالہ، مادام دی سیوینیے کے اپنی بیٹی کے نام خطوط اور ڈیکارٹ و پاسکل کا فلسفہ بھی شامل ہے۔ انیسویں صدی کے انگلش ادب میں عموماً لیمب (مگر بینتھم نہیں)، مکالے (مگر مارکس نہیں)، مِل (مگر ڈاروِن یا ہربرٹ سپنسر نہیں) کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
تو ’حقیقت‘ اور ’فسانے‘ (فکشن) کے درمیان فرق ہمیشہ زیادہ دور تک ہرگز نہیں پہنچاتا، کیونکہ اکثر یہ فرق خود بھی قابلِ سوال ہے۔ مثلاً کہا گیا کہ ’تاریخی‘ اور ’آرٹسٹک‘ صداقتوں کے درمیان ہمارا تفرق آئس لینڈ کی قدیم داستانوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ سولھویں صدی کے اواخر اور سترھویں صدی کے اوائل کی انگلش میں لفظ ’ناول‘ غالباً سچے اور فکشن پر مبنی دونوں طرح کے واقعات کے متعلق استعمال ہوتا تھا، اور حتیٰ کہ نیوز رپورٹس کو بھی بہ مشکل ہی حقیقت پر مبنی خیال کیا جاتا تھا۔ ناول اور نہ ہی نیوز رپورٹس دوٹوک طور پر واقعی اور نہ ہی افسانوی تھیں: ان دو کیٹگریوں کے درمیان ہمارے قطعی امتیازات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ بلاشبہ گِبن نے سوچا کہ وہ تاریخی سچائی لکھ رہا تھا، اور شاید کتابِ پیدائش کے مصنفین نے بھی یہی سوچا ہو گا، لیکن اب کچھ لوگ انھیں بطور ’حقیقت‘ اور کچھ بطور ’فکشن‘ پڑھتے ہیں؛ نیومَین نے یقیناً یہی سوچا کہ اُس کے دینیاتی مجاہدے حقیقی تھے لیکن اب بہت سے قاری اُنھیں ’ادب‘ سمجھتے ہیں۔ مزید برآں، اگر ’ادب‘ میں بہت سی ’حقیقت پر مبنی‘ تحریر شامل ہے تو یہ بہت سے فکشن کو خارج بھی کر دیتا ہے۔ سپرمَین کامِک اور مِلز اور بُون کے ناول فکشن پر مبنی ہیں لیکن بالعموم انھیں ادب نہیں سمجھا جاتا، اور ادب تو بالکل بھی نہیں۔ اگر ادب ’تخلیقی‘ یا ’تخیلاتی‘ تحریر ہوتی ہے تو کیا اس کا مطلب ہوا کہ تاریخ، فلسفہ اور فطری سائنس غیر تخلیقی اور غیر تخیلاتی ہیں؟
شاید آپ کو ایک بالکل مختلف قسم کا نقطۂ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید ادب کی تعریف اس روشنی میں نہیں کرنی چاہیے کہ یہ فکشن پر مبنی یا تخیلاتی ہے یا نہیں، بلکہ اِسے زبان استعمال کرنے کے مخصوص طریقوں کے مطابق جانچنا چاہیے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...