منصور خوشتر نے نئی نسل کے شعرا میں اپنی ایک الگ راہ متعین کی ہے۔ جس کے وہ خود ہی مختارِ کل بھی ہیں اور خود ہی صاحبِ استطاعت بھی۔منصور خوشتر تخلیقی اور تنقیدی دونوں میدانوں کے کار گذار ہیں اور وہ ان دونوںسے دامن کی کشادگی میں جان و تن سے مصروفِ عمل ہیں۔نہ صرف تخلیق و تنقید بلکہ ڈاکٹر شاہدالرحمٰن کے بقول انھوں نے ’’رسالہ دربھنگہ ٹائمز کے ذریعے ادب کی ترتیب کاری کا قابل قدر نمونہ پیش کیا ہے۔‘‘ادب کا ہر فعل فنی اور فکری خصوصیات کا متقاضی ہوتا ہے اور منصور خوشتر ان سبھی فنی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوگر اور ان کو ملحوظ نظر رکھ کر چلتے ہیں۔اپنے ادبی کثیر الالمقاصد منصوبوں میں انہیں کامیابی پہ کامیابی ملتی جارہی ہے۔یوں سمجھئے کہ کامیابیاں ان کے دامن میں سمٹتی جا رہی ہیں۔لیکن پھر بھی انہیں اطمینان حاصل نہیں ہے۔ وجہ یہی ہے کہ موصوف ادب میں وسعتِ افلاک کی مانند ہمہ گیریت ، جامعیت اور جاذبیت پیدا کرنے کے تئیں ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔انھوں نے حقیقی معنوں میں اردو زبان و ادب کو اپنی تخلیقی و تنقیدی ذہانت اور بصیرت کی بنیاد پر اور غیر معمولی تجربہ کاری سے وسعت عطا کرنے کی قابلِِ ستائش کوشش کی ہے۔ادب کی اس تیز رفتار دوڑ میں ان کاقدم بھی مستحکم اور متمکن ہے۔منصور خوشتر نے کئی نوآموز قلم کاروںکے لکھنے کی راہ دربھنگہ ٹائمز کے ذریعے ہموار کی ہے۔ادب کے میدان میں انھوںنے جس تیز رفتاری کے ساتھ قدم رکھے ہیں اتنی ہی تیزی کے ساتھ وہ اپنی شناخت بھی مستحکم بنانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔کچھ قلم کاروں کو بہت کچھ لکھنے کے بعد شہرت حاصل ہوتی ہے جبکہ کچھ اسے محروم بھی رہتے ہیں۔ اس کے برعکس ڈاکٹر منصور خوشر نے کم عمری میں ہی شہرت کے اس پائیدان پر قدم رکھا ، جہاں سے واپس مڑنا ان کو قطعی گوارا نہیں ہوگا۔ بلکہ موصوف مستغنی ہو کر ادب کی خدمت گذاری میںجان کاہی سے لگے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر منصور خوشتر ہمہ جہت ادبی صفات کے مالک ہیں۔ ان میں ایک خاص خوبی یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ جب بھی کسی کام کو کرنے عزم کرتے ہیں تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ یہ کہنا مناسب نہیں کہ کام کرتے وقت ان کے سامنے راہ ہموار ہوتی ہے بلکہ اپنے مسلسل جہد، ہمت و اسقلال اور پُر عزم حوصلے کی بنیاد پر وہ ہر مشکل کام کو آسان بنا دیتے ہیں۔ راہ میں حائل ہر رکاوٹ سے نبٹنا انہیں بخوبی آتا ہے۔ یوں تو اردو زبان کے بہت سارے خیر خواہ اور چاہنے والے ہیں جو اس کے فروغ کے لئے فکر مند رہتے ہیں اور لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی سرگرمیوں کی داد دیتے رہتے ہیں لیکن یہاںایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو ان کے حوصلے پست کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔چنانچہ منصور خوشتر ان کی طرف بالکل بھی متوجہ نہیں ہوتے بلکہ اپنے کاموں میں مگن ہو کرادبی افعال کو انجام دیتے رہے ہیں۔موصوف اب بہت سارے نوجوان لکھنے والوں کے لئے ایک آئیڈیل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔کوئی مانے یا نہ مانے میں تو اس کا صد فی صد اعتراف کرتاہوں۔
منصور خوشتر اپنی زندگی کے تیسویں سال میں قدم رکھ چکے ہیں۔لیکن تیس سال کے اس نوجوان، باحوصلہ اور قادرالکلام قلم کار کے ادبی گراف پر اگر سرسری نظر دالی جائے تو طبیعت بہت حیران ہو جاتی ہے اورانسان اچنبھے میں بھی پڑجاتاہے۔ابتداء میں ان کی رغبت سائنسی موضوع کی طرف تھی۔انھوں نے اگرچہ اس شوق کو بھی پورا کیا اور فزیو تھرپی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن اردو کے تئیں ان کی رغبت نے انہیں اس زبان کی طرف اس قدر مائل کیا اور اس قدر گدگدایا کہ وہ صرف اردو ہی کے رہ گئے۔ان کی اگرچہ دیگر مصروفیات بھی ہیں لیکن اردو زبان کی جانب رجحان کے باعث وہ اپنا زیادہ تر وقت اسی میںصرف کرنے لگے۔ان کی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کے بارے میں بہت سارے مضامین میں ذکرکیا جا چکا ہے۔صحافتی سرگرمیوں کے حوالے سے انھوں نے بہت ہی دیرپا نقوش مرتسم کیے ہیںجیسے کہ ہندی اخبار’’دربھنگہ خیر‘‘،پندرہ روزہ اردو اخبار’’دربھنگہ ٹائمز‘‘(جس نے بعد میں سہ ماہی’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ کی شکل اختیار کر لی)،المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کا قیام،اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام پچاس سے زائد شعرا و ادبا کو اعزازات سے نوازنا،مختلف ادبی اور صحافتی موضوعات پر قومی اور بین الاقوامی سمیناروں اوردرجنوںمشاعروں اور ادبی نشستوں کا انعقادکرناوغیرہ ان کی متحرک اور فعال شخصیت کا نمونہ ہے۔منصور خوشتر کو ان کی صحافتی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں مختلف انجمنوں اور ریاستی اکاڈمیوں نے انعام و اکرام سے بھی سرفرازکیا ہے جن کی تعداد درجنوں ہیں۔
منصور خوشتر کی اب تک نو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں سوائے ایک ’’کچھ محفلِ خوباں کی‘‘ کے باقی سب کتابیں ترتیب و تہذیب کے ذمرے آتی ہیں۔یہ ساری کی ساری کتابیں صرف تین سال کے نہایت ہی قلیل عرصے کے اندر شائع ہو کر بے پناہ دادو تحسین وصول کر چکی ہیں۔سب سے پہلی کتاب’’لمعاتِ طرزی‘‘(۲۰۱۴ء) ہیں۔اس کتاب میں منصور خوشتر نے پروفیسر عبدالمنان طرزی کی شاعرانہ خوبیوں کے اعتراف میں ۱۳۴ مشاہیرِ ادب کی آراء ومکتوبات کو جمع کر کے انہیں ایک بے حد خوبصورت ادبی گلدستے کی شکل عطا کی ہے۔ ان مشاہیر کا اردو کے مختلف شعبوں سے تعلق ہے جو عہد حاضر کے ممتاز قلم کاروں میں شمار ہوتے ہیں اوران کا لکھابقولِ میرتقی میرؔ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کے مصداق کی حیثیت رکھتا ہے۔جن میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی،پروفیسر حامدی کاشمیری، ڈاکٹر سید تقی عابدی، پروفیسر آغا عماد الدین،پروفیسر افتخار اجمل شاہین،پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی،پروفیسر گوپی چند نارنگ، معروف شاعر منور رانا،فراز حامدی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔پیش نظر کتاب میں ان سب ادیبوں نے طرزی صاحب کی شاعرانہ خوبیوں ، منظوم تبصروں اورصنفِ نثر پر ان کی دسترس کے حق میں اپنی بے باک آرا ء پیش کی ہیں۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اس کتاب پر اپنی تحریر’’تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’پروفیسر عبدالمنان طرزی عبقری شخصیت کے مالک ہیں، ایک نابغہ ہیں۔ بے بدل جینیئس ہیں اور اردو میں منظوم تنقید کے بانی ہیں‘‘۔ہرگانوی صاحب مرتبِ کتاب منصور خوشتر کی علمی و ادبی جستجو کی بھی داد دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق اردو ادب کے افق پر نئی شفق بکھیرنے والی اس چھتنار شخصیت پر منصور خوشتر کی یہ کتاب بصیرت کا نکشاف کرتی ہے اورجو نئی فکر اور جودت طبع کو بھی اجاگر کرتی ہے۔سال ۲۰۱۴ء میں ہی منصور خوشتر نے پروفیسر عبدالمنان طرزی پر اپنی دوسری کتاب ترتیب دی۔جس کا نام ’’نثر نگارانِ دربھنگہ‘‘ رکھا۔ جو طرزی صاحب کی منظوم تخلیق ہیں۔جس میں انھوں نے دربھنگہ کے نثر نگاروں کا مختصر تعارف پیش کیا ہے اور ڈاکٹر احسان عالم کے بقول’’یہ کتاب صرف ایک شعری مجموعہ نہیں بلکہ ایک تحقیق اور تاریخ کا سنگم ہے۔‘‘اس کتاب میں دربھنگہ کے جن نثر نگار قلم کاروں اور فنکاروں کے حوالے سے پروفیسر موصوف نے تعارفی اشعار پیش کیے ہیں ان میں آرزو جلیلی، ڈاکٹر آغا عماد الدین احمد، ڈاکٹر آفتاب اشرف، قومی تنظیم کے روح ِ رواں سید اجمل فرید، ڈاکٹر منصور خوشتر، پروفیسر محمد ارشد جمیل، اسلم بدر، اشرف فرید،ڈاکٹرامام اعظم وغیرہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔اردو کے معتبر نقاد ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی اس کتاب کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:
’’ یہ آپ نے بڑے کمال کا کام کیا ہے۔ اتنے لوگوں کا نام جمع کرنا ہی بڑاکارنامہ تھا چہ جائیکہ ان کے حالات اکٹھا کرنا اور پھر انہیں منظوم کر ڈالنا۔ آج کے پڑھنے والوں کے لئے تو اس کتاب کی کوئی خاص اہمیت نہ ہوگی کیونکہ اس میں جن لوگوں کا تذکرہ ہے وہ زیادہ تر مقامی حیثیت کے مالک ہیں ان کے حالات خود ان کے لیے یا ان کے متعلقین کے لئے یقینادل چسپی کا باعث ہوں گے، لیکن تاریخ کی کتاب کے اعتبارسے یہ تصنیف آئندہ زمانے میں وہی اہمیت رکھے گی جوآج پرانے تذکروں کی ہے۔‘‘(نثر نگارانِ دربھنگہ از منصور خوشتر،ص:۴۴)
مذکورہ بالا اقتباس سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔منصور خوشتر نے نثر نگارانِ دربھنگہ پر لکھے گئے پروفیسر عبدالمنان طرزی کے اشعار کو جمع و ترتیب دے کر ایک قابلِ تقلید کارنامہ انجام دیا ہے۔منصور خوشتر چونکہ ایک متحرک، فعال اور سرگرم صحافی بھی ہیں اور صحافت ان کے رگ و ریشہ رچی بسی ہے۔انھوں نے صحافت میں سند کا درجہ رکھنے والا کام کیا ہے۔ان کی تیسری کتاب’’ماجرا۔ دی اسٹوری‘‘ میں اردو کے ایک نامور صحافی اور قومی تنظیم کے چیف ایڈیٹر سید ایم اشرف فرید صاحب کے وہ ۴۴/ مضامین شامل ہیں جو وقتاً فوقتاً روزنامہ اخبار’’قومی تنظیم‘‘ میں شائع ہوئے اور قارئین کی نظر سے گزرتے رہے ہیں۔ ایس ایم فرید ایک باشعوراورذہین صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ قوم و ملّت کے تئیںہمدرد بھی ہیںاور فکر مند بھی۔ کتاب میں شامل مضامین میںموصوف مسلمانوں کی زبوں حالی، پسماندگی اورمسلکی اختلافات کا بھی ذکر کرتے ہیں اور مسلمانوں کو متحد ہوکر مسائل کا سامنا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ان مضامین کے مطالعے سے سید اشرف فرید کی ذہنی وسعت و فکر کا اندازہ ہوجاتا ہے۔منصور خوشتر نے اس کتاب کو ترتیب دے کر نہ صرف ایک ذمہ دارصحافی اور مرتب کا فریضہ انجام دیا ہے بلکہ اپنی مخلصی کا ثبوت بھی دیاہے۔کیونکہ جب یہ مضامین اخبار میں شائع ہورہے تھے تب ظاہر ہے کہ صرف محدود لوگوں کو ہی ان مضامین تک رسائی حاصل ہوئی ہوگی اورجنہیں ان مضامین کے مطالعے کا شرف حاصل ہوا ہوگا ۔ جبکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جو ان کے مطالعے سے قاصر رہے ہوں گے۔ اس طرح منصور خوشتر نے اس کتاب کو مرتب کر کے بیک وقت کئی کارنامے انجام دیے ہیں ایک تو بکھرے ہوئے مضامین کو محفوظ کرنے کی ضمانت پیش کی اور دوسرا یہ کہ قارئین کی شاملِ کتاب مضامین کے مطالعے کے لئے راہ آسان کر دی اور یہ خصوصیت ان کے ترتیب شدہ ہر کتاب میںبخوبی پائی جاتی ہے۔منصور خوشتر کی چوتھی کتاب’’اجمل فریدی:یادیں باتیں‘‘ ۲۰۱۵ء میں منظر عام پر آئی۔’’قومی تنظیم‘‘ کے چیف ایڈیٹر، مشہور و معروف صحافی اوربانی سید عمر فرید کے بیٹے اجمل فرید کا سال ۲۰۱۵ء میں ہی انتقال ہوا اور منصور خوشتر نے اسی سال کتاب’’اجمل فرید :یادیں باتیں‘‘شائع کر کے انہیں بھر پور خراجِ عقیدت پیش کیا ۔دراصل یہ کتاب اجمل فرید کے معاصرین، معروف ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں وغیرہ کے فرید صاحب کی وفات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔جس سے اجمل فرید کو ان کی شخصیت کے مختلف جہات اورمتنوع صفات کے اعتراف میں انتقال کے بعد خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔منصور خوشترکی یہ کوشش بھی بے حد کامیاب رہی۔اس کتاب کے عوض میں موصوف کو اہلِ زبان و ادب نے بہت دادبخشی۔ ’’نقد افسانہ‘‘ منصور خوشتر کاایک اوراہم اور قابلِ قدر کارنامہ ہے۔جس میںفکشن اور فکشن کی تنقید لکھنے والے نئی نسل کے نقادوں کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔اس کتاب میں عصری فکشن کی تنقید لکھنے والے کئی معتبر قلم کاروں کے مضامین جگہ پا گئے ہیں۔ جنھوں نے اردو فکشن کی دنیا میں اپنا ایک مستقل مقام پیدا کیا ہے ۔کیوں نہ ہو، فکش پر ان کا کام ہی قابلِ مستحسن ہے۔ان میں دیپک بدکی، ابو بکر عباد، حقانی القاسمی، شہاب ظفر اعظمی ، قیام نیر، شاہد الرحمٰن وغیرہ شامل ہیں۔’’کاسہ‘‘ کے عنوان سے اپنے تحریر کیے گئے پیش لفظ میں منصور خوشتر شاملِ کتاب مضامین کے موضوعات کے حوالے سے اپنی آراء یوں پیش کرتے ہیں:
’’نقدِ افسانہ‘‘ میں شامل ہونے والے تنقیدی مضامین افسانہ نگاری کے کم و بیش تین دور کا احاطہ کرتے ہیں۔ بیدی، منٹو، کرشن چند، احمد ندیم قاسمی، اختر اوینوی، وغیرہ کے فن پر یہ مضامین کھلی بحث کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ جدید افسانوں کے رجحانات پر لکھے گئے مضامین وسعت آشنا ہیں۔ کل ملا کر یہ تمام مضامین اردو فکشن کی صحیح صورت حال کو پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔‘‘
’’نقدِ افسانہ‘‘ میں شامل مضامین دراصل دربھنگہ ٹائمز میں پہلے شائع ہوئے تھے جن کو جمع اور ترتیب دے کر انھوں نے کتابی شکل میں شائع کر دیا۔’’اجالوں کا گھر‘‘ منصور خوشتر کی چھٹی خوبصورت پیشکش ہے۔جو اردو کے بیس معروف افسانہ نگاروں کے افسانوی انتخاب پر مشتمل ہے۔ ان افسانوں کے خالق ملک اور بیرون ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن میں کچھ افسانہ نگاروں نے اردو فکشن میں عالمی سطح پر شہرت حاصل کی ہے ،کچھ ا فسانہ نگار نو آموز ہیں جواپنی شناخت بنانے میں فی الوقت مصروف ہیں اور بعض افسانہ نگار ایسے ہیں جو کئی برسوںسے افسانے لکھ رہے ہیں اور افسانوی دنیا اپنی ایک مستحکم شناخت بنانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔منصور خوشتر لکھتے ہیں کہ کتابی صورت میں انہیں شائع کرنے کی مختلف وجوہات اور مقاصد ہیں جو متوجہ کرتے ہیں اور بقول ان کے’’افسانوں کے اس انتخاب کے تعلق سے مجھے جو کہنا ہے وہ یہ ہے کہ مجھے اطمینان ہے کہ یہ افسانے آج کے گلوبل اردو افسانہ نگاری کے منظر نامہ کو پیش کرتے ہیں۔‘‘غرض کہ یہ سبھی افسانے اپنے آپ میں انفرادی نوعیت کے حامل ہیں۔ چند افسانہ نگار وں میں شموئل احمد(گھر واپسی)،پیغام آفاقی(ڈائن)،مشتاق احمد نوری(لمبی ریس کا گھوڑا)، مناظر عاشق ہرگانوی(گذرتی عمر کی کنواری لڑکی)، فرخ ندیم(چودہویں رات کی سرچ لائٹ)، رحمن عباس(چار ہزار برسوں کا بھید)،نعیم بیگ( آخری معرکہ)، سید احمد قادری(وقت کا بہتا دریا)،ابرار مجیب(رات کا منظر نامہ)،اقبال حسن آزاد(روح) وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ان افسانوں کو بہت سے قارئین نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ان افسانوں کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا یہ ایک خاص سبب بنا ہے۔۔پروفیسر طرزی صاحب پر منصور خوشتر کی تیسری کتاب’’پروفیسر طرزی کے منظوم تبصرے‘‘ پر مبنی ہے۔یہ کتاب ۲۰۱۶ء میں ہی زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پروفیسر طرزی اردو کے ایک جانے مانے شاعر ہیں۔اپنی ذود گو ئی ،پختہ شاعری اور منفرد سوچ کے باعث انہیں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ان کی زود گوئی پر شمس الرحمٰن فاروقی نے انہیں ’’جن‘‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔پروفیسر موصوف اردو شاعری میں منظوم تبصرے کے بانی کہلاتے ہیں۔اس کتاب میں ان کے کل۱۰۴ منظوم تبصرے شامل ہیں۔جو مختلف اہلِ قلم حضرات کی کتابوں پر کیے گئے ہیں۔جس میں سب سے زیادہ سولہ منظوم تبصرے پروفیسر وہاب اشرفی کی کتابوں پر ملتے ہیں۔رسائل و جرائد کی تعریفات پر بھی مبنی تبصرے ملتے ہیں۔ان تبصروں کو یکجا اور پھر ان کو زیور طبع سے آراستہ کرنا بھی ایک قابل تعریف کام ہے۔حال ہی میں منصور خوشتر کی آٹھویں کتاب ’’بہار میں اردو صحافت۔سمت و رفتار‘‘شائع ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں آگئی۔ کتاب کو دیکھ کرہی طبیعت باغ باغ ہوئی۔یہ کتاب موصوف کی تصنیفات و تالیفات میں ایک اور قابلِ قدر اور سدا بہار اضافہ ہے۔دراصل دو سال قبل انھوں نے بہار میں اردو صحافت پر دو روزہ قومی سمینار منعقد کیا تھا۔ جس میں بہار کے نامور ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں، ناقدوں، دانشوروں اور صحافیوں نے اپنے مقالات پڑھے تھے۔اِنہیں مقالات کو اب منصور خوشتر نے ایک مبسوط مقدمے کے ساتھ ترتیب دے کر شائع کیا ہے۔ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ نہ صرف صحافت کا ذوق و شوق رکھتے ہیں بلکہ صحافت کے حوالے سے خامہ فرسائی بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ ہر قسم کی صحافتی سرگرمیوں کی انجام دہی میں پیش پیش بھی رہتے ہیں۔ان کے اندر بے شمار صحافیانہ خوبیاں پائی جاتی ہیں۔موصوف کوادبی صحافت کے دائرے میں آنے والی ہر بیش قیمت تحریری سرمایے کومحفوظ رکھنے کا فن بھی خوب آتا ہے۔’’بہار میں اردو صحافت :سمت و رفتار‘‘ کی اشاعت اس کا جیتا جاگتاثبوت ہے۔اس کتاب میں قلمی تعاون پیش کرنے والے حضرات سے کو ن آشنا نہیں ہے۔بیشتر اردو اور اردو کی ادبی صحافت کے معماروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔یہ سبھی قلم کار اردوزبان کو مقامِ بالاتر سے فیض پہنچانے کی سعی میں جٹے ہوئے ہیں۔اردو میں ان سب کی کاوشات قابلِ تحسین ہے۔اس کتاب سے قارئین ِ اردوبہار میں اردوصحافت آغاز و ارتقاء سے عصرِ حاضر تک کے سبھی پہلوؤںاور اس کے خدوخال سے پوری طرح آگہی حاصل کر سکتے ہیں۔الغرض یہ کتاب بہار میں اردو صحافت کی تاریخ اور خدمات کے موضوع پر ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ا س کتاب میں شامل اٹھائیس مضمون نگاروں میں بعض کے نام اس طرح ہیں۔بہار میں اردو صحافت(مشتاق احمد نوری)،اردو اخبارات اور قومی یکجہتی(عبدالحنان سبحانی)،بہار میں اردو صحافت۔ سمت و رفتار(ڈاکٹر سید احمد قادری)،صحافت،صارفیت اور صہیونیت(حقانی القاسمی)،بہار میں اردو صحافت(صفدر امام قادری)،بہار میں اردو صحافت۔آزادی کے بعد(انوارالحسن واسطوی) وغیرہ وغیرہ ۔
ڈاکٹر منصور خوشتر کی صحافتی خدمات کے بارے میں بات چھیڑی جائے اور سہ ماہی’’دربھنگہ ٹائمز‘‘کا نام نہ لیا جائے توبڑی ناانصافی ہوگی۔’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ جو کبھی ہندی’’دربھنگہ خبر‘‘ تھااور بعد میں بنتے سنورتے پندرہ روزہ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ بنا۔ پھر اسی نام کے ساتھ پندرہ روزہ سے سہ ماہی رسالے کی نوعیت اختیار کر گیا۔یہ رسالہ جوپہلے چند صفحوںپر مشتمل تھا ، بعد میں ایک ضخیم رسالے کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ اس طرح’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ایک وسیع حلقۂ ادب کی علمی پیاس بجھانے کے علاوہ بیشتر قلم کاروں کی تشہیر کا ذریعہ بھی بن گیا۔بڑے بڑے ادبا و شعراکی مشاورتی بورڈ میںشمولیت سے رسالے کی اہمیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے معیار و وقار میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ تجربہ کارصلاح و مشاورتی بورڈ کے ہونے سے رسالے میں انوکھے تجربات کیے گئے۔نت نئے موضوعات رسالے میں جگہ پانے لگے۔ نئے قلم کاروں کے لئے لکھنے کی راہ ہمورا ہوتی چلی گئی کیونکہ دربھنگہ ٹائمز کے ذریعے اِنہیں ایک عمدہ پلیٹ فارم مل گیا۔یہ سب قابل و ہونہار مدیر منصور خوشتر کے ہمہ جہت کردار اور انتھک کوششوں کی محنت کاہی ثمرہ ہے۔ میں یہ کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتاکہ منصور خوشترمیںایک جنونی صحافی،تجربہ ساز مرتب،لائق و فائق منتظم ِ اعلیٰ،منصف مزاج ناقد،جہاں دیدہ مدیر،دیانت دار مصنف اور مولف،حق پرست محقق نیزایک تخلیق کارکی ہرقسم کے خصائص موجود ہیں۔اس ہمہ جہت شخصیت کے باعث ہی ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ کامیابی کے زینے طے کرتا جا رہا ہے۔یہ رسالہ بڑی آب و تاب کے ساتھ مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں سے اس رسالے کے کئی ضخیم خصوصی نمبر شائع ہوئے۔جس میں ’’افسانہ نمبر‘‘(۲۰۱۴ء) اور ’’ناول نمبر‘‘(۲۰۱۵ء)’’غزل نمبر‘‘(۲۰۱۷ء) بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔اپنی اسی انفرادیت اور خصوصیت کے باعث ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ نے بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی ہے۔اس میںنہ صرف مقامی سطح کے ادیبوںکی نگارشات و تخلیقات شائع ہوتی ہیں بلکہ بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کی تحریریں بھی شائع ہوتی رہتی ہے۔یہ سب کچھ صرف اور صرف ڈاکٹر منصور خوشتر کی بدولت ہی ممکن ہو سکا ہے۔اردو کے نامور ادیب، صحافی، ناول نگار،نقاد ڈاکٹر فاروق ارگلی اپنے مضمون’’اردو کے روشن روش مستقبل کی جواں جواں علامت‘‘میں منصور خوشتر کی صحافتی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ڈاکٹر منصور خوشتر نے جب سے دربھنگہ ٹائمز کو ایک مکمل ادبی میگزین کی صورت میں پیش کرنا شروع کیا ہے وہ اردو کی ادبی مجلاتی صحافت کے بہت سے برگزیدہ صحافیوں سے بہت آگے نظر آرہے ہیں۔ دربھنگہ ٹائمز کو اس عہدکا بہترین ادبی جریدہ بنانے میں منصور خوشتر نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لائق و فائق اصحاب کی مجلس مشاورت میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر عبدالمنان طرزی،پروفیسر جمال اویسی، حقانی القاسمی، ابوبکر عباد،فیاض احمد وجیہہ جیسی شخصیات اس سفر میں ان کی راہ نما ہیں۔‘‘(اخذ شدہ:یونی ورسل اردو پوئنٹ ڈاٹ کام)۔
ادبی صحافت کے تئیں منصور خوشتر کی خدمات پر مندرجہ بالا اقتباس میں ڈاکٹر فاروق ارگلی نے انہیں جن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موصوف کسی تجربہ کار اور برگزیدہ صحافی سے کم تر نہیں۔۔بہرحال’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ ہر صورت میں ایک بھرپور رسالہ ہے۔ جس میں تحقیقی و تنقیدی مضامین، شاعری کی بیشتر اصناف سخن، ناول، افسانہ، طنزو مزاح، تبصرے، مراسلے و غیرہ سب اصناف کی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔رسالے کی ترتیب و تہذیب سے منصور خوشتر کی ذہنی اُپچ کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔رسالے کے اداریہ میں منصور خوشترادب میں عہد حاضر کے اہم معاملات پرسیر حاصل روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کی تخلیقی اور صحافتی خوبیوں اور صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھ کر۲۰۱۴ء میں انہیں ہندوستان کے مایہ ناز اور بہار میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے روزنامہ اخبار’’قومی تنظیم‘‘ کے ہفتہ وار ادب نامہ ایڈیشن کو ترتیب دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ جس میںموصوف کی نفاست پسندی، سلیقہ شعاری اور ہنر مندی کا عکس نمایاں طور پرنظر آتا ہے۔ اس میں شاعری کے علاوہ تحقیق و تنقید سے جڑی تخلیقات، تبصرے، مراسلے اور بعض اوقات اداریہ کا بھی انضمام برتا جاتا ہے۔خصوصی گوشے بھی وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں۔’’قومی تنظیم‘‘ کے اس ادبی صفحہ کو منصور خوشتر نے اپنی لیاقت ،صلاحیت اور حسن و خوبی سے خوب سے خوب تر بنانے کی از حد کوشش کی ہے۔اس خصوصیت کی بنیاد پربھی ادبی حلقے میں اس اخبار کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس ادبی صفحہ کے سبب اخبار قارئین کے ایک وسیع حلقہ کی توجہ ا پنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب بھی ہوا ہے۔
منصور خوشتر کا اب تک ایک شعری مجموعہ’’کچھ محفلِ خوباں کی‘‘منظرِ عام پر آچکا ہے۔ یہ شعری مجموعہ ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا تھا۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے شعراء میں منصور خوشتر اپنے منفردلب و لہجہ، انوکھے شعری آہنگ، مخصوص رنگِ تغزل، وصفِ اعجاز بیانی، پاکیزہ شستہ کلامی اوراتصافِ شعری سے ایک اہم مقام حاصل کرچکے ہیں۔منصور خوشترکونئی نسل کے شعراء میں ایک مقبول شاعر قرار دیا گیا ہے۔انھوں نے زندگی کے کسی مخصوص فلسفۂ حیات کے دائرے میں قید ہوکر شاعری نہیں کی بلکہ زمان و مکان، حیات و کائنات،فلسفہ و اخلاق وغیرہ کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جن کے حدود کو انہوں نے نہ چھوا ہو۔ان کا شعری سفر لامحدود اور متنوع موضوعات اور دائرۂ کار کی وسعت کا حامل ہے۔ان کی شاعری ایک نئی فضا بندی،آب و رنگ،داشت اور فکرو شعور کی آگہی کا احساس دلاتی ہے۔انہیں شاعری میں عصری مسائل کو برتنے کا فن بجا آتا ہے۔منصور خوشتر حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ذہن پر مرتسم ہونے والے ہر اہم واقعے پر بڑے غوروفکر سے سوچنے کے بعداسے اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں۔
جہاں دنیا میں ایک انسان کے اختراعی ذہن کی بدولت بے شمار قسم کی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ وہیں دوسری طرف ایک انسان ہی ذہنی اور اخلاقی پسماندگی کا اس قدر شکار ہو گیا ہے کہ انسانیت بھی شرمندہ ہو کر کراہ اُ ٹھتی ہے۔دغا بازی، فریب کاری،ریاکاری،بدکاری،جارحیت پسندی جیسے بد صفات اعمال انسانی زندگی میں در آئے ہیں۔ جس سے قتل و غارت گری، فتنہ و فسادات،شورش زنی اور سرکشی کے خدشات لاحق ہوئے ہیں۔ایسے حالات کی زد میں آنے والے مصیبت کی ماروں کی آہ فغان خلاؤں کو بھی چیرتی ہے جبکہ باوجود اس کے یہ ماحول انسان کے اندر انسانیت جگانے میں ناکام ہے۔انسانی رشتوں کی بے قدری اور احساسات کی پامالی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ منصور خوشتر اس سب سے سخت بیزار ہیں،وہ انسانی فلاح کی سوچتے ہیں۔وہ رشتوں کے وجود اور درد و احساس کو سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ایسے احساسات اور جذبات رکھنے والوں کی اونچی قدروقیمت ہے۔اس ضمن میں کچھ اشعار پیشِ نظر ہے:
بہاروں پر تسلط ہے خزاں کا
بُرا دن آگیا ہے گلستان کا
یہاں تو بھائی کی جاں کا ہے دشمن بھائی خود ہی
بسائی تھی جو آدم نے یہ وہ دنیا نہیں ہے
سڑک پر چلنے والوں کو نہیں اتنی سی مہلت
تڑپتی لاش کو بھی دیکھ کر رکتا نہیں ہے
مسیحا جس سے ہو مجبور بھی چارہ گری پر
کچھ ایسا دل میں اپنے درد اب اٹھتا نہیں ہے
منصور خوشتر شر پسند عناصر سے بہت نالاں ہیں۔ انسان کی بے غیرتی، غفلت شعاری، پست ذہنیت ، گرتے اور بگڑتے اخلاقی معیار کا انہیں شدید افسوس ہے۔ ان کے مطابق یہی افعال انسان کو آسودہ حال زندگی گزانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اگر انسان اس کے برعکس کی زندگی کی ڈگر پر چلتا تو وہ یقینا ترقی کرتا اور کامیاب ہوتا۔منصور خوشتر اپنے مادرِ وطن سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ملک کی خاطر اپنی جان بھی نثار کرنے کو تیار ہیں۔مزیدکہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے وطن ہندوستان کوجنت کی نشانی کی علامت سے تعبیر کرتے ہیں تو ہمیں یہاں کی فضا میں بھی جنت جیسی خوشبو آنی چاہیے۔ہمیںاس قدر ماحول کو خوشگوار بنانا ہے۔چند شعر ملاحظہ فرمائیے:
زہے قسمت، وطن کو کام آئیں
کریں بھی پیش ہم نذرانہ جاں کا
اپنے بھارت دیش کو کہتے ہیں گر جنتِ نشاں
تو فضا موجود اس میں مثلِ جنت چاہیے
گیت گاتے رہو تم حُبِ وطن کے خوشترؔ
یہ گِلہ شکوہ بھرا لہجہ تمہارا کیا
مجھے خوشترؔ وطن اپنا ہے پیارا
زمین پر خُلد یہ ہندوستان ہے
وقت نے کروٹ بدلی ہے، لوگوں کا مزاج بدل گیا ہے،گفتار،رسم و رواج اور طور طریقے بدل گئے ہیں،زمانے کا چلن بدل گیا ہے،جہاں کبھی الفت،مروت، اخلاص مندی کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں ۔ اب وہیں بے مروتی اور بے وفائی کا شہرہ ہو گیا ہے۔کسی زمانے میںعورتوںکی حیا، شرم، ناز ونخرے اور عزت و آبرو کا بھرم رکھا کرتے تھے۔جبکہ آج کل تو حسیناؤں کا لشکر ہی بدل گیا ہے۔یہاں تو امیر شہر کا مزاج گرامی اور تیور تک بدلا ہوا سا نظر آتاہے۔شاعر ایسی چیزوں سے بے حد خفا ہیں۔ان کے مطابق ملک کا رہنما اور قائد ایسا ہو جو دوسروں (یہاں ’دوسروں‘ سے مراد رعایاہے) یعنی رعایا کی دکھ تکلیف کا خیال رکھے۔شاید انہیں کسی میں قائد میں ایسا سبھاؤ ،افعال و کردار اور چال و چلن نظر نہیں آتا ہے اسی لئے تو مجموعے کی آخری غزل کے ایک شعر میں کہتے ہیں:
داد کے لائق امیرِ شہر ہی کی ذات ہے
کیونکہ اب فُٹ پاتھ پر بھی بے اماں کوئی نہیں
منصور خوشتر نے اپنی شاعری میں ایسے بہت سارے پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔منصور خوشتر لکھتے ہیں کہ اگر کوئی ترقی کے منازل طے کرنے کا خواہاں ہو تو اس کے عزائم شوق کی تابندگی سے ہی پر وقار طریقے سے تکمیل پا سکتے ہیں۔پرانی تہذیب کی نئی تہذیب سے کوئی ٹکر نہیں۔ اس جدید ٹکنالوجی کے دور میں نئی نئی دریافتیں ہوئی ہیں۔جہاں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں وہیں برائیاں بھی اعلیٰ پیمانے پر جنم لے رہی ہیں۔ پرانے رسوم و رواج، تہذیب و تمدن، کلچر، عقائدوغیرہ کو فرسودہ قرار دیا جارہا ہے جن میں انسانی تہذیب اور بقاکا تحفظ ممکن تھا۔منصور خوشتر کو نئی نئی مصنوعی ایجادات سے بھلا کیا گِلہ ہو سکتا ہے اسی میں تو ترقی کے راز مضمر ہے۔لیکن انسان نے ان ایجادات کی آڑ میں جو گھناؤنے کام کیے ہیں۔اُن کو بھی توکبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔اچھا ہوتا اگر ہم پرانے اور نئے زمانے کی اعلیٰ اقدار کو اپنے ساتھ لے کر چلتے۔اس سلسلے میں منصور خوشتر کے چند اشعار ذہن نشین کیجیے:
مہربانی ہے نئی تہذیب کی کر گئی کتنا ہمیں ننگی، ہوا
فیس بک اور ہے ٹیوٹر کا زمانہ آیا کتنے اقدار جو اعلیٰ تھے وہ ہم سے گذرے
منصور خوشتر کی بہت ساری غزلوں میں غم کے اشعارکا ہونا اس بات کوسمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انہیں بھی کسی نہ کسی رنگ میں غم ، مایوسی، محرومی ،نااُمیدی،ناکامی سے واسطہ پڑا ہے۔وہ رنج و غم اپنوں نے دیے ہوں یا غیروں نے یا قدرت کی ودیعت ہو۔ لیکن غم کے ساتھ انہیں نبھانا بھی خوب آیا۔غم کو اپنے غمگسارسے بانٹتے ہیں،غم کو پیتے ہیں اور اسے لفظوں کے پیکر میں اشعار کی شکل دیتے ہیں۔اپنے غم کو لفظوں کا پیرہن عطا کرکے غم سے ان کا ناطہ نہیں ٹوٹتا۔ بلکہ مسلسل اس کی پرورش میں ہیں کیونکہ یہ وہ غم ہے جو مختلف شکلوں میں اسے حاصل ہوتا رہتا ہے۔ذرادیکھئے ! شاعر کیسے اپنے آپ کو غم سے تسلی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے کسی چیز کے جانے یا نہ پانے کا غم نہیں ہے بلکہ مجھے اطمینانیت حاصل ہے کہ میں نے کچھ گنوایا بھی تونہیں۔انھوں نے غم کو ضائع بھی نہیں ہونے دیا بلکہ تنہائی میں اسے شاد بھی ہوتے رہے۔اب انھوں نے غم کے ساتھ بہت گہرے تعلقات استوار کیے ہیں اور اس کے بغیرانہیں زندگی بارِ گراں معلوم ہوتی ہے۔غرض کہ غمِ دوراں اور غمِ جاناں کے ساتھ ان کا ربط گہرا ہے۔کچھ شعر قارئین حضرات کے ذوقِ نظر ہیں:
آپ کے غم کو نہیں ہونے دیا برباد بھی
ان سے ہی تنہائی میں ہوتا رہا میںشاد بھی
ہر خوشی تیرے لئے قربان میں کرتا رہا
اے غم ہستی تجھے میں نے بھلایا بھی نہیں
بہت بار گراں یہ زندگی معلوم ہوتی ہے
کہ غم کا پیش خیمہ ہر خوشی معلوم ہوتی ہے
منصور خوشتر کا بھی دیگر شعر اء کی طرح اپنا محبوب ہے۔جس سے ان کی آشنائی ہے، راہ و رسم ہے،پیار و محبت ہے، قربت ہے،ہمدردی ہے،روٹھنا منانا ہے،شوخی ہے،شرارت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بے رخی بھی ہے اورانکساری بھی۔فرقت بھی ہے اور پیار کی یادوں کو مٹانے کی کوشش بھی۔ ہجرو و صال کا سلسلہ بھی ہے اور درد و غم سہنے کا کلیجہ بھی۔ناز نخرے بھی ہیں اوراداؤں پر فریب ہونے کی چاہت بھی۔ ایک طرف ملنے اور بچھڑنے کا سلسلہ ہے تو وہیں قربانی دینے کا سلیقہ بھی۔ایک طرف محبوب سے ناراضگی بھی ہے تو دوسری طرف اُس کی عزت جان سے بھی پیاری۔ان کے پاس محبوب سے گذارے ہوئے دنوں کی خوبصورت یادیں تو ہیں لیکن جدائی سے اس کی بے حالی دیکھ اس کا محبوب بھی یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے بقولِ شاعر’’ہائے تو نے یہ بنا رکھی ہے کیسی صورت‘‘۔مذکورہ بالا سطور میں پیش کیے خیالات کو درج ذیل اشعار سے تقویت حاصل ہوتی ہے:
وفا کے شہر کا ہے منظر بدلا
مزاجِ یار بھی یکسر ہے بدلا
دن محبت کے کسی صورت گزرتے ہی رہے
کچھ اسے بھی شکایت تھی، میرا شکوہ اور تھا
یاد آتے ہیں بیتے دن
میٹھی راتیں میٹھے دن
ترے جورو جفا کا ہم کبھی شکوہ نہیں کرتے
محبت جس سے کرتے ہیں ، اسے رسوا نہیں کرتے
منصور خوشتر کے یہاں نرم لہجے کی شاعری بھی ملتی ہے اور طنزیہ لہجہ بھی کہیں کہیں دیکھنے کو ملتا ہے۔شاعری میں چھوٹے بڑے دونوں قسم کے مصرعوں کا طریقہ برتا ہے۔سیدھے ساھے اور شیریں زبان میں اپنے احوال بیان کیے ہیں۔مختلف قسم کے موضوعات پر اشعار رقم کیے ہیں۔عہد حاضر کے مسائل اور افکا رو خیالات کو اپنی شاعری کا محور بنایا ہے۔جس چیز سے زندگی میں سابقہ پڑا اور جس چیز کا مشاہدہ کیا اس پر خامہ فرسائی کرنے میں بخیلی نہیں دکھائی۔ان کے پاس لفظوں کی بھی کمی نہیں ہے اور نہ ان کی شاعری سطحی نہیں ہے بلکہ اس میںقاری کے جذبات کو اثرانداز کرنے اور اسے اپنی گرفت میں لینے کا پورا دم خم موجود ہے۔منصور خوشترایسا کچھ نہیں لکھتے جس سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو۔وہ نوجوان نسل کے ایک حساس شاعر ہیں اور سماج یا معاشرے میںرونما ہونے والے ہر اہم واقعے کا جلد اثر قبول کرتے ہیں۔منصور خوشتر بلند حوصلے کے ساتھ اپنے شعری سفر کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔زندگی کے اس سفر میں وہ اللہ تبارک تعالیٰ سے بھی دست بہ دعا گو ہیں۔منصور خوشترظلم و جبر کے خلاف کی صف میں کھڑے ہیں ۔جواں نسل کے اس معتبر شاعر نے صرف عشقیہ شاعری پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف منفرد لہجہ کے ساتھ شاعری کی بلکہ ایک نئی سوچ اور ایک نئی فکر کا بیج بویا ہے۔ان میں ارادہ ہے، حوصلہ ہے، کچھ کر گزرنے کی چاہت ہے، ذوق و شوق ہے، جنون اور ولولہ ہے، ایمانداری اور خلوص ہے، کم گو اور بے باک کے علاوہ نڈر بھی ہیں۔منصور خوشتر جمود کا نام نہیں ہے بلکہ موصوف ایک بڑی اُڑان کے متمنی ہیں۔اس میں کیا شبہ ہے کہ جن کے حوصلے بلند اورعزائم نیک ہوںنیزمحنت و جستجو کا مادّہ رکھتے ہوں، ایک دن کامیابی سے سرشار ہوتے ہیں۔ منصور خوشتر کے اس شعر سے مضمون کا اختتام کرنا چاہتا ہوں:
کام محبت سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہیں
جن کو پورا کر کے ہم دکھلائیں گے
٭٭٭