ادب کی اہمیت اور قلمکار
کتاب کا نام اوراق کا اشاریہ (آغاز سے اختتام تک) ڈاکٹر محمود احمد اسیر کی جانکاری اور ادبی کاوشوں کی عکاس ہے، انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی خدمات جوکہ ’’اوراق‘‘ کی شکل میں نمایاں ہے اس کے تمام شماروں کا جائزہ باریک بینی سے لیا ہے، یہ ایک تحقیقی کام ہے اور تحقیق کی راہیں بڑی سنگلاخ ہوتی ہیں، ایسے راستوں پر چلنا آسان نہیں ہوتا، لیکن ڈاکٹر وزیر آغا کی محبت اور عقیدت کے تحت ڈاکٹر محمود اسیر نے تحقیق کے بھاری پتھرکو نہ کہ اٹھایا ہے، بلکہ اسے آنکھوں سے لگاکر چوما ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا اپنی شاعری، تنقید، تحقیق کے حوالے سے دنیائے ادب کی اہم اور بڑی شخصیت تھے۔ (رب مغفرت فرمائے) مصنف کی کتب ’’سخنوران سرگودھا 1983‘‘ مولانا صلاح الدین احمد، احوال و آثار 2009 اوراق کی ادبی خدمات 2013 میں شایع ہوئیں اور مذکورہ کتاب 2017 میں یہ 254 صفحات پر مشتمل ہے، ڈاکٹر محمود احمد اسیر شاعر بھی ہیں، بقول ڈاکٹر انور سدید کے ’’محمود احمد اسیر کی شاعری حال کا وہ لمحہ ہے جو کبھی ماضی میں سانس لے رہا ہوتا ہے اور کبھی مستقبل میں ستاروں کی طرح جگمگاتا ہوا معلوم ہوتا ہے‘‘۔
’’اوراق‘‘ اور اوراق کے اشاعتی سفر کو ڈاکٹر صاحب نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، پہلا دور جنوری 1966 سے جون جولائی 1970 اور دوسرا دور مارچ اپریل 1972 سے نومبر دسمبر 2005 تک کے عرصے پر محیط ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اوراق میں شایع ہونیوالے مضامین، افسانے، اوراق کی یادیں، ان سب تحریروں اور تخلیق کاروں اور ادبی شخصیات کے حوالے سے انھیں مختلف ابواب میں تقسیم کردیا ہے، اس طرح کتاب کے ادبی فن پارے گنجلک ہونے کی بجائے آسان، مختصر ہونے کے ساتھ قاری کے لیے مطالعہ کی فضا اور ہموار ہوگئی ہے۔
مقالات و مضامین کے عنوان سے جو باب شامل کتاب ہے، یہ شمارہ نمبر ایک ہے۔ اس میں مولانا محمد حسین آزاد، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر سہیل بخاری، نظیر صدیقی، اسی طرح شمارہ 2،3 میں ڈاکٹر سید عبداﷲ، رام لعل، شہزاد منظر، سلیم اختر، شمارہ 4 میں شمس الرحمن فاروقی، سی قدرت نقوی جیسے ادیب اور دانشور نمایاں ہیں۔ اگست 1999 کے شمارے میں اردو افسانے میں عصریت، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کی تحریر ہے۔
’’اردو ماہیئے کا بانی‘‘ حیدر قریشی، نوبیل لاریٹ نجیب محفوظ، جاپانی ہائیکو نگار بوسن رفیق سندیلوی اور ان جیسے بہت سے بڑے قلمکاروں کی تحریروں سے آراستہ ہے۔ 2000 اور 2002 سے 2005 تک اشاعت کے مرحلے سے گزرنے والے اوراق کے شماروں میں ادب کی مختلف جہتوں پر جن صاحبان علم نے قلم کا حق ادا کیا ہے ان میں سے چند نام ’’اقبال اور مولانا رومی‘‘ پر مضمون ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا ہے، میر کا تنقیدی شعور ڈاکٹر حامد کاشمیری نے اوراق اور علامتی افسانہ ڈاکٹر رشید امجد نے لکھا ہے۔
مصنف نے اس بات کی بھی وضاحت کردی ہے کہ اوراق نے دو افسانہ نمبر، ایک انشائیہ نمبر، ایک افسانہ و انشائیہ، ایک جدید نظم اور ایک بہار نمبر بھی شایع کیا ہے اس کے علاوہ زندہ شخصیات پر خصوصی گوشے شایع کرنے کے ساتھ ساتھ اوراق نے ’’یاد رفتگاں اور ان کی یاد میں‘‘ کے عنوانات سے مستقل کالم لکھ کر علم و ادب کی بڑی خدمت سر انجام دی ہے۔ ہائیکو کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ در حقیقت ’’اوراق‘‘ ہی کی مرہون منت ہے۔
’’اوراق اور دیگر اضافِ ادب‘‘ اس باب میں گیت دو ہے، رباعیات، قطعات، حمد و نعت وغیرہ شامل ہے۔ ’’اوراق اور جدید علامتی افسانہ‘‘ اوراق اور جدید نظم اور ڈاکٹر وزیر آغا پر اب تک ہونے والے تحقیقی کام کی تفصیل اور تصویری البم بھی اوراق کے اشارئیہ کو اہمیت بخشتا ہے۔ اس بار عکاس انٹرنیشنل (اسلام آباد) نے عبداﷲ جاوید نمبر نکال کر بڑا کام کیا ہے۔ عبداﷲ جاوید کی شاہکار تحریریں 480 صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں، مضامین، شاعری، تنقید، افسانے، اقتباسات نے بے حد نفاست کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر جگہ بنالی ہے۔
جو قارئین کے لیے عبداﷲ جاوید کی علمیت اور تخلیقیت کے در واکرتی ہے۔ اپنے مضمون ’’اپنی بات‘‘ میں مدیر ارشد خالد نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’عکاس‘‘ کا عبداﷲ جاوید نمبر ان کی 75 سالہ علمی و ادبی خدمات کا اعتراف اور خراجِ تحسین ہے، اردو ادب پر ان کی تنقیدی نگاہ جتنی گہری ہے اتنی ہی وسیع بھی ہے۔ عبداﷲ جاوید نے ’’میں اور مولوی عبدالحق‘‘ پر ایک طویل مضمون لکھا ہے، جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔
مصنف نے مولوی صاحب کے بارے میں لکھا ہے ’’مولوی عبدالحق نے اپنی پوری زندگی زبان کو دی اور اردو زبان کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف رکھا اردو سے محبت اور اس کی اشاعت و ترویج کا ان پر جنون سوار تھا اسی وجہ سے انھوں نے شادی نہیں کی اور رخصتی سے قبل دلہن کو طلاق دے دی اور وجہ یہ بتائی کہ انھوں نے اردو زبان سے شادی کرلی تھی‘‘۔ عبداﷲ جاوید کو پاکستان آنے کے بعد کراچی میں مولوی صاحب سے ہونے والی پہلی ملاقات اور پھر بہت سی ملاقاتوں کے ساتھ لکھنے پڑھنے کے مواقع بھی میسر آئے جو یقیناً اعزاز کی بات تھی۔
مضمون ’’غالب شناسی کی روایت‘‘ میں عبداﷲ جاوید اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کرتے ہیں ’’غالب شناسی کے ضمن میں تنقید کے مدوجزر سے قطع نظر کرکے جب ہم تحقیق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلے میں خاصی بے توجہی سے کام لیا گیا ہے، ہم غالب کی زندگی کے بارے میں بظاہر بہت کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہ جان سکے‘‘۔
عبداﷲ جاوید نے غالب کی شخصی زندگی کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی چند نقادوں کے حوالے سے کی ہے لیکن ان کی تحریر کی خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے معاشرتی حالات اور بدلتے ہوئے زمانے کو بھی مد نظر رکھا ہے کہ جس کے تحت مزاجوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ انھوں نے غالب کی عظمت اور انفرادیت کے حوالے سے لکھا ہے کہ غالب نے غزل کو ایک نئی توانائی بلکہ حیات نو نئی وسعت کے ذریعے بخشی ہے۔
عبداﷲ جاوید نے اپنے مضمون میں مختصر افسانے کی عصری صورتحال کو بے حد وضاحت اور دلائل کے ساتھ قلمبند کیا ہے جو آج کے حالات کے تناظر میں دل کو چھوتا ہے۔ انھوں نے مغربی افسانہ نگاروں کا حوالہ بھی دیا ہے اور اس بات کو بھی غلط قرار دیا کہ ’’اردو اور ہندی فسانہ جمود کا شکار ہے محض رسمی فقرہ ہے‘‘۔ میں عبداﷲ جاوید کے اس حقیقت آمیز جملے سے سو فی صد اتفاق کرتی ہوں، وہ درست فرمارہے ہیں کہ عصر حاضر میں مختصر افسانہ نہ تو بیمار پڑ گیا ہے اور نہ ہی جمود کا شکار ہے، ماشا اﷲ چنگا بھلا، تازہ و توانا ہے، خوب ہاتھ پیر چلارہاہے، ہر جہت میں سفر کررہا ہے۔
’’کلیاتِ نثر منیر نیازی‘‘ عنوان ہے ڈاکٹر سمیرا اعجاز کی کتاب کا، یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو ضخامت کے اعتبار سے 576 صفحات کا احاطہ کرتا ہے، انھوں نے بے حد جانفشانی کے ساتھ ملک کے اہم ترین شاعر اور نثر نگار منیر نیازی کے کالم جو مختلف اخبارات میں شایع ہوئے اور جن کی تعداد 110 ہے اسی طرح فلمی کالم اور اداریہ ایک ناول کے گمشدہ اوراق، افسانہ دریں سرائے کہن، یہ افسانہ ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ لاہور جولائی 1950 میں شایع ہوا تھا، ان تمام شاہکار تحریروں کو یکجا کرکے کتابی شکل دی، انھوں نے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ منیر نیازی کے کالموں کی ادبی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کیونکہ یہ محض کالم نہیں بلکہ اس عہد کا علمی و ادبی منظر نامہ پیش کرنے کے ساتھ پنے عہد کے اجتماعی مافی الضمیر کے عکاس ہیں۔
کتاب کا مقدمہ 36 صفحات پر مشتمل ہے لیکن یہ پتا نہیں یہ تحریر کس نے لکھی ہے۔ مصنف نے منیر نیازی کے کالموں، افسانہ، اور ناول پر بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے اور تمام کرداروں کا تعارف کرایا ہے، انھوں نے مضمون کی اختتامی سطور میں منیر نیازی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خالص ادیب تھے جن کی نہ صرف شاعری بولتی ہے بلکہ ان کی نثر میں معنویت اور توانائی موجود ہے۔
یہ تحریراس لِنک سے لی گئی ہے۔
“