اردو ادبیات کے انتقادی مطالعوں " ادبی عمرانیاتی انتقادات" پر کچھ زیادہ نہیں لکھا گیا۔ جو کچھ بھی لکھا گیا وہ ایک "کچے زہن" کی " بٹر " ہے۔ ادب اور عمرانیات کے مابین میں گہرا تعلق ہے کیونکہ فرد اور معاشرہ ان دونوں ہی کا موضوع ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ عمرانیات ایک سائنسی طریق کار ہے مگر ادب ایک فنی نظام ہے۔ جو فرد کے نفسی مطالعہ، معاشرت کے مشاہدہ، زبان کے جمالیاتی اظہار، تخیل کی رنگ آمیزی اور استعاراتی اسلوب سے مرتب ہوتا ہے۔ عمرانیات کا مطالعہ انسان کی معاشرتی بصیرت میں اضافہ کرتا ہے اور ادب اس بصیرت کے علاوہ جمالیاتی ذوق کی تسکین کرتے ہوئے، مسرت اور روحانی طمانیت بھی عطا کرتاہے۔ترقی پسندوں نے اس پر لکھنے کی کوشش کی مگر ان کی سکہ بند آئیڈیالوجی کی تحدیدات نے " عمرانیاتی ادبی تنقیدی نظرئیے پر وہ کھل کر نہیں لکھ سکے۔کیونکہ " عمرانیات" کھلے زہن کا علم ہے۔ جس کی بنایاد سائنسیی جوعیت کی ہوتی ہے اور اس سے ہی اس کی جمالیات خلق ہوتی ہے۔ اس میں " ہوا" میں باتیں نہیں ہوتی۔ اس میں عقل اور منطقی کی نتائجت کی فکری روشنی میں موکوز متنی مطالعہ کرتی ہے۔ جس میں داستان گوئی نہیں ہوتی اور نہ ہی قصہ خوانی ہوتی ہے ۔ جدیدیت عمرانیاتی ادبی نظرئیے سے اس لیے دور سے بھاگتی ہے کی اس میں انھیں یساریت پسندی یا کمیونزم کی " بو" آتی ہے۔ مابعد جدید یت اس کے قریب آتے آتے اس لیے اس سے اس لیے دور بھاگ گئی کیونکہ وہ کلی معاشرے اور ثقافت کی کبیریت سے انکار کرتی ہے اور اس میں معاشروں کی کیا سیاسی نوعیت کی" بازر کاری" کی سامراجیت چھپی ہوئی ہے۔ عمرانیاتی ادب اور نقد کی شروعات فرانسیسی ادیب، تاریخ دان اور ماہر عمرانایت " طین{ 1828- 1893 } سے ہوئی۔ انھوں نے پہلی بار تہزیب اور تاریخ کی پس منطر میں تنقید کی شروعات کی ۔ اور ادبی تنقید کے تاریخی مکتبہ فکر کے حوالے سے وہ ادبی عمرانیات کے بنیاد گذار قرار پائے۔ مادام دی اسٹیل {1766۔ 1817} ، ہرڈر {1744۔ 1803 }، گولڈ مین اور لوکاش نے عمرانیاتی اور ساختیاتی حوالے سے مفید نظریات کا اضافہ کیا ہے۔ اردو میں ادبی عمرانیات پر محمد حسن کی دو کتابیں ہیں۔ ان کی ایک نصابی کتابیں۔۔" ادبی سماجیات"{1983، دہلی} ، " اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ" {1998، دہلی}اور محمد ضیا الرحمن کی کتاب " " مثنوی سحرالبیان کی سماجیات" { 1986، دہلی}نے عمرانیاتی ادبیات پر یہ بنیادی کتابیں لکھی۔ ان کتابوں کو اردو میں زیادہ قبولیت نہیں ملی اور اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرتا۔
ایک فرد ، ایک متن کا قریبی جائزہ گہرے معنی اور بصیرت کے ساتھ تلاش ایک ادبی نقاد کا علمی، تنقیدی، فکری وظیفہ کہا جاتا ہے جو مختلف معاشرتی زاوایوں اور رسائیوں سے عمرانیاتی ادبی متن کو جانچتا ہے جس سے کئِ مکتبہ ہائے فکر نمودار ہوتے ہیں۔جس میں میکرو ازم اور مائیکرو ازم کی فکری تکرار ہوتی ہے۔ ۔ ایکس جے ایف کینیڈی اور دانا گیوٹا {Gioia} کا کہنا ہے کہ ادب کے متلق کتاب : "فکشن، شاعری اور ڈرامے کا ایک تعارف،" میں لکھتے ہیں۔ انھوں نے معاشرتی نقطہ نظر کی تشریح کرتے ہوئے ایک نقاد " کا تجزیہ کیا ہے اس جائزے میں ادب کے حوالے سے لکھا ہے کہ تحریر شدہ متن میں حاصل کی گئے ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی تناظر میں اس کا کیا مطلب ہے؟ چلو یہ نیچے توڑ ہے ۔"۔
نقاد معاشرے – یا سیاق – جس متن میں وہ لکھا گیا جو پڑھا یا سنایا جاتا ہے۔ وہ عمرانایتی تناظر میں ہی ہوتا ہے۔ جسیے ہم محسوس کرسکتے ہیں۔ نقاد کا سوال ہو سکتا ہے کہ "کیا جس معاشرے میں مصنف رہے رہا ہے کیا قاری کو اس کے کام کا ادراک ہوتا ہے اور اس کی تشریح کرسکتا ہے؟ اور یہ سوال بھی کرسکتا ہے کہ کیا یہ " نقاد ہے؟ اور اس کا تنقیدی متن کے معاشرے میں کیا معنی اور مطالب کیا ہیں؟؟ نقاد معاشرے کے پہلو کی جانچ پڑتال بھی کرسکتا ہے؟ طریقہ کار کا کیا معیار ہے ؟ اس کے معاشرتی روئیے ، آداب، (مثلا، والدین اور بچوں، امیر اور غریب، مرد اور خواتین، مذہبی عقائد، ٹیبوز اور اخلاقی اقدار ۔) گروہوں کی مخالفت کے درمیان تعلقات سمیت معاشرے کی ثقافت پر نظر ڈال سکتا ہے نقاد بھی معیشت اور معاشرے، بشمول اس نظام حکومت، افراد، مال کس طرح تقسیم ہوتا ہے، اور کس کی طاقت بھی ہوتی ہے اور انسانی حقوق کی سیاست پر نظر انداز بھی ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی بتاتا ہے کہ حکومت اور اس کا انصرام کیا ہے؟ حکمران کے حقوق، اور ان کا انتخاب اور معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم اس کی بحثوں میں شامل ہوتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ معاشرے کی ماہیت کی دریافت کے بعد عمرانیاتی مخاطبہ ادبی عمرانیات کا تنقیدی نظریہ خلق کرتا ہے۔ یہ اصل میں اجتماعی شعور کی دریافت ہوتی ہے۔ جس میں عموما قاری آسانی سے قبول نہیں کرپاتا کیونکہ وہ معارتی تبدیلی کی ماہیت کو دیکں اور سمجھ نہیں پارہا ہوتا۔ حالا نکہ معاشرہ خاموشی سے اپنی حرکیات اور ہیّیت بدل چکی ہوتی ہے یا تبدیل ہورہی ہوتی ہے۔ ؟ کیا خیالات تبدیل ہو چکے ہیں یوں عمرانیات کا ادبی تنقیدی نظریہ اپنے قارئیں کو یہ بات بتاتی ہے کہ فکری تنقیدی متن حروف، الفاظ، معنیات، رموزیات کس پہلو اس معاشرے کے سب سے زیادہ قارئین کو قابل ستائش ہو جائے گا؟ کیا تبدیلی آئی ہے؟ کیوں ہمارے معاشرے کی یہ متن کی قدرکیا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ مصنف توثیق کرکے اپنے معاشرے کو کی تنقید کو دریافت کرتا ہے۔ مصنف اور قاری مسائل اور فکری اجتہاد اور اہلیت پر غور کرنے لگتے ہیں کہ کیا اقدار، فضائل، کردار کی خصوصیات اور اعمال پر نظر دوڑاتا ہے۔ اور اپنے پیمانوں اور فطانت سے تنقید کا نیا آفاق بناتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد سہیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عمرانیاتی ادب اور نقد کی شروعات فرانسیسی ادیب، تاریخ دان اور ماہر عمرانایت " طین{ 1828- 1893 } سے ہوئی۔ انھوں نے پہلی بار تہزیب اور تاریخ کی پس منطر میں تنقید کی شروعات کی ۔ اور ادبی تنقید کے تاریخی مکتبہ فکر کے حوالے سے وہ ادبی عمرانیات کے بنیاد گذار قرار پائے۔ مادام دی اسٹیل {1766۔ 1817} ، ہرڈر {1744۔ 1803 }، گولڈ مین اور لوکاش نے عمرانیاتی اور ساختیاتی حوالے سے مفید نظریات کا اضافہ کیا ہے۔ اردو میں ادبی عمرانیات پر محمد حسن کی دو کتابیں ہیں۔ ان کی ایک نصابی کتابیں۔۔" ادبی سماجیات"{1983، دہلی} ، " اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ" {1998، دہلی}اور محمد ضیا الرحمن کی کتاب " " مثنوی سحرالبیان کی سماجیات" { 1986، دہلی}نے عمرانیاتی ادبیات پر یہ بنیادی کتابیں لکھی۔ ان کتابوں کو اردو میں زیادہ قبولیت نہیں ملی اور اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرتا۔
ایک فرد ، ایک متن کا قریبی جائزہ گہرے معنی اور بصیرت کے ساتھ تلاش ایک ادبی نقاد کا علمی، تنقیدی، فکری وظیفہ کہا جاتا ہے جو مختلف معاشرتی زاوایوں اور رسائیوں سے عمرانیاتی ادبی متن کو جانچتا ہے جس سے کئِ مکتبہ ہائے فکر نمودار ہوتے ہیں۔جس میں میکرو ازم اور مائیکرو ازم کی فکری تکرار ہوتی ہے۔ ۔ ایکس جے ایف کینیڈی اور دانا گیوٹا {Gioia} کا کہنا ہے کہ ادب کے متلق کتاب : "فکشن، شاعری اور ڈرامے کا ایک تعارف،" میں لکھتے ہیں۔ انھوں نے معاشرتی نقطہ نظر کی تشریح کرتے ہوئے ایک نقاد " کا تجزیہ کیا ہے اس جائزے میں ادب کے حوالے سے لکھا ہے کہ تحریر شدہ متن میں حاصل کی گئے ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی تناظر میں اس کا کیا مطلب ہے؟ چلو یہ نیچے توڑ ہے ۔"۔
نقاد معاشرے – یا سیاق – جس متن میں وہ لکھا گیا جو پڑھا یا سنایا جاتا ہے۔ وہ عمرانایتی تناظر میں ہی ہوتا ہے۔ جسیے ہم محسوس کرسکتے ہیں۔ نقاد کا سوال ہو سکتا ہے کہ "کیا جس معاشرے میں مصنف رہے رہا ہے کیا قاری کو اس کے کام کا ادراک ہوتا ہے اور اس کی تشریح کرسکتا ہے؟ اور یہ سوال بھی کرسکتا ہے کہ کیا یہ " نقاد ہے؟ اور اس کا تنقیدی متن کے معاشرے میں کیا معنی اور مطالب کیا ہیں؟؟ نقاد معاشرے کے پہلو کی جانچ پڑتال بھی کرسکتا ہے؟ طریقہ کار کا کیا معیار ہے ؟ اس کے معاشرتی روئیے ، آداب، (مثلا، والدین اور بچوں، امیر اور غریب، مرد اور خواتین، مذہبی عقائد، ٹیبوز اور اخلاقی اقدار ۔) گروہوں کی مخالفت کے درمیان تعلقات سمیت معاشرے کی ثقافت پر نظر ڈال سکتا ہے نقاد بھی معیشت اور معاشرے، بشمول اس نظام حکومت، افراد، مال کس طرح تقسیم ہوتا ہے، اور کس کی طاقت بھی ہوتی ہے اور انسانی حقوق کی سیاست پر نظر انداز بھی ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی بتاتا ہے کہ حکومت اور اس کا انصرام کیا ہے؟ حکمران کے حقوق، اور ان کا انتخاب اور معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم اس کی بحثوں میں شامل ہوتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ معاشرے کی ماہیت کی دریافت کے بعد عمرانیاتی مخاطبہ ادبی عمرانیات کا تنقیدی نظریہ خلق کرتا ہے۔ یہ اصل میں اجتماعی شعور کی دریافت ہوتی ہے۔ جس میں عموما قاری آسانی سے قبول نہیں کرپاتا کیونکہ وہ معارتی تبدیلی کی ماہیت کو دیکں اور سمجھ نہیں پارہا ہوتا۔ حالا نکہ معاشرہ خاموشی سے اپنی حرکیات اور ہیّیت بدل چکی ہوتی ہے یا تبدیل ہورہی ہوتی ہے۔ ؟ کیا خیالات تبدیل ہو چکے ہیں یوں عمرانیات کا ادبی تنقیدی نظریہ اپنے قارئیں کو یہ بات بتاتی ہے کہ فکری تنقیدی متن حروف، الفاظ، معنیات، رموزیات کس پہلو اس معاشرے کے سب سے زیادہ قارئین کو قابل ستائش ہو جائے گا؟ کیا تبدیلی آئی ہے؟ کیوں ہمارے معاشرے کی یہ متن کی قدرکیا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ مصنف توثیق کرکے اپنے معاشرے کو کی تنقید کو دریافت کرتا ہے۔ مصنف اور قاری مسائل اور فکری اجتہاد اور اہلیت پر غور کرنے لگتے ہیں کہ کیا اقدار، فضائل، کردار کی خصوصیات اور اعمال پر نظر دوڑاتا ہے۔ اور اپنے پیمانوں اور فطانت سے تنقید کا نیا آفاق بناتے ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...