………… ادب کے زنانہ ڈبے ؟؟
شاعری ہو یا کوی اور ادبی صنف ….زنانہ اور مردانہ ڈبوں میں تقسیم کرنا زیادتی ہے ……نہ انسان دیوتا ہے نہ عورت دیوی ..خامیوں نے انسان کو آدمی بنایا ہے ورنہ وہ فرشتہ ہوتا ………جدیدیت کے بازیگروں نے …..تانیثی ادب کاراگ الاپا ہے تومجھ جیسے ٹیل پہ بنجر چک جیسے طالب علم کو زاتی ترقی پسندوں کی بات پھیکا گنا لگتی ہے ……….اس قصے یا قضیے کے درد زہ میں پٹرے بغیر ان سے بھی ملیے جو قرض ھنر اتار رہی ہیں …….. ….
ریت کے بت ……دردانہ نوشین خان
پہلا زینہ ..اندر جال …ریت میں ناو…..ریگ ماھی ..اور پھولوں کی رفو گری ….یہ دردانہ نوشین خان ….کی پہلے سے شایع شدہ کتابیں جو سچی بات ہے کہ میرے دستر خوان ادب پر حرف ریزی سے گریز پا ہیں ……ریت کے بت چار ناولٹ کا مجموعہ زیست ہیں ….چشم غم آشنا …حاصل ضرب ..دیوار پہ دستک ..مبرم ……ریت پہ لکھے نام یا نقش ناتمام نہیں بلکہ ریت سے سونا نکالتی تحریریں ہیں …..چناب ھماری روایات میں عشق کا نمایندہ ہے …مولتان اور مظفر گٹرھ کے بیچ اسی دریا نے حد فاصل بنای ہوی ہے …..دردانہ نوشین خان نے دل کو دریا بنایا اور فکر کو سمندر کی پاتال سے لفظوں کے موتی نکالنے کی شناوری کی اور خوب کی ……
تین جنوری کی بات ہے جب دردانہ نے ایک نسخہ زریاب ….خانیوال کے ایک کھردرے قلکار جاوید اقبال سہو کے سپرد کیا اور 12 جنوری کی ڈاک سے میرے انگن میں زر بخت بنا …….یہ حرف ریت نہیں جو ھلکی سی ھوا سے الٹ پلٹ جایں بلکہ صحرا میں ھولے سے چلنے والی باد نسیم کی طرح خنک ہیں جو دل کو دلدار کر دیتی ہے ….مصنفہ سے زاتی شناسای اور ربط و ضبط نہیں مگر …..علی میاں پبلیکیشنز لاھور سے دسمبر 2017 ء میں چھپی اور 350 روپے میں 248 صفحات ….سچے موتیوں کی طرح گراں قدر ہیں …..ایک نظر انتساب پہ ………داد بے ساختہ مطالعہ کی راغب کر دیتی ہے ……..
اس کتاب کا انتساب ….اللہ تعالی کے شکر ….کے نام ہے .یہ انتساب میری حیات اور بعد از حیات جاریہ تسبیح ہے …کیونکہ
شکر ادا کرنے شکر کرنا کمال شکر ہے (ابو عثمان رح)
موجود پر شکر ادا کرنے والا شاکر ہے .. مفقود پر شکر ادا کرنے والا مشکور ہے .
شاکر عطا پر , مشکور عدم عطا پر شکر کرتا ہے ( جنید بغدادی رح )
عام لوگوں کا شکر ….کھانے , مشروب اور لباس پر ھوتا ہے …………خاص لوگوں کا شکر واردات قلبی کے ارتقاء پر ہوتا ہے …..ابدال بیلا اور بشری رحمن ….نے بھی عالی نسب آرا ء لکھی ہیں مگر اس فقیر نے دوسروں کے نوالے چباے نہیں …اپنی بات کہی ہے …..
………………….شبنم شکیل کی تخلیقی اور فکری کا ینات ………..حنا جمشید
پروفیسر ودود طارق نوید …صدر شعبہ اردو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ساہیوال کے بھاری بھر کم نام اور مقام رکھتے ہیں اور مجھے بہت عزیز ہیں …….حنا جمشید ان کی جونیر کولیگ ہیں …. ودود کی راجپوتیت کی خود داری سوال کی دریوزہ گری کی خوگر نہیں ……….ایک خاتون مصنف کا مطالعہ تانیثیت کی تھیوری کی عام روش پر نہ چلنے سے گریز کی وجہ سے میرے لیے توجہ طلب تھی ……………..مولتان کے ادبی منظر نامے میں اپنی منفرد شناختی کارڈ کو دیدہ ور بناتا ایک کرم گستر …..الیاس کبیر ……میری پرنسپلی کا زمانہ لد جانے کے باوجود دام الفت سے رھای نہیں پا سکا ……….21 اپریل 2016ء کو ڈھیر ساری کار آمد کتابوں سے سوھن حلوے کی طرح منہ میٹھا کیا ….گاھے گاھے یہ علمی سوغات مجھے خورسند کرتا رہتا ہے اور میری پیاس کو مشکیزہ بنا دیتا ہے ………دعاے فقیراں اس کی جھولی میں ڈال دیتا ہوں ……..ابھی تک بہت سارے پھول اظہار تشکر کے متمنی ہیں ….
400روپے قیمت میں بیکن بکس ملتان اور شعبہ اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ,ملتان نے مقالہ نگار کے پلے سے 208 صفحات میں رنگین صفحات اور شبنم شکیل کی کتابوں …..شب زاد ….مسافت رایگاں تھی ….اضطراب …نہ قفس نہ آشیانہ ….تقریب کچھ تو ….اواز تو دیکھو کے سرورق سے ٹایٹل ……..ایم فل کے روایتی کام کے بعد …….. اب کہیں جاکر …وہ بات مولوی مدن کی سی ….کتابی صورت میں بنی ہے ……..
بقول ڈاکٹر انوار احمد ……سید عابد علی عابد کی کتاب , اصول انتقاد ادبیات , میرے لیے تنقید کی بایبل کا درجہ اختیار کر گیی………..شعر اقبال اور تلمیحات اقبال ….بھی سید موصوف کی معروف کتابیں ہیں مگر آغا شورش کاشمیری کا خیال تھا اور اس میں ایک تہای سے زیادہ اقبالیات کے حوالے سے غیر ضروری اور متعلقہ نہ تھا محض کتاب کی ضخامت اور فی صفحہ رقم میں اضافہ مطلوب تھا ……( ویسے بعد از مطالعہ اس طالب علم کی بھی یہی گستاخ راے ہے )
سید عابد علی عابد کی اولاد میں سے صرف …..شبنم شکیل ….ہی ایک ایسی بیٹی تھی جس نے باپ کے نقش قدم پہ چلتے ھوے دنیاے ادب میں نام اور مقام پیدا کیا…..بقول ڈاکٹر سلیم اختر ……نرم گفتار شبنم , قطرہ شبنم کی طرح زیست کر رہی ہے . ایک پنکھٹری پر قایم مگر وجود میں دھنک کے سات رنگ .
.جب ھم جامعہ پنجاب میں زیور تعلیم سے اراستہ ھو رھے تھے اور استاد الاساتزہ ڈاکٹر سید عبد اللہ مرحوم کے بقول اوری اینٹل کالج ایک ایسا ادارہ ہے جس میں لٹرکے بھی پٹرھ سکتے ہیں …..تب خواتین شعراء کے غول میں …..ایک دن یہ بات سنی کہ یہ سریلی اور نقری اواز والی شاعرات بھی ….شبنم شکیل کی طرح ….جدید غزل گوی کے معتبر شاعر اقبال ساجد کی شاعری سے خوشہ چین ہیں ………برسوں کے بعد حنا جمشید کے مقالے سے سے گرہ کھلی کہ جانے دو یار ……..
حنا جمشید کی یہ کتاب ( جس کا سرورق بنانے کا انتخاب بھی ھمارے دلدار …الیاس کبیر ….کے حصہ میں آیا ) خاصے کی چیز بن گیی ہے اور اپنے موضوع سے مکمل انصاف …اب ….کرتی ہے ….یہ راے اردو تنقید کے ایک قد آور نام ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی ہے اور سو فی صد درست ہے ……
……………………………………..
صداییں کون دیتا ہے ؟؟ ……….. …فرحت شکور
بنیادی تعلیم کا درجہ پنجم ہے …..پاک پتن کے ایک دور افتادہ گاوں میں اس سے آگے رسمی تعلیم کے دروازے اس پر کھل نہ سکے اور عہد جوانی پہنچنے تک فرحت ……چارہ کاٹنے , گوبر سمیٹنے , گارا اور اینٹیں ڈھونے میں بہت ماھر ھو چکی تھی ……کب بطون زات سے ایک شاعرہ نے سر اٹھایا مگر ……دل حواب نگر کا باسی ہے …..کے بعد صدایں کون دیتا ہے …… دوسرا شعری مجموعہ ہے جو ادب کے شہری نقادوں کو کہ رھا ہے …..کہنا تو میرا حق ہے ……..اس حق کی گواہی …لاھور سے ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ ….ساھیوال سے ڈاکٹر افتخار شفیع اور حنا جشید ….پاک پتن سے نوید عاجز اور سہیل اسجد نے دی ہے ………فرحت شکور سے بھی رہ ورسم نہیں مگر میری کج مج زبان کو سرورق کے اندروں زیبا کیا ہے ………ساھیوال پرنٹنگ پریس کے درویش ادب اختر خان نے زوق طباعت سے170صفحات کے شعری مجموعہ کی قیمت 350 روپے رکھی ہے ….
.انتساب اپنے رفیق حیات ملک اللہ ڈتہ (ایڈووکیٹ ) کے نام ہے ………..فرحت شکور نے ابھی وادی سخن میں آگے جانے کی آرزو تازہ دم رکھی ہے اس لیے پوچھ لو ان سے جو بٹرے ہیں میاں ….کے چکر میں نہیں پٹری …………رب ہنر قلم کو توانا رکھے ……
…………………………….
…….وسیلہ ……نیلم شعیب
گورنمنٹ کالج ساھیوال میں ایک تھے پرنسپل پروفیسر شعیب صاحب …….ان کی بیگم گرلز کالج میں ادب کی استاد ہیں نیلم شعیب …….ساھیوال پرنٹنگ پریس والوں نے 230صفحات پر مشتمل اولین نعتیہ مجموعہ چھاپا اور قیمت رکھی مبلغ 400 روپے …..اگست 2016ء میں شایع شدہ مجموعہ …….درویش منش ….ادب پرور …اختر خان نے13 مارچ 2018 ء کو پیش کیا تو میں نے اسے سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف …..سمجھ کر دل سے لگایا ……..ساھیوال میں دیر تک گیسوے سخن سنوارنے والے مشہور شاعر …جعفر شیرازی ….کی دختر نیک فرجام …در شہوار کی عالی قدر راے کا احترام اپنی جگہ ……….پروفیسر ریاض حسین زیدی …….کی راے ایک جید شاعر کی وقیع راے ہے ….ناچیز یہ سمجھتا ہے کہ مجید امجد اور بشیر احمد بشیر کے شہر میں ……پروفیسر ریاض حسین زیدی اور پروفیسر محمد اکرم ناصر …..آبروے سخن ہیں ….
اختر خان کی راے سے متفق ہوں کہ ….حق نعت تو شاید کبھی ادا نہ ھو سکے , یہ تو چند گلہاے عقیدت ہیں جو بارگاہ نبوی ص میں قبولیت کی تمنا لیے پورے یقین کے ساتھ دست بستہ کھٹرے ہیں …..یہی زندگی اور بندگی کا حاصل ہے ….
اقلیم ادب اور شہر یار سخن ….استاز مکرم پروفیسر سید ریاض حسین زیدی کی توجہ خاص نے مشاطہ سخن فرمای ……….دیدہ زیب طباعت سے لطافت آمیز اور حسن آفریں ….مجموعہ حمد ونعت …..وسیلہ …..کا پہلا حصہ حمد باری تعالی پر مشتمل ہے ……..نیلم شعیب کے حمدیہ کلام میں …..وسیلہ حق …..اپنی پوری معنوی اور فکری آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے …….کاروان نعت گوی میں حرمت افزا مقام کی دستک دیتی ….پروفیسر نیلم شعیب …..کو ہدیہ تبریک …….
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“