دنیا کی تاریخ دو متضاد نظریات پے مبنی ہے لہزا اسکو سمجھنے کے لیے ہمیں فلسفے کے بنیادی سوال کی طرف جانا ہوگا ایک وہ تاریخ ہے جس کا تعلق خیال سے ہے جسکا کوئی ثبوت میسر نہیں ہے اس تاریخ کو عینیت پرستانہ تاریخ کہا جاتا ہے اور دوسری وہ تاریخ ہے جسکا وجود ہمیں ملتا ہے اسے مادیت پرستانہ تاریخ کہا جاتا ہے لہزا ہم جب بھی تاریخ کے حقائق کو جاننے کی کوشش کریں گے تو یہ دونوں مکاتب فکر ہمیں ملیں گے اور دونوں صدیوں سے ایک ساتھ محو سفر ہیں اور اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق بیان کیے جارہے ہیں ہمارا مدعا یہاں درست اور سہی پے بحث کرنا نہیں ہے لیکن پھر بھی ہمیں ادب کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے چاروناچار ان سوالات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے کیونکہ ہر کہانی کی کوئی ابتدا ہوتی ہے کوئی تاریخ ہوتی ہے جمالیات فقط موضوعیت نہیں ہے اس میں انسانی کردار بہت اہمیت کا حامل ہے اور حسن کا وجود انسان سے باہر نہیں ہے جب ہم اسکے معنی تلاش کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ بشری بھی ہے اور سماجی بھی حتی کہ جمالیاتی رابطے بھی انسان اور تاریخ کے پیدا کردہ ہیں
ما قبل تاریخ کا آدمی دنیا کے تئیں ایک طلسماتی تصور رکھتا تھا اور یہ تصور حقیقت سے مملو تھا ما قبل کے آدمی کے لیے فن ایک مخصوص ٹکنیک تھا جسے وہ اپنے دماغ سے اپنے تحفظ اور غذا کے حصول کے سلسلے میں کام میں لاتا تھا الٹامیرا کی غاروں میں وحشی جانوروں کی نقاشی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ فنکار نے نہایت ہی اعجاز کے ساتھ اپنی ترکیبی اور تجریدی و تعمیمی صلحتوں کا استمال کیا ہے حقیقت کو گرفت میں لانے کی ان میں بلا کی قوت تھی فن کے زریعے ہی انسان نے اپنی کمزوریوں کی تلافی اور ایک خوف کو انگیز کیا دوسرے لفظوں میں فن انسان اور فطرت کے بیچ کی ایک کڑی ہے یعنی جو کچھ انسان کے اختیار میں تھا یا جو کچھ اختیار سے بالا تھا آدمی نے اسے اپنی عدم تکمیل خواہشوں اور مسرتوں یہاں تک کہ یاس الم کو بھی فن کے حوالے سے پیش کیا جمالیات کا خالص فنی اور تجریدی نقطہ نظر بعد کی چیز ہے لیکن ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ ماقبل کی فنکاری اظہار کا محض ایک اتفاقی نمونہ تھا اس کی تہ میں بھی کہیں نا کہیں علم اور بصیرت اور تخلیقی خود شعوریت ضرور مضمر ہے ایک فنکار اپنے اظہار کو تکمیل کی صورت میں اور پھر اس سے وابستہ فاہدے حاصل کرنے کی صورت میں یا مقصد برابری کی صورت میں مسرت کے احساس سے دوچار ہوتا ہوگا طبقاتی سماج نے فن کی اس ابتائی منطق کو بڑی ٹھیس پہنچائی ہے اور فن رفتہ رفتہ آراہشی اور خرید فروخت کی چیز بن گیا اور محنت و مشقت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی یعنی جسمانی مشقت اور دانشورانہ مشقت
لفظ حضرت انسان کی پہلی ایجاد ہے اور اسکی ایجاد میں بھی صدیاں لگی میرے نزدیک لفظ کی بہت توقیر و اہمیت ہے لہزا ادب بھی ایک فن ہے جسکا پیرائیہ اظہار زبان ہے اور زبان کے قالب میں ڈھلا ہوا لفظ فن ادب کہلاتا ہے اس سے زیادہ سوچا جائے تو کیا ادب ایک فن الہام ہے یا غیر معمولی بصیرت سے زندگی کے رازوں کو فاش کرتا ہے یا پھر ایک آئینہ ہے جو زندگی کے تاریک پہلوں کو اجاگر کرتا ہے یا پھر کوئی کیماوی عمل ہے کہ زندگی کے اجزائے ترکیبی سے نئی دنیائیں تلاش کرتا ہے یا پھر کوئی آہنگ ہے جو مختلف آوازوں سے ملکر نغمہ بنتا ہے یا فن ایسی نظر ہے جو جوہر نظارہ کو حسین بنا دیتی ہے یا پھر وہ تخیل ہے جو زندگی کی تلخ حقیقتوں سے کچھ دیر کے لیے چھٹکارہ حاصل کرنے کی خاطر خوابوں کے محل تعمیر کرتا ہے ان ساری باتوں سے قطع نظر ایک بات بہت واضح ہے کہ فن کا زندگی سے ایک گہرا تعلق ضرور ہے اور اگر فن کا ادب کا زندگی کے ساتھ تعلق ہے تو پھر ادب برائے ادب نہیں ہوسکتا ادب برائے زندگی ہوسکتا ہے
حقیقت یہ ہے کہ ادب اور سماجی وابستگی ہمارا مسلہ ہی نہیں ہمارے ادب میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی جہاں ادب کو سماجی تقاضوں سے الگ رکھا گیا ہو مثنوی مولانا روم ہو یا داستانیں ہوں ہمارا تمام تر ادب وہ چاہئے نثری ہو یاشعری ناصرف سماج سے وابستہ ہے بلکہ تمام تر سماجی زمہ داریاں قبول کرتا ہے لیکن المیہ یہ ہوا کہ دو صدیوں کی طویل غلامی نے ہم سے تمام تخلیقی صلاحیتیں چھین لی ہیں اور ہمارے نزدیک خود کی تلاش ایک بڑا مسلہ بن چکی ہے گو کہ زات کا اظہار بھی ایک حقیقت ہے پر اتنی بھی نہیں جتنا مسلہ بنا ہوا ہے دراصل گزری دو صدیاں نت نئی ایجادات و دریافت کی صدیاں ہیں لیکن ہم نے ان صدیوں میں نا ہی کچھ ایجاد کیا اور نا نئی دریافت کی کوشش کی ہم جسطرح عام زندگی میں ہر ایجادات کے لیے مغرب کے مرہون منت ہیں اسی طرح سوچ میں بھی ہم انہی کی تلقید کرتے ہیں
یہ تو بھلا ہو انجمن ترقی پسند مصنفین کا جس کو سجاد ظہر نے 1935 میں بنایا اور ادب میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ورنہ یہاں درباری شاعروں کا ایک ایسا عہد بھی گزرا جنکے نزدیک سوئے زلف یار کے کچھ اور سوجتا تک نا تھا ترقی پسند مصنفین کے ابتدائی عہد میں الطاف حسین حالی کے بعد غزل کی مخالفت ایک فیشن بن چکی تھی لیکن ترقی پسندوں نے اس عہد میں بھی مارکسی شعریات کی روشنی میں اپنی مخالفت کے ٹھوس اور اہم جواز ڈھوڈ نکالے تھے ترقی پسند تحریک سے قبل جو اعتراضات کیے گہیے تھے ان میں حد درجہ یکسانیت تھی علاوہ اس کے بیشتر ملامت نظر کی کشادگیوں کے پیش نظر کی گئی تھی ان مخالفتوں میں سچائی کی آنچ بھی جھلکتی تھی بنیادی سچائی جوں کی توں حالی ہی سے وابستہ تھی اگر غور کیا جائے تو حالی کے زئن کے کسی نا کسی گوشے میں نظم کی ترکیب تھی اور وہ بھی مقصدی اور مقصد بھی پاک صاف اور خالصتہ زندگی آموز نظم کی ترکیب ہی اصل کام کر رہی تھی اور نظم کی ترویج کی راہ میں غزل کی عام مقبولیت مانع نہیں تو کم از کم حالی جیسے مخلص اور بامروت انسان کے لیے شرمندگی کا باعث ضرور تھی حالی شاعری ہی میں نہیں بلکہ زندگی کی عام شریعتِ میں بھی نظم بہ معنی ترتیب کے مبلغ تھے اور سر سید کے مشن کو غزل ایسی کم آمیز گستاخ صنف سے فاہدہ کم اور نقصان پہنچنے کے خطرات زیادہ تھے کیونکہ غزل آپ اپنے میں بڑی انا پرست زات رکھتی ہے
ہر صنف کا اپنا ایک مختلف ہیئتی اور کارسازانہ کردار ہے جس سے اسکی شناخت قائم کی جاتی ہے بعض وقت فنکار غیر معمولی تخلیقی قوت ان حدود کو تہس نہس کر دیتی ہے لیکن یہ عمل داخل اور توڑ پھوڑ زیلی سطح پے اتفاقی ہوتا ہے پھر بھی اثبات و انکشاف کی منزلوں سے گزر کر انسان کا پختہ ہوتا ہوا شعور ساتھ ساتھ ادب میں بھی تبدیلی کے امکانات کی نشاندہی کرتا ہے اور ادیب و شاعر کا کام محض راستہ دیکھانا ہی نہیں بلکہ راستہ بنانا بھی ہے اور اردو ادب کا 1857کا دور فنا کے نظریعے کی ترویج کرتا ہے دراصل اس دور میں خارجی حقیقت سیاسی غلامی ہے ادیب و شاعر کی نظر درحقیقت ایک دوربین ہوتی ہے جیسے غالب نے اگلے دور کی طرف اشارہ کر دیا تھا ۔۔عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا۔۔
صنعف سے ہے نے قناعت سے یہ ترک جستجو
ہیں وبال تکیہ گاہ ہمت مردانہ ہم
دراصل اگلہ دور حالی اور اکبر کا تھا جو انکشاف و حقیقت کی بات کرتے تھے 1935 کا ادب ویسے بھی باغیانہ ادب تھا اقبال کا فن بھی اس عہد میں تجسس کی نئی رائیں کھولتا ہے ۔۔جس کھیت سے دہقاں کو میسر نا ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
بہر حال ترقی پسند شعراء اپنے تمام تر باغیانہ رویوں کے باوجود فنی اظہار میں کلاسکی تھے اور اس کلاسیکی کا اظہار انکی غزلوں میں باخوبی ملتا ہے ایک طرف جہاں انھوں نے فرسودہ روایات کو تہس نہس کیا وہیں از سر نو دریافت بھی کی اور ان نئی دریافت کے باوجود مشروقی روایات و جمالیات اور بالخصوص ایرانی جمالیات کی زائیدہ و پروردہ رہیے لفظوں کے بناو صوتیاتی نظم و ترتیب میں کلاسیک کا دخل اور خصوصی طور پر غزل کا فارم ایک بہترین وسلہ اور اظہار رہا
مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی۔۔۔مجاز لکھنوی
اسی سے تیغ نگہ آب دار ہوتی ہے
تجھے بتاوں بڑی شے ہے جرت انکار۔۔۔سردار جعفری
ہمیں نا کر سکے تجدید آرزو ورنہ
ہزار بار کسی کے پیام بھی آئے۔۔۔غلام ربانی تاباں
نفس ہے بس تمارے تمارے بس میں نہیں
چمن میں آتش گل کے نکھار کا موسم۔۔۔فیض احمد ضیض
ہر چند کہ یہ مضون ادرو ادب کے ایک وسیع احاطے کو مکمل نہیں کر سکتا لیکن اسکے لیے ایک طویل بحث اور شعوری مباحثے کی ضرورت ہے جسکے لیے ایک مضمون میں اسکا احاطہ کرنا ناصرف مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہے 1935کے بعد یہاں کہیں حادثے رونما ہوئے کہیں ہجرتوں کے زخم کہیں گھر کھو جانے اور پیاروں کے بچھڑ جانے اور مارے جانے کے غم اور ان اداس نسلوں کے نوحے جو شاہد صدیوں تک دہرائے جاتے رہیں گے بہر کیف آجکا عہد کل سے بہت مختلف ہے آجکے اس کاروباری و اشتہاری دور میں کل کی فراغت کہاں تان سین اس لیے تان سین بنا کہ اسکے باپ نے تان سین کے استاد کو کہیں سالوں کا راشن دے کر کہا تھا کہ تم سارے معاشی غموں سے آزاد ہوکر صرف تان سین کی طرف توجہ دوگے ۔۔۔۔۔۔۔۔