میں نے جب ہوش سنبھالا تو اردو کے ادبی رسالوں میں نگار۔شاعر۔ ساقی ۔ نیرنگ خیال۔ عالمگیر۔۔ ہمایوں۔ ادبی دنیا وغیرہ کو اپنے گھر میں دیکھا۔ میرےلےؑ امتیاز علی تاج کا "پھول" ہفتہ وار آتے تھےممکن ہے چند اور ملا کے ادبی رسایل کی تعداد ایک درجن ہو جاےؑ جو سارے ہندوستان کے مختلف شہروں سے شایع ہوتے تھے۔پاکستان آنے کے بعد نیرنگ خیال راولپنڈی۔۔ عالمگیر لاہور۔ ساقی کراچی۔ ادبی دنیا کولاہور سے شایع ہوتے دیکھا مگر ان کا ہمارے گھر باقاعدگی سے آنے کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ 1960 میں نقوش۔سویرا۔۔سیپ۔ فنون۔اوراق۔ جیسے جرایدؑ کا راج تھا اور میری یادوں میں وہ اردو افسانہ شاعری اور تنقید کے ارتقا کا سب سے زرخیز دور تھا جس نے وہ ادب پیدا کیا اور ایسے ادیبوں شاعروں کو عروج بخشا جو ایک روایت بنے۔۔ اسی دور میں وہ رسالے بھی تھے جو کسی حد تک عوامی مزاج کے قریب تھے ، سر فہرست شمع دہلی تھا۔ شمع دہلی ۔۔بیسویں صدی۔رومان۔۔شباب۔ مزاحیہ رسالہ چاند اور ڈایریکٹر جیسے رسالے تھے۔۔ میاں محمد شفیع کا "استقلال" تھا ۔ شورش کاشمیری کا "چٹان " تھا اور مجید لاہوری کا "نمکدان"جو کچھ ان میں شایع ہو اادب عالیہ کی صف میں نہیں شامل کیا گیا۔ اس وقت کے مقبول ترین ناول نگار ایم اسلم تھے جن کے ناولوں کی تعداد سو یا اس سے اوپر ہوگی لیکن آج ان کا نام بھی کویؑ نہیں جانتا نہ ان کا کویؑ ناول ملتا ہے۔اتنے ہی مقبول نام دت بھارتی اور قیسی رام پوری۔ نسیم حجازی ۔رشید اختر ندوی اور نذیر احمد کے تھے۔ قیسی رامپوری کے نواسے عادل حسن کراچی میں ہیں اور ان سے مجھے معلوم ہوا کہ قیسی رامپوری کے ناول ایک لاکھ کی تعداد میں چھپے اور ان کے دو یا تین ایڈیشن بھی شایع ہوےؑ۔ یہ فہرست بھی مکمل نہیں لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب تعلیم کا تناسب بہت کم تھا اور آبادی نصف بھی نہیں تھی ۔ انہی کے دور کے کرشن چندر۔۔منٹو۔بیدی۔عصمت ۔ عزیز احمد۔قرۃالعین حیدر ۔ ندیم قاسمی ۔ عبداللہ حسین ۔۔ شوکت صدیقی ۔انتطار حسین ۔جیسے ایک درجن نام اردو کے افسانوی ادب عالیہ کے سنگ میل بنے اور ان کا حوالہ مستند سمجھا جاتا ہے۔ اس فہرست میں بھی ہاجرہ مسرور۔ خدیجہ مستور۔جیلانی بانو۔ ممتاز شیریں۔جمیلہ ہاشمی۔ بانو قدسیہ اور شاید درجن بھر دیگرمرد لکھنے والوں کے نام ہونگے جن کے ادبی قامت پر نقادان کرام تذبذب کا شکار رہے اور ان کو صف اول میں جگہ نہ ملی۔ میں ان گراں قدر نقادوں کے کچھ نام یاد کروں تو ممتاز حسین ۔ وقار عظیم۔احتشام حسین۔عبادت بریلوی کسی تعارف کے محتاج نہیں اس وقت تک کرایم فکشن اور تراجم والےڈایجسٹ ،منظر عام پر نہیں آے تھے۔
ادب عالیہ کے ان نمایندہ رسالوں کے زوال کے بعدڈایجسٹوں کی مقبولیت کا دور شروع ہوا اور اس میں شامل ایکشن۔ کرایم اور پراسرار دیو مالایؑ اور ڈراونی کہانیوں کی کشش نے گلی محلے کے اعلی تعلیم یافتہ کے ساتھ میٹرک پاس عام آدمی کو بھی کھینچ لیا۔ دادی ماں کی کہانیوں کے دور سے ہیری پوٹر کے زمانے تک مافوق الفطرت میں انسان کی دلچسپی کبھی ختم نہیں ہویؑ۔ ہارر فلمیں آج کے خلایؑ دور میں بھی مقبول ہیں۔ ڈایجسٹوں میں عالمی ادب کے تراجم اور قسط وار سلسلے۔تاریخی کہانیاں ( تاریخ ہمیشہ ایک کہانی ہی رہی ہے) شامل ہوےؑ تو یہ بارہ مسالے کی چاٹ گھر گھر پہنچ گیؑ۔ ان میں لکھنےو الے ناموں نے ملک گیر شہرت حاصل کرلی۔ لیکن ایک بار پھر اس عوامی ادب کو ادب عالیہ کی سند نہیں ملی اور لکھنے والے ادیب تسلیم نہیں کےؑ گےؑ ۔
گزشتہ صدی کے آخر میں ایک تو پرنٹ میڈیا پر الیکٹرونک میڈیا غالب آیا جس سے کتاب اور رسالے کی طلب میں کمی آیؑ ،(اگرچہ ایسا ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہوا)۔ اب کمرشل میڈیا پر عمیرہ احمد اور نمرہ احمد جیسی خواتین ناول نگاروں کی ادبی شہرت اور معاشی کامیابی کا زمانہ شروع ہوا تو زنانہ ڈایجسٹوں کو بہت عروج حاصل ہوا جو انہیں قسط وار شایع کرتے ہیں۔ پھر وہ ضخیم اور انتہایؑ مہنگی کتابی صورت میں لاےؑ جاتے ہیں اوران پر صرف خواتین کی پسند کے سپر ہٹ ڈرامے بنتے ہیں۔ یہ کارپوریٹ سیکٹر کی سپانسرشپ سے ادب وغیرہ کے رجحان یا تقاضوں پر نہیں مارکیٹ اکانومی پر چلتے ہیں کیونکہ کنزیومر خواتین ہیں
لیکن ان ناولوں کی مصنف خواتین کو پڑھ کے ان کی ادبی عظمت کے معترف قرۃالعین حیدر سے کہیں زیادہ ہیں اور وہ اس ناول کو ہی عظیم مانتے ہیں جو لکھا جارہا ہے
اب دیکھا جاےؑ تو ایک صدی کے اردو کے افسانوی ادب میں تین دورنمایاں نظر اتے ہیں
ایک ادب عالیہ تخلیق کرنے والے اور ان کے پرستارہیں جو اقلیت میں ہیں
دوسرے عوامی ادب لکھنے اور پڑھنے والے ہیں جو ہمیشہ اکثریت میں رہے
تیسرے زنانہ ادب کو سر فہرست رکھنے والے ہیں جو آج غالب نظر آتے ہیں
1950 کے مقبول ترین مصنف ایم اسلم کا نام آج کویؑ نہیں جانتا اور اس کا ایک بھی ناول کسی بکسٹال پر دستیاب نہیں۔ یہی حال اس دور کے دیگر عوامی ناول نگاروں کا ہے لیکن اسی دور کے عزیز احمد کا ناول " آگ" اور پانچ ناولٹ نیی آب و تاب کے ساتھ شایع ہوےؑ اور قیمت بہت زیادہ ہونے کے باوجود خریدے گےؑ اور اس کے دیگر ناول بھی زیر طبع ہیں۔منٹو کی کلیات ہزاروںکی قیمت پر خریدی جارہی ہے اور اس پر بننے والی فلم کو آج زبردست پذیرایؑ مل رہی ہے۔
کچھ ادیب نہیں رہے مگر ان کا ادب زندہ ہے۔۔کیوں؟؟ ؟
(زیر ترتیب سوانح "اقبال جرم" سے اقتباس)