(Last Updated On: )
(ABSTRACT)
Literature is the spokesperson for the spirit of the society, being a part and manifestestion of its individual and collective life. So the literature should be according to the modern requirements. Literature showcases civilization of its era, so it has ability to take into account the times requirements and future trends. Literature is also the best and most effective source of information which influences the readers mind, thinking, social behaviour, literary reforms, and the dissemination of ideas because constructive forces lies behind the creation of literature. Whether it be a prose, poetry or fiction it should be based on litary values that not only give reader a wide range of perspectives, but also satisfy gloomy feelings. To test whether literature is subressive or constructive standards should be established that are demands of present age. Since the universal subject of literature is human, it must be in realm of human being and interpreter of human emotion and feelings and ir should also be useful and effective.
ادب کیا ہے؟ یہ نظریاتی بحث صدیوں سے جاری ہے اور اس کے کئی مثبت فکرو عمل اور روشن پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ مثبت مباحث ہر زندہ زبان کی نشو نما اور وسعت فکر کے فروغ کے لیے ازحد ضروری ہیں کیونکہ یہ نظریات رویوں اور معاشی اقدار کو بدلنے میں فعال اور نتیجہ خیز حد تک کارآمد ہوتے ہیں۔
چونکہ ادب انفرادی اور اجتماعی زندگی کا حصہ ہے 1؎ اور مظہر ہونے کے باعث معاشرے کی روح کا ترجمان ہے۔ اس لیے یہ نکتہ پیشِ نظر ہے کہ ادب کو عصری تقاضوں کے مطا بق کیسا ہونا چاہیے۔
ہر عہد اپنا آئین خود مرتب کرتا ہے اس طرح ہر معاشرہ اپنا ادب بھی خود مرتب کرتا ہے۔ گذشتہ ایک عرصے سے ہمارا ثقافتی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی نظام ایک سخت اور سنگین بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ جو ہماری زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنی سنگینی کی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ جس طرح زندگی کا دھارا تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اسی طر ح ادب بھی تغیر پذیر ہے۔ ادب اپنے دور کی تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے لیکن اس پر اس دور کے زمانے کے حکمرانوں، شخصی رجحانات اور اپنے عہد کی تحریکوں کے گہرے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے ادب میں اپنے عہد کی آئینہ داری کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلیوں، وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے رجحانات کو بھانپ لینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
ادب نہ صرف انسانی زندگی اورمعاشرے کا ایک فطری مظہر ہے 2؎ بلکہ ابلاغ کا بھی موثر ذریعہ ہے۔ جو قاری کے قلب و ذہن پر اثر انداز ہو کر اس کے سوچنے کاطریق، سماجی رویے اور رجحانات کو بدلنے میں ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ ا سی لیے ادب کو اصلاح اور نظریے کی اشاعت کا ایک وسیلہ بھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ادب کی تخلیقی قوتوں میں تعمیری قوتیں مضمر ہوتی ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ادب کو فکر و عمل کے حوالے سے کیسا ہونا چاہیے۔
ادب چاہے شعری ہو، نثری ہو یا افسانوی اس کو اخلاق، احترام، انصاف، اصول راست بازی اور امید پر استوار ہونا چاہیے جو ابلاغ کے تقاضوں کو بھی پورا کرے۔ جو داب اپنی اقدار سے ہٹ کر تشکیل پاتا ہے، اس کا مقصد و مدعا اور حسن دب کر رہ جاتا ہے اور پھر وہ ابتری، انتشار، اشتعال اور ابتسام پھیلانے کا ہی باعث بنتا ہے۔ ادبی اقدار کی ضرورت و اہمیت گوپی چند نارنگ یوں بیان کرتے ہیں:
__" ادب کا ایک کارنامہ تو یہی ہے
کہ فن کار کا تخلیقی عمل خارج
کے احکام کا تابع نہیں بلکہ ادب
ذاتی اور سماجی سچائی کا موضوعی
اظہار ہے اس لیے ادب میں
بنیادی اہمیت ادبی اقدار کی ہے __ " 3؎
ادب اخلاقیات کا نمائندہ ہے۔ اخلاق اور ادب کا ہمیشہ سے گہرا تعلق رہا ہے۔ اس لیے اخلاقی ضابطوں پر عمل پیرا ہوئے بغیر اثر انگیز ادب پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ تخلیقی اور تعمیری ادب کو جو ہر اخلاق اور ضابطے سے کشید کیا جا تا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ادب اور اخلاقیات کا تعلق یوں بیان کرتے ہیں:
__" ادب بنیادی طور پر ایک اخلاقی
فعل ہے اور ادیب اخلاقیات
کا ایک بہت بڑا نمائندہ ہے۔ جب
ادیب تخلیق کاری کے دورسے
گزرتا ہے تو وہ جذبے کو مشتعل
کرنے کی بجائے اسکی تہذیب کر دیتا ہے __ " 4؎
ادب کو تشکیل دینے والے اجزائے ترکیبی پر معاشرے کی ادبی روایت، تاریخ، معاشرت، ماحول ہر چیز بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے کیونکہ ادیب اسی معاشرے میں پروان چڑھتا ہے جہاں وہ ادب تخلیق پاتا ہے۔ اور یہ تمام عناصر ادیب کے فکرو شعور کی دنیا میں ایک وسعت اور ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ اس کے محسوسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کا سبب بنتے ہیں لیکن ان محسوسات و افکار میں جب تک جذبات کی شدت، فکر کی مکمل سچائی اور توانائی شامل نہ ہوگی تب تک یہ لفظوں کے پیکر میں ڈھل کر بھی بے معنی، بے رنگ اور بے اثر رہیں گے۔
جس طرح ادیب ایک تخلیقی دنیا قائم کرتا ہے اور اپنے فکر و وجدان سے قاری کو ہمہ گیر مشاہدے، تخلیقی تنوع، آفاقی تجربات اور نئی فکر و نظر سے ہم آہنگ ہونے کی راہ استوار کرتا ہے وہیں قاری بھی اس ادب پارے سے اپنا تخیلی تعلق استور کرتا ہے اس کو اپنی حسرتوں، آرزئوں، روحانی اور باطنی پیچیدگیوں کا آئینہ خیال تصور کر کے اس میں اپنی دنیا کے تماشوں کا عکس دیکھنے لگتا ہے۔ اس لیے ایلیٹ نے ادب کو شخصیت کا اظہار نہیں، شخصیت سے فرار قرار دیا ہے اور سارترے ادب کو ذاتی تصریحات کا سلسلہ بتاتا ہے۔ 5؎
انسانی رویے متضاد کیفیات کا مجموعہ ہیں جن میں کبھی سوال و استفہام جنم لیتے ہیں، کبھی غم و غصہ اور کبھی شکوہ و شکایت کی لہر اٹھتی ہے۔ کبھی یہ انقباض کی صورت اختار کرتے ہیں تو کبھی انبساط کی۔ ان مجموعہ تضادات کیفیتوں کونقطہء تطمین فراہم کرنے کے لیے اس ادب کی تشکیل کی ضرورت ہے جس میں سماجی و معاشی حقائق کی ہم آہنگی کے ساتھ تہذیبی وجدان بھی ہو اور تخلیقی تمازت کے وجود کا بھی احساس دلائے جس سے ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور شکوک و شبہات جو کہ ان کی الجھنوں کو سلجھانے اور کتھارسس کرنے کا کام کرے اور ادیب کا یہ جذبہء تخلیق اس ادب پارے کو آفاقیت سے ہمکنار کرے۔ اس بارے میں والٹ وہٹ مین 6؎ (Walt Whitman) نے 1871 ء میں " جمہوری سلسلہء نظر" (Democratic vistas) میں کہا تھا:
__" اگرچہ ادب کی آفاقی اور باقی
رہ جانے والی خصوصیات دن اور
موسم سے بے نیاز ہیں لیکن ان کا
جذبہء تخلیق اور جولان خون
ہمیشہ ان مادی اور سماجی حالات
سے آنا چاہیے جن میں اس کی
تخلیق ہوتی ہے __ " 7؎
ہر ادیب اپنے گرد و پیش کے ماحول، داخلی اور خارجی حقائق سے متاثر ہو کر ادب کوتشکیل دیتا ہے۔ اس کے موضوعات کا دائرہ کار حیات انسانی کے گرد گھومتا ہے لیکن اس کے باوجود ہر ادیب کا ادب انفرادیت کا حامل ہوتا ہے اور ایک نئی تعبیر کی گنجائش رکھتا ہے۔ ادیب کی ادبی انفرادیت کے بارے میں پروفیسر سید احتشام حسین یوں رقمطراز ہیں:
__" ادیب اور شاعر اپنے شعور کے
مطابق اپنی انفرادیت سے کام لیتے
اور اپنے موضوع کاانتخاب کرتے
ہیں ۔نہ تو موضوعات آسمان سے
اترتے ہیں اور نہ اسلوب اور اس
کا نیا پن، ہر ادیب اکثر جان
بوجھ کر اور کبھی کبھی نیم شعوری
طور پر انہیں اختیار کرتا ہے __ " 8 ؎
ادب چونکہ زندگی کی حقیقی معنویت کواجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عصری آگہی کا بھی ذریعہ ہوتا ہے اسی لیے اس کو تقلیدی اور تخریبی ہونے کے بجائے تعمیری ہونا چاہیے کیونکہ ادب ایسے تخلیقی عمل سے تعبیر ہے جو زندگی کی تمام حرکت وحرارت کا نقیب ہے۔ ادب جہاں صاحبِ بصیرت کو جہان تازہ کی نوید سنا کر معنی و مطالب کے نئے گوشے وا کرتا ہے وہیں اپنی اثر پذیری اور حسن آفرینی سے معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔ فکر و خیال کی جدت سے اجتماعی تجر بات کو اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ انتعاش ِغم کر کے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرے اور راہِ عمل کی سنگینیوں سے گزرنے کا حوصلہ پیدا کرے۔ ایسا ادب جہاں انسانی عظمت کو بلند کرے گا وہیں اس کے احساسات کا صحیح نمائندہ بھی ہو گا۔
نواب مرزا جعفر علی خان مضمون " نیا ادب کدھر جا رہا ہے " مشمولہ نیا ادب 1940 ء میں ادب کے ادعائی رنگ ڈھنگ کو یوں وضع کرتے ہیں:
__" صحیح ادب تعمیر ہوتا ہے نہ کہ
تخریب کادر پے۔ مگر اس کے برخلاف
نئے ادب میں ایسی نظموں کی افراط ہے
جو نفرت خیز و اشتعال انگیز ہیں۔
مزدوروں کی زندگی یا افلاس کا
صرف تاریک رُخ دکھاتی ہیں حالانکہ
درکار ایسی نظمیں ہیں جو اس کی
زندگی کے ایسے پہلوئوں پر روشنی
ڈالیں جو مصیبت، عسرت اور زبوں
حالی میں بھی تابناک او ر دلکش ہیں
اور جن کی مصوری شاعر کے موقلم کی
منتظر اور محتاج ہے۔ اس طرح اس
کی طرف دل کھینچیں گے۔ اس کی
عظمت کا سکہ دلوں پر بیٹھے گا۔
اختلاف اور خصوصیت کی
خلیج وسیع ہونے کی بجائے تنگ
ہونا شروع ہو گی __ " 9؎
ادب تخریبی ہے یا تعمیری اس کی تحلیل و تطبیق سے قبل ضروری ہے کہ ان معیارات کو ازسرنو مرتب کیا جائے جن پر ان کے تناقضات کو پرکھا جا سکے۔ ایسے اندازِ بیان وضع کیے جائیں جن میں ندرت اور جدت ہو جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھل سکیں کیونکہ ادب انسانوں کی بنائی ہوئی چیز ہے اور انسانوں کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اسے ڈھالتے رہیں۔ 10؎ گو کہ سچے جذبات و محسوسات کی ترجمانی مشکل الفاظ و تراکیب یا اصطلاحات و لغات کی محتاج نہیں ہوتی لیکن ادیب کے ذوقی ممیزات اور فکرو خیال کو بیان کرنے کی جدت ہی اسے غیر ادیب سے ممتاز کرتی ہے۔ جدت انداز سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ ادیب کا ذوق تخلیق گنجینہء معنی کا طلسم کدہ بن کر رہ جائے یا لغت اور بیان کے اسرارو غوا مض کی دبیز تہوں میں الجھ جائے بلکہ الفاظ و تراکیب کو کچھ ایسی ضاعی اور کچھ ایسے حسن التزام کے ساتھ استعمال کرے کہ اس کے تخیل کی بو قلمونی کی مدد سے ہر بیان میں تازگی و شگفتگی اور وسیع المعانی پیدا ہو۔ اظہار و بیان کے کئی طریقوں کی باز یافت کے سلسلے میں باقر مہدی یوں لکھتے ہیں:
__" ادبی معیار کی تخریب تشکیل سے
پہلے ضروری ہے اور پھر اہم تجربات
کے دور میں معیار سے کہیں زیادہ
اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ نئے
نئے اظہاروبیان کے طریقے اختیار
کیے جائیں، نہ کہ " اعلیٰ اور عظیم"
شاعری کا چوکھٹا لے کر اس میں قابلِ
قبول خوشگوار تبدیلیاں کر لی جائیں __ " 11؎
معاشرتی اقدار چونکہ ادیب پر براہِ راست اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں جو ان کی تخلیقی قوتوں/ صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ بعض ادیب اپنے تجربات میں حقیقت پسندی پر زور دیتے ہیں اور بعض اشارے کنا ئے میں بات کو بیان کرنے پر قادر ہوتے ہیں لیکن وہ ادیب جو سماجی اور تہذیبی مسائل کی نشاندہی کر کے ادبی تخلیق کر رہے ہوتے ہیں اگر وہ کسی مصلحت کی بنا پر اپنے دائرہ عمل سے ہٹ کر تخلیق کرتے ہیں تو وہ تحریر کھوکھلے اور پھیکے پن کا شکار ہو جاتی ہے۔ کچھ ادیب ایسے بھی ہیں جو تنقید و تنقیص کی تلوار تھامے ادب کے ذریعے صرف سماجی مرتبہ حاصل کرنے کے لیے آرزو مند دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے ادبا کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی یوں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
__" جب میں عہدِحاضر کے اردو ادب
اور ادیبوں کا خیال کرتا ہوں
تو معاً مجھے اس بڑے غبارے
کا دھیان آتا ہے جس کی ہوا نکل
گئی ہو اور وہ میلی کچیلی دھجی کی
مانند کسی بچے کے ہاتھ لٹک رہا ہو
اب اس غبارے کا استعمال صرف یہ ہے
کہ بچے اپنے منہ سے چھوٹے چھوٹے
غبارے بنائیںاور ہاتھ پر رکھ کر
پٹاخ سے پھوڑیں تاکہ گھر والے
چونک جائیں اور بچے مزالیں __ " 12؎
ادب کے فن ِ اظہار کا اصل موضوع انسانیت ہے اور انسان کے لیے ہی ہونا چاہیے جو کہ عام آدمی کے فہم میں بھی آ سکے کیونکہ اگر عام آدمی ادب کو بے معنی سرگرمی سمجھنے لگتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ معاشرہ اندر سے بہت بیمار ہے اور شاید مر رہا ہے۔ 13؎ اس لیے ادیب کا مطمح نظر صرف وقتی، سیاسی یا معاشی مفادات کا حصول نہیں ہونا چاہیے بلکہ انسانوں کے جذبات و احساسات کا ترجمان ہونا چاہیے۔ کیونکہ ادب محض دل بہلانے کا مشغلہ نہیں بلکہ زندگی کی تعمیر، تطہیر اور تزئین کا نہایت موثر اور معتبر وسیلہ ہے۔ 14؎ اس لیے اسے افادیت و مقصدیت اور تہذیب سے عاری نہیں ہونا چاہیے۔ اسے دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات، متنوع خیالات اور تغیر پذیر اقدار و روایات سے مطابقت کی صورت تلاش کر کے اندازِ فکر و عمل کونئے میلانات اور بدلتے ہوئے رجحانات سے ہم آہنگ ہو چاہیے۔ جو نہ صرف ادیب کی کشتِ فکر سے عالم میں سبزہ زار اگائے بلکہ تہذیبی انسلاکا ت کا بھی صورت گر ہو۔
{حوالہ جات}
1؎ محمد خاں اشرف، ڈاکٹر، ادب کیا ہے؟، لاہور، مرکز زبان و ثقافت، 2018 ء، ص: 19 ۔
2 ؎ ایضاً، ص : 18 ۔
3؎ ضیا فاطمہ، ڈاکٹر، جدید اردو غزل، الہٰ آباد، کرائون آفسٹ پرنٹرز، 1995 ء، ص: 23 بحوالہ گوپی چند نارنگ، قصہ جدید و قدیم، ص : 11 ۔
4؎ مطلوب عالم، میرؔا اور سودؔا کے عہد کی شاعری میں اخلاقی تصورات، تحقیقی و تنقیدی مقالہ برائے ایم فل، مملوگہ اورینٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی، لاہور، ص : 69 بحوالہ وزیر آغا، ڈاکٹر، نئے تناظر، آئینہ ادب، لاہور، 1981 ء ، ص : 173 ۔
5؎ حنیف فوق، ڈاکٹر، غالب نظر اور نظارہ، طبع اوّل، ادارئہ یادگار غالب، 2003 ء ، ص : 34 ۔
6؎ امریکی شاعر، مضمون نگار اور صحافی جو کہ 31 مئی 1819 ء کو نیو یارک میں پیدا ہوا اور 26 مارچ 1892 ء کو نیو جرسی میں اس کا انتقال ہوا۔
7 ؎ حنیف فوق، ڈاکٹر، غالب نظر اور نظارہ، طبع اوّل، ادارئہ یادگار غالب، 2003ء، ص: 24 ۔
8؎ ضیا فاطمہ، ڈاکٹر، جدید اردو غزل، الہٰ آباد، کرائون آفسٹ پرنٹرز، 1995 ء، ص: 22 بحوالہ سید احتشام حسین، جدید اردو منظر اور پسِ منظر میں، ص: 171 ۔
9؎ ضیا فاطمہ، ڈاکٹر، جدید اردو غزل، الہٰ آباد، کرائون آفسٹ پرنٹرز، 1995 ء، ص: 48 ۔
10 ؎ ایضاً، ص : 50 بحوالہ رشید احمد صدیقی، آفتاب، علی گڑھ، بیسویں صدی کا اردو ادب خاص نمبر 1944 ء ۔
11 ؎ ضیا فاطمہ، ڈاکٹر، جدید اردو غزل، الہٰ آباد، کرائون آفسٹ پرنٹرز، 1995 ء، ص: 25 ، بحوالہ باقر مہدی، تنقیدی کش مکش، ص: 58۔
12 ؎ ضیا فاطمہ، ڈاکٹر، جدید اردو غزل، محوالہ بالا، ص ، ص : 28,29 بحوالہ جمیل جالبی، ڈاکٹر، تنقید اور تجزیہ، ص 38 : ۔
13 ؎ جمیل جالبی، ڈاکٹر، ارسطو سے ایلیٹ تک، اسلام آباد، طبع دہم، نیشنل بُک فائونڈیشن، 2017 ، ص 3 : ۔
14؎ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، اردو کے چار بڑے شاعر، لاہور، الوقار پیلی کیشنز، 2015 ء، ص 520 : ۔